کیا کرونا وائرس (Corona Virus) سے مرنے والا شہید ہوگا

*⚖سوال و جواب⚖*

*مسئلہ نمبر 1101*

(کتاب الصلاۃ باب الجنازۃ)

*کیا کرونا وائرس (Corona Virus) سے مرنے والا شہید ہوگا*

*سوال:* ایک مسئلہ ہے جس طرح سے حدیث میں آیا ہے کہ طاعون کی بیماری میں اگر کوئی شخص انتقال کر جائے تو اس کو شہید کا ثواب ملتا ہے تو کیا جو موجودہ وبائی مرض کورونا وائرس سے اگر کوئی شخص انتقال کرجائے تو کیا اسکو بھی شہید کا ثواب ملے گا. دلیل کے ساتھ جواب مرحمت فرمائیں. (محمد ساجد ندوی جالون یو پی)

*بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم*

*الجواب وباللہ التوفیق*

طاعون کے بارے میں صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ طاعون مؤمنوں کے لیے رحمت ہے، رحمت اس معنیٰ کر ہے کہ اگر اس بیماری میں کسی شخص کی وفات ہوجائے اس حال میں کہ وہ اس پر صبر کرتا رہا اور اللہ سے ثواب کا امیدوار بھی رہا اور اس کا یقین اس قدر پختہ رہا کہ جو کچھ بھی اسے مصیبت پہنچی وہ اللہ کی تقدیر کے مطابق پہنچی، پھر اس شخص کی وفات اسی بیماری میں ہوجائے تو اسے شہید کا اجر ملے گا(١) بعض روایتوں میں آیا ہے "من مات في الطاعون فهو شهيد" کہ جس نے طاعون میں وفات پائی وہ شہید ہے(٢)

ان روایات سے استدلال کرتے ہوئے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ طاعون میں مرنے والا مسلمان شہید ہوگا، یعنی شہیدِ آخرت، شہید آخرت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اس کی تکفین و تدفین تو عام اموات کی طرح ہوگی؛ لیکن قیامت میں اس کا حشر شہداء کے ساتھ ہوگا اور ثواب بھی شہیدوں کی طرح ملے گا۔(٣)

طاعون چونکہ ایک وبائی مرض ہے اور انسان بکثرت اس وبا کے شکار ہوجاتے ہیں اس لئے محدثین نے طاعون سے مراد وبا لیا ہے؛ جیسے علامہ قسطلانی اور علامہ عینی نے طاعون کا مفہوم وبا سے بیان کیا ہے(٤) شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے بھی اس سے مطلقا وبائی مرض مراد لیا ہے(٥) گویا وبا میں مرنے والا شہید ہوگا اور ظاہر ہے کہ کرونا وائرس بھی ایک وبائی مرض ہے؛ اس لئے علت کے اشتراک کی بنا پر اس سلسلے میں بھی وہی بات کہی جاسکتی ہے جو طاعون کے سلسلے میں وارد ہوئی ہے، چنانچہ وہ شرائط جو طاعون زدہ کے بارے میں ہیں یعنی مسلمان ہونا، بیماری کا من جانب اللہ ہونا، اور اسی مرض میں موت ہونا وغیرہ اگر وہ کرونا وائرس کے مریض میں پائی جائیں تو ان شاء اللہ وہ بھی شہید آخرت ہوگا اور شہداء کی طرح اسے بھی ثواب ملے گا(٦)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

*????والدليل على ما قلنا????*

(١) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ : سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الطَّاعُونِ، فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ عَذَابٌ يَبْعَثُهُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ، وَأَنَّ اللَّهَ جَعَلَهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ، لَيْسَ مِنْ أَحَدٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ فَيَمْكُثُ فِي بَلَدِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا، يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ، إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ شَهِيدٍ. (صحيح البخاري رقم الحديث ٣٤٧٤ كِتَابٌ : أَحَادِيثُ الْأَنْبِيَاءِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ. | بَابٌ :)

(٢) وَمَنْ مَاتَ فِي الطَّاعُونِ فَهُوَ شَهِيدٌ (صحيح مسلم رقم الحديث ١٩١٥ كِتَابٌ : الْإِمَارَةُ | بَابٌ : بَيَانُ الشُّهَدَاءِ)

(٣) (ﻗﻮﻟﻪ: ﻭاﻟﻤﻄﻌﻮﻥ) ﻭﻛﺬا ﻣﻦ ﻣﺎﺕ ﻓﻲ ﺯﻣﻦ اﻟﻄﺎﻋﻮﻥ ﺑﻐﻴﺮﻩ ﺇﺫا ﺃﻗﺎﻡ ﻓﻲ ﺑﻠﺪﻩ ﺻﺎﺑﺮا ﻣﺤﺘﺴﺒﺎ ﻓﺈﻥ ﻟﻪ ﺃﺟﺮ اﻟﺸﻬﻴﺪ ﻛﻤﺎ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺚ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ (رد المحتار على الدر المختار باب الشهيد)

(٤) ”اي الذي يموت في الطاعون اي الوباء“ {ارشاد الساری شرح صحیح البخاری 29/2 مطبوعہ مصر}

هو الذي يموت في الطاعون اي الوباء ولم يرد المطعون بالسنان لانه الشهيد في سبيل اللہ والطاعون مرض عام فيفسد له الهواء فتفسد الامزجة والابدان {عمدۃ القاری 171/5 داراحیاء التراث العربی بیروت}

(٥) دیکھیے: اشعة اللمعات مترجم 753/3 فرید بک اسٹال لاہور}

(٦) القياس اصطلاحا: إلحاق ما لم يرد في بيان حكمه نص من الكتاب اوالسنة و لا الإجماع بأمر منصوص على حكمه في أحد هذه الأصول الثلاثة لاشتراكهما في علة الحكم. (الموجز في أصول الفقه ٢٤٣ لعبيد الله الأسعدي)

النص يحتاج إلى التعليل بحكم غيره لا بحكم نفسه. (قواعد الفقه ص ٨٧ الرسالة الثالثة عميم الاحسان المجددي)

*كتبه العبد محمد زبير الندوي* دار الافتاء و التحقیق مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا مورخہ 29/7/1441 رابطہ 9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔