گاندھی جی کا قتل اور گوڈسے کی سوچ

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(808) *گاندھی جی کا قتل اور گوڈسے کی سوچ-*

*موہن داس کرم چند گاندھی، جو عام طور پر مہاتما گاندھی کے نام سے جانے جاتے ہیں، انہیں ٣٠/ جنوری ١٩٤٨ء کو برلا ہاؤس (موجودہ گاندھی سمرتی) میں قتل کیا گیا، جہاں گاندھی کسی مذہبی میل ملاپ میں اپنے خاندان کے ساتھ موجود تھے، اس جگہ ہندو مہاسبھا سے تعلق رکھنے والا ایک انتہا پسند و قوم پرست ہندو شخص ناتھو رام گوڈسے پہنچا اور اس نے گاندھی جی پر گولی چلائی۔ حادثہ کے بعد گاندھی کو فوراً برلا ہاؤس کے اندر لے جایا گیا، مگر تب تک وہ دم توڑ چکے تھے۔ اس حملے سے پہلے ان پر پانچ مزید حملے بھی ہوئے تھے مگر ان سب میں قاتل ناکام رہے۔ ان میں سب سے پہلی ناکام کوشش ١٩٣٤ء میں کی گئی تھی۔ گاندھی جی محبت ورواداری کی بات کرتے تھے، خانہ دل کا معلوم نہیں؛ لیکن کتابوں میں انہیں انسانیت کا جلی عنوان دیا گیا ہے، اس کے باوجود انہیں قتل کردیا گیا، اس کے متعلق پڑھتے ہوئے اکثر خیال آتا ہے کہ آخر اس کی کیا وجہ تھی، دائرہ معارف نے چند اقتباسات نقل کئے ہیں، انہیں پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ناتھورام کی سوچ کیا تھی، جیسے ایک اقتباس یوں ہے.* *گوڈسے کا خیال تھا کہ گاندھی کے اُپواسوں نے (جو اعلان کے مطابق جنوری کے دوسرے ہفتہ میں ہونے والا تھا)، کابینہ کو اس بات پر مجبور کیا؛ کہ وہ ٥٥٠/ ملین روپیے نقد ١٣/ جنوری ١٩٤٨ء کو پاکستان کے حوالے کرے، (اور نو آزاد بھارت کی حکومت ٢٠٠ ملین روپیوں کی پہلی قسط پاکستان کے حوالے بھی کر چکی تھی۔ تاہم آزادی کے فوراً بعد جب پاکستان کی سرحد سے جنگجوؤں نے کشمیر پر حملہ کیا، جس کے متعلق دعوٰی کیا گیا؛ کہ ان لوگوں کو پاکستان کی پشت پناہی حاصل ہے، تب دوسری قسط کو روکنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ گوڈسے، آپٹے اور ان کے احباب یہ محسوس کرنے لگے کہ ان اقدامات کے ذریعہ بھارت کے ہندوؤں کی قیمت پر پاکستانی مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کی جا رہی ہے۔ گاندھی اور جواہر لال نہرو کے اس فیصلے سے ولبھ بھائی پٹیل کو بھی استعفٰی دینا پڑا تھا۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ گاندھی کا ہندو مسلم امن کے واسطے اپواس پاکستان کو پیسے دینے کے کابینی فیصلے کے بعد بھی تین دن تک جاری رہا۔ یہ ممکن ہے کہ گوڈسے اس حقیقت سے ناآشنا رہا ہو، تاہم اس بات کو باوثوق طور پر نہیں کہا جاسکتا ہے۔* *ایک دوسرے اقتباس میں گوڈسے کا احساس یوں نقل کیا جاتا ہے کہ جو افسوسناک صورت حال اور تکالیف کا دور تقسیم ہند سے شروع ہوا تھا، اسے روکا جاسکتا تھا، اگر بھارت سرکار اقلیتوں (ہندوؤں اور سکھوں) سے کیے جانے والے سلوک کے خلاف سخت احتجاج درج کرتی۔ اس کا احساس تھا کہ گاندھی نے ان مظالم کے خلاف احتجاج کرنے کی بجائے اُپواسوں کا راستہ اختیار کیا تھا۔ عدالت میں اپنی پیشی کے دوران میں اس نے کہا میں نے خود سوچا تو مستقبل اس طرح نظر آیا کہ میں تباہ و تاراج ہو جاؤں گا اور دیگر لوگوں سے اگر مجھے کچھ توقع ہے تو وہ نفرت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، اگر میں گاندھی جی کا قتل کرتا ہوں۔ مگر اسی کے ساتھ میں نے یہ محسوس کیا کہ گاندھی جی کے غیاب میں بھارت کی سیاست یقینی طور پر عملی ثبوت پیش کرے گی، انتقام لے سکے گی اور مسلح افواج کے ساتھ طاقتور رہے گی۔ بہر حال گوڈسے کی فاشسٹ تھی، وہ ہندو تشدد کا مارا تھا، جبکہ ہندوستان ہمیشہ بھائی چارگی اور آپسی میل. ملاپ کا ملک رہا ہے، اسی لئے گوڈسے اور اس کے ساتھی سازشی ڈِگمبر باڈگے، گوپال گوڈسے، نارائن آپٹے، وشنو کرکرے اور مدن لال پاہوا کو سرکردہ ہندو مہاسبھا کے ارکان کے طور پر شناخت کی گئی۔ ان میں سے پولیس نے ونایک دامودر ساورکر کو گرفتار کیا؛ کیونکہ وہ اصل شازشی مانا گیا تھا۔* *ساورکر کو تکنیکی بنیادوں پر چھوڑ دیا گیا تھا؛ حالانکہ اس بات کے پکے ثبوت تھے کہ وہ قتل ہی دن پہلے برسرعمل سازشیوں سے نہ صرف ملے تھے بلکہ اپنا آشیرواد بھی ان لوگوں کو دیا تھا۔ ١٩٦٧ء میں کپور کمیشن نے یہ ثابت کیا تھا؛ کہ ساورکر سازشیوں سے کئی مہینوں سے ربط وتعلق بنائے ہوئے تھے، ملزمین کا مقدمہ پیٹرہاف، شملہ میں چلا جو پنجاب ہائی کورٹ میں واقع ہے۔ یہ مقدمہ آٹھ مہینے چلا جس کے بعد جسٹس آتما رام نے اپنا آخری فیصلہ ١٠ فروری ١٩٤٩ء کو سنایا۔ آٹھ آدمیوں کو قتل کی سازش کا قصوروار پایا گیا۔ دیگر اصحاب کو دھماکا خیز مادّوں (Explosive Substances Act) کی خلاف ورزی کا قصوروار پایا گیا۔ ناتھورام گوڈسے اور ناراین آپٹے کو پھانسی دے دی گئی۔ دیگر چھ لوگوں کو (جن میں گوڈسے کا بھائی گوپال گوڈسے شامل تھا)، سزائے عمر قید دے دی گئی تھی۔ حالانکہ دتاتریہ پرچورے کو اصل مقدمے میں خاطی پایا گیا تھا، اسے بعد کی ایک اپیل پر بری کر دیا گیا تھا؛ لیکن کہتے ہیں کہ انسان کو مارا جاسکتا ہے اس کی سوچ کو نہیں ہے، چنانچہ گاندھی کی سوچ آج بھی زندہ ہے، اور گوڈسے کی فکر کے لوگ اگرچہ مرکزی حکومت تک پہوچ گئے ہیں مگر اپنی فکروں کو لاگو کرنے میں میں ناکام ہیں، یہ گاندھی کا ملک ہے، اور گاندھی کا ہی رہے گا.*

✍ *محمد صابر حسین ندوی* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 30/01/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔