ہاۓ یہ بِسّیاں بِسّی نہیں سودی کاروبار ہے

*مفتی احتشام حسین اشاعتی غفرلہ*

(خادم دارالافتاء والارشاد، رحمت آباد، مالیگاٶں) 9881642902

مالیگاٶں شہر میں بِسّی سے کون واقف نہیں ہے، پورے شہر میں جگہ جگہ بِسّیاں لگاٸی جاتی ہیں، بلکہ پورے ملک میں یہ معاملہ معروف ہے، مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے اسے جانا جاتا ہے، کہیں پر بیسی کہتے ہیں تو کسی علاقے میں چِٹ فنڈ کہاجاتا ہے، کہیں پر قرعہ کہتے ہیں تو کہیں چِٹھی ڈالنا کہا جاتا ہے، اس کا طریقہ یہ ہوتا ھیکہ کچھ ممبران کسی ایک آدمی کے پاس مثلاً پانچ سو روپیہ والی بسی بیس لوگوں نے لگاٸی، بسی کا ایک منتظم ہوتا ہے جس کے پاس سب ممبران کے پیسے جمع ہوتے ہیں، قرعہ اندازی کے ذریعہ متعینہ نمبر پر ممبر کو بیس ھزار جمع کرکے دے دیا جاتا ہے، گویا کہ ممبروں کی حیثیت اس دوران قرض دہندہ اور مقروض کی ہوتی ہے، کہ ہر ممبر جتنا بھرتا ہے بغیر کسی کمی بیشی کے اسے اتنا مل جاتا ہے، یہ شکل جاٸز ودرست ہے بلکہ باہمی تعاون وھمدردی کا ایک اچھا طریقہ بھی ہے، کہ یکمشت ایک خطیر رقم مل جانے سے ضروریات بسھولت پوری ہوجاتی ہیں اور بسیوں کا مقصد بھی یہی ہے، لیکن آج کل لوگوں نے اس میں ناجاٸز طریقے اور ناجاٸز شرطیں پیدا کردی ہیں جس سے وہ سود اور قمار جیسے قبیح گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں، انھیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے پیٹوں میں کتنے لوگوں کا پیسہ ناجاٸز طریقے سے ہڑپ کر جاتے ہیں، پوری بسی میں جو ناجاٸز ، حرام اور سودی شکلیں ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں،

جب بسی شروع ہوتی ہے تو پہلے ھفتہ میں تمام ممبران سے رقم لیکر قرعہ اندازی کی جاتی ہے، یعنی چِھٹی کھولی جاتی ہے، اب جس ممبر کا دور نمبر کھلتا ہے تو وہ بسی سے نکل جاتا ہے، وہاں سے پیسہ نہیں بھرتا ، اور جو رقم جمع کیا تھا وہ واپس نہیں ملتی، مثلا ایک ھزار والی بسی سو لوگوں نے لگاٸی تھی جس میں سے پچیس تیس لوگوں کے نمبر دور آنے کی وجہ سے وہ بسی سے نکل گۓ تو اب یہ پچیس تیس ھزار کی رقم بسی کا منتظم خود رکھ لیتا ہے کسی کو واپس نہیں کرتا، جبکہ یہ رقم بسی کے منتظم کے لۓ استعمال کرنا جاٸز نہیں ہے چاھے پہلے ہی سے کیوں نہ بتا دیا گیا ہو، نیز ممبران کو بھی چاھیۓ کہ جب بسی لگاٸی ہے تو بسی سے نہ نکلیں تاکہ گناہ میں آپ کا تعاون نہ ہو،

اسی طرح بسی کا ذمہ دار قصدا اپنا خوب زیادہ نمبر بسی میں ڈال دیتا ہے اور پھر اسکے جتنے بھی نزدیک نمبر کھلتے ہیں وہ ان نمبروں کو دور کھلنے والے ممبروں کو دے دیتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ جب بھی آپ کی بسی اٹھے گی کُل رقم میں سے کچھ رقم کاٹ لی جاۓ گی، یہ عمل بھی شرعا ناجاٸز ہے، اسی طرح بسی بھرنے میں کسی ممبر سے تاخیر ہوجاتی ہے تو ممبر سے جرمانہ لیا جاتا ہے، یہ جرمانہ لینا بھی جاٸز نہیں ہے،

اسی طرح بعضے ممبر بھی اپنا قریب نمبر کھلنے پر کسی ضرورت مند کو کچھ رقم کے عوض اپنا نمبر فروخت کردیتے ہیں یہ بھی جاٸز نہیں ہے،

یہ ساری چیزیں ھمارے یہاں بہت عام ہوچکی ہے، بلکہ اب بسی لگانے کا مقصد ہی یہی ہوتا ھے اور جان بوجھکر ایسا کیا جاتا ہے تاکہ اس سے خوب نفع حاصل ہو، جبکہ یہ سخت گناہ کی بات ہے اور ان روپیوں کا استعمال بھی حرام ہے، قرآن نے سختی کے ساتھ منع کیا ھیکہ اے ایمان والو تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجاٸز طریقے سے مت کھاٶ، لھذا ھمیں اسکی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، پیسے دو پیسے کی خاطر ھم اپنی آخرت برباد نہ کریں اور نہ ہی اپنے پیٹ کو جھنم کی آگ سے بھریں، بِسّی چلانا ہے تو صحیح نیت اور جاٸز طریقے سے چلاٸیں اور ممبران بھی ان کا صحیح تعاون کریں، اللہ ھم سب کو عمل کی توفیق عطا فرماٸیں، اور مال حرام سے ھم سب کی حفاظت فرماۓ،،،،،

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔