*کورونا واءیرس* اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں خلق خدا کو سخت دقتوں، زحمتوں اور پریشانیوں کا سامنا ہے، لاکھوں لوگ نان شبینہ کے محتاج ہیں، دانے دانے کو ترس رہے ہیں، لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں، کڑوروں لوگوں کے لیے ذریعہ معاش کا مسئلہ کھڑا ہوگیا، ہفتوں سے گھروں میں مرد کے قید رہنے کی وجہ سے بہت سے گھرانے میں زوجین یعنی میاں بیوی کے درمیان لڑائی اور جنسی زیادتی کے بھی سینکڑوں واقعات سامنے آرہے ہیں۔ تو وہیں اس کرونا واءیرس اور لاک ڈاؤن کے بہت سے خشگوار پہلو بھی سامنے آرہے ہیں، اور قدرت کی ایک سے ایک نشانیاں اور عبرت و موعظت کے بے شمار نمونے اور واقعات سامنے آرہے ہیں، جس میں ایمان والوں کے لیے سبق اور پیغام ہے۔ اللہ تعالی شر سے بھی خیر کے پہلو کو نکالتے رہتے ہیں ۔
اس وقت ہمیں ان تفصیلات کو بیان کرنا نہیں ہے۔ اصحاب علم و قلم نے اس جانب اپنی تحریروں میں بھرپور توجہ دلائی ہے۔
حسن اتفاق ہے کہ آج لوگوں کو درون خانہ زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا ہے۔ چوبیس گھنٹے لوگ بیوی بچوں کے ساتھ گھر میں وقت گزار رہے ہیں، اس وقت قرآن و سنت سے ہم یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ گھر کا سربراہ کون ہے، مرد یا عورت یا دونوں کی ساجھا سرکار؟ آپ سوال کریں گے کہ اس موضوع پر لکھنے اور بحث کی کیا ضرورت ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ اس سلسلہ میں بھی لوگ افراط و تفریط کے شکار ہیں۔ بعض لوگ گھر کی پوری سربراہی اور حکومت عورت کے حوالے کر دیتے ہیں، پوری تنخواہ لاکر بیوی کے حوالے کردیتے ہیں، پھر جیب خرچ،آٹو رکشہ کا کرایہ، بال کٹوانے لب بنوانے،پٹرول اور ہوا بھرانے کا پیسہ بیوی سے طلب کرتے ہیں، اپنے پاس کچھ بھی نہیں رکھتے اگر کسی عزیز یا رشتہ دار (خاص طور پر بھانجہ بھتیجہ کو) کو کچھ دینا بھی چاہتے ہیں تو بیوی کے ڈر سے نہیں دے پاتے جب کے نسبتی بھائیوں اور سسرالی رشتہ داروں کے لیے کچھ مشکل نہیں ہوتا کیونکہ؟؟؟؟؟۔ ایک طرف یہ حال ہے, تو دوسری طرف بعض لوگ اس معاملے میں اتنے سخت ہیں کہ وہ بیوی کو اس کا جائز اور صحیح مقام نہیں دیتے سارے اختیارات اپنے قبضہ میں رکھتے ہیں یا اگر مشترکہ خاندان ہے تو والد یا بڑے بھائی کو یہ اختیارات دے دیتے ہیں۔ پوری ملکیت اور اختیارات گارجین کی حیثیت سے ان کے ہوتے ہیں۔ بیوی کو گھر کے معاملے میں اور شوہر کی آمدنی پر کچھ اختیار نہیں ہوتا۔ اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ قوامیت کا حق صرف مرد کو حاصل ہے۔ یہ دونوں راستے درست نہیں ہیں، یہ دونوں راہیں اور عمل افراط و تفریط والے ہیں۔
اسلام اس بارے میں بھی مرد کی قوامیت کو باقی رکھتے ہوئے توازن و اعتدال کا حکم دیتا ہے۔ قارئین باتمکین! آپ سب ان دنوں فرصت میں ہیں ، اس لیے اس حوالے سے قرآن و سنت کی تعلیمات اور رہنمائی کا مطالعہ ضرور کیجئیے۔ بڑا دلچسپ موضوع بھی ہے۔ کچھ رطب و یابس اس خاکسار کی تحریر میں بھی ملاحظہ کیجئیے۔ *م ق ن*
*اس* حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ہر اجتماعی نظام کے لئے عقلا اور عرفا یہ ضروری ہے کہ اس کا کوئ سربراہ حاکم یا امیر ہو کہ اختلاف و نزاع اور باہمی کشمکش کے وقت اس کے فیصلے سے کام چل سکے ،جس طرح ملک و سلطنت اور ریاست و حکومت سب کے نزدیک مسلم ہے ،اسی طرح قبائلی نظام میں بھی اس کی ضرورت و افادیت ہمیشہ محسوس کی گئ اور کسی ایک شخص کو خاندان اور قبیلہ کا روح رواں اور میر کارواں ( حاکم و سردار ) مانا گیا ہے،اسی طرح عائلی نظام میں جس کو عرف میں خانہ داری کہا جاتا ہے اس میں بھی ایک امیر اور سربراہ کی ضرورت ہے ،عورتوں اور بچوں کے مقابلے میں اس کام کے ئے حق سبحانہ تعالی نے مردوں کو منتخب فرمایا کہ ان میں علمی اور عملی قوتیں اور صلاحیت بہ نسبت عورتوں اور بچوں کے زیادہ ہیں ،اور یہ ایسا معاملہ ہے کہ کوئ حقیقت پسند اس کا انکار نہیں کرسکتا ۔ ( مستفاد معارف القرآن سورہ نساء آیت 64)
یہی وجہ ہے کہ *قرآن مجید* میں ایک موقع پر بطور خاص پر مرد اور عورت کے درجہ کی تعیین کرتے ہوئے فرمایا گیا :
*الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علی بعض و بما انفقوا من اموالھم* ۔ (النساء آیت نمبر 64 )
مرد عورت کے نگران اور حاکم ہیں اس لئے کہ اللہ تعالی نے ایک صنف (قوی ) کو دوسری صنف (ضعیف و کمزور ) پر بڑائ دی ہے کہ مرد عورتوں پر اپبا مال خرچ کرتے ہیں ۔
اس آیت کریمہ میں مرد کو عورت پر قوام بنایا گیا ہے ۔
عربی زبان میں قوام اسے کہتے ہیں جو کسی کی حمایت، حفاظت اور کفالت کا ذمہ دار بن کر کھڑا ہو ،اور جو شخص ان امور کی ذمہ داری لے گا ،تسلط اور حکومت اس کے لئے ضروری اور لازم ہے ۔
مفسر قرآن و مشہور عالم دین *مولانا امین احسن اصلاحی لفظ *قوام* کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
*عربی زبان میں ۰۰ قام کے بعد علی آتا ہے تو اس کے اندر نگرانی ،محافظت، کفالت اور تولیت کا مضمون پیدا ہو جاتا ہے ۰۰ *قوامون علی النساء* ۰۰ میں بالا تری کا مفہوم ہے اور کفالت و تولیت کا بھی یہ دونوں باتیں کچھ لازم و ملزوم سی ہیں ۔ گھر کی چھوٹی سی وحدت بھی جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ،ایک چھوٹی سی ریاست ہے،جس طرح ہر ریاست اپنے قیام و بقا کے لئے ایک سربراہ کی محتاج ہوتی ہے ،اسی طرح یہ ریاست بھی ایک سربراہ کی محتاج ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس ریاست میں سربراہی کا مقام مرد کو حاصل ہے یا عورت کو ؟
قرآن نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ مقام مرد کو حاصل ہے اور اس کے حق میں دو دلیلیں دی ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالی نے مرد کو عورت پر فضیلت بخشی ہے ،مرد کو بعض صفات میں عورت پر نمایاں تفوق (برتری) حاصل ہے جنکی بنا پر وہی سزا وار ہے کہ قوامیت کی ذمہ داری اس پر ڈالی جائے، مثلا محافظت و مدافعت کی جو قوت و صلاحیت یا کمانے اور ہاتھ پاوں مارنے کی جو استعداد ہمت اس کے اندر ہے وہ عورت کے اندر نہیں ہے، یہ امر ملحوظ رہے کہ یہاں زیر بحث کلی فضیلت نہیں ہے بلکہ وہ فضیلت ہے جو مرد کی قوامیت کے استحقاق کو ثابت کرتی ہے۔ بعض دوسرے پہلو سے عورت کی فضیلت کے بھی ہیں لیکن ان کو قوامیت سے تعلق نہیں ہے ۔ مثلا عورت گھر سنبھالنے اور بچوں کی پرورش و نگہداشت کی جو صلاحیت رکھتی ہے ۔ وہ مرد نہیں رکھتا ۔ اسی وجہ سے قرآن نے یہاں بات ابہام کے انداز میں فرمائ ہے جس سے مرد اور عورت دونوں کا کسی نہ کسی پہلو سے صاحب فضیلت ہونا نکلتا ہے ۔ لیکن قوامیت کے پہلو سے مرد ہی کی فضیلت کا پہلو راجح ہے ۔ دوسری یہ کہ مرد نے عورت پر اپنا مال خرچ کیا ۔ بعض بیوی بچوں کی معاشی اور کفالتی ذمہ داری تمام اپنے سر اٹھاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ ہر ذمہ داری مرد نے اتفاقیہ یا تبرعا نہیں اٹھائی ہے بلکہ اس وجہ سے اٹھائ ہے کہ یہ ذمہ داری اس کے اٹھانے کی ہے ۔ وہی اس کی صلاحیت رکھتا ہے اور وہی اس کے حق ادا کرسکتا ہے* ۔
تدبر قرآن ص: ۲۹۱ ۔ ۲۹۲ جلد دوم از مولانا امین احسن اصلاحی صاحب رح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*صاحب تفہیم القرآن* لفظ *قوام* کی تشریح میں لکھتے ہیں :
*قوام یا قیم اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے اور اس کی حفاظت و نگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہو ۔ یہاں فضیلت بمعنی شرف اور کرامت اور عزت نہیں ہے، جیسا کہ ایک عام اردو خواں آدمی اس لفظ کا مطلب لیگا، یہاں یہ لفظ اس معنی میں ہے کہ ان میں سے ایک صنف (یعنی مرد) کو اللہ نے طبعا بعض ایسی خصوصیات اور قوتیں عطا کی ہیں جو دوسری صنف ( یعنی عورت) کو نہیں دیں یا اس سے کم دی ہیں ۔ اس بنا پر خاندانی نظام میں مرد ہی قوام ہونے کی اہلیت رکھتا ہے اور عورت فطرة ایسی بنائ گئ ہیں کہ اسے خاندانی زندگی میں مرد کی حفاظت و خبر گیری کے تحت رہنا چاہیے*۔ (تفہیم القرآن جلد ۱/ صفحہ ۳۴۹)
*مفتی محمد شفیع صاحب رح* لفظ قوام کی تفسیر و توضیح میں لکھتے ہیں :
*خلاصہ یہ کہ سورئہ بقرہ کی آیت میں و للرجال علیھن درجة فرماکر اور نساء کی آیت مذکورہ میں الرجال قوامون علی النساء فرما کر یہ بتلایا گیا کہ اگر چہ عورتوں کے حقوق مردوں پر ایسے ہی لازم و واجب ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر ہیں اور دونوں کے حقوق باہم مماثل ہیں، لیکن ایک چیز میں مردوں کو امتیاز حاصل ہے کہ وہ حاکم ہیں ۔ اور قرآن کریم کی دوسری آیات میں یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ حکومت جو مردوں کی عورتوں پر ہے محض آمریت اور استبداد کی حکومت نہیں، بلکہ حاکم یعنی مرد بھی قانون شرع اور مشورہ کا پابند ہے، محض اپنی طبیعت کے تقاضے سے کوئ کام نہیں کرسکتا ،اس کو حکم دیا گیا کہ عاشروھن بالمعروف یعنی عورتوں کے ساتھ معروف طریقہ پر اچھا سلوک کرو ۔ اسی طرح دوسری آیت میں عن تراض منھا و تشاور کی تعلیم ہے،جس میں اس کی ہدایت کی گئی کہ امور خانہ داری میں بیوی کے مشورے سے کام کریں ،اس تفصیل کے بعد مرد کی حاکمیت عورت کے لئے کسی رنج کا سبب نہیں ہوسکتی،چونکہ یہ احتمال تھا کہ مردوں کی اس فضیلت اور اپنی محکومیت سے عورتوں پر کوئ ناخوشگوار اثر ہو ،اس لئے حق تعالی نے اس جگہ صرف حکم بتلانےاور جاری کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا ؛ بلکہ خود ہی اس کی حکمت اور وجہ بتلا دی ،ایک وہبی جس میں کسی کے عمل کا دخل نہیں، دوسرے کسبی جو عمل کا اثر ہے ۔ پہلی وجہ یہ ارشاد فرمائ بما فضل اللہ بعضھم علی بعض یعنی اللہ تعالی نے دنیا میں خاص حکمت و مصلحت کے تحت ایک کو دوسرے پر بڑائ دی ہے، کسی کو افضل کسی کو مفضول بنایا ہے ،جیسے ایک خاص گھر کو اللہ تعالی نے اپنا بیت اللہ اور قبلہ قرار دیدیا ،بیت المقدس کو خاص فضیلت دیدی ،اسی طرح مردوں کی بھی حاکمیت ایک خدا داد فضیلت ہے،جس میں مردوں کی سعی و عمل یا عورتوں کی کوتاہی و بے عملی کا کوئ دخل نہیں ہے ۔ دوسری کسبی اور اختیاری ہے کہ مرد اپنا مال عورتوں پر خرچ کرتے ہیں، مہر ادا کرتے ہیں، اور تمام ضروریات کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں ۔ ان دو وجہ سے مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا گئا ہے*۔
(معارف القرآن جلد دوم صفحہ ۳۹۶ ۔ ۳۹۷ )
*نوٹ مضمون اور پیغام کا اگلا حصہ کل ملاحظہ فرمائیں*