*⚖️سوال وجواب⚖️*
????️مسئلہ نمبر 1324????️
(کتاب النکاح، متفرقات)
*ہبہ کیئے گئے مکان کو واپس کرنا*
سوال :- میری ایک بہن ہے ۔ جن کے شوہر نے بہت ۔ بہت پہلے ۔ آج سے تقریبا 15 ۔ 17 سال پہلے ان کو چھوڑ دیا تھا ۔ طلاق تو نہیں دی ۔ لیکن ۔ بس ۔ بے یار و مددگار چھوڑدیا تھا ۔ ۔۔۔ ان کے شوہر نہ آتے تھے ۔ اور نہیں کوئی نان نفقہ ۔خرچہ پانی ۔ دیتے تھے ۔ نہ حال احوال پوچھتے تھے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
میری اس بہن کے ۔ 4 بیٹیاں ۔ اور ۔ 1 بیٹا ہے ۔ ۔۔۔
میری بہن نے ۔ ۔۔ گھروں میں کام کاز کرکے ۔ اپنی اولاد کی پرورش کی ۔ کرایہ کے گھر پر رہکر گھر کا کرایہ بھی دیا ۔ اور ۔ تین بیٹیوں کی شادی کی ۔ اور بیٹے کو پڑھایا ۔ حافظ ۔ عالم بنایا ۔ اچھی جگہ کام پر لگایا ۔(امامت اور۔ مکتب ۔ دونو میں ۔ اچھا کماتا ہے) ۔ اور شادی بھی کی ۔۔۔۔ ۔۔ اب ایک بیٹی کی شادی باقی ہے ۔ بس ۔
مینے اپنی اس بہن کے لیے ایک مکمل گھر بناکر دیا ۔ ۔ ۔ انکے حوالے کر دیا ۔۔۔ تاکے وہ سکون سے ایک جگہ رہ سکے ۔ اِدھر اُدھر دھکے نہ کھائے ۔۔۔۔
لیکن جب بیٹے کی شادی کردی تو ۔۔۔ بیٹا اس کی بیوی کی ۔ اور اسکے سسرال کے گھر والوں کی باتوں ۔ میں آکر ۔ اس کی ماں کو تکلیف دے رہا ہے ۔ ۔ ۔ برابھلا کہتا ہے ۔ گھر کا خرچہ بھی مکمل نہیں دے رہا ہے ۔۔۔
اب اس سلسلے میں کچھ سوالات ہیں ۔ امید ہے کہ مکمل تفصیل سے جواب مرحمت فرمائیں گے ۔
1 :- میری بہن اپنے اس بیٹے کو اب الگ رہنے کو کہہ رہی ہے ۔ ۔ ۔ تو اس صورت میں بیٹے کے ذمہ ۔ اس کی ماں ۔ کا ۔اور اس کی بہن کا خرچہ لازم ہوگا یا نہیں ؟ جو بہن غیر شادی شدہ ہے ۔۔۔
2 :- جو گھر مینے بناکر دیا تھا اپنی اس بہن کو ۔ وہ گھر اب مجھے واپس کرنا چاہتی ہے ۔ تو کیا اسطرح واپس کرنا شرعا صحیح ہے ۔ ۔ ۔ اگر صحیح ہے تو اسکی کیا شکل ہے ؟ مثلا صرف کہنا صحیح ہوگا یا باقاعدہ ملکیت میں لینا ہوگا ۔ اس کے لیے گھر کے دستاویز سے بہن کا نام نکال کر اپنا نام دستاویز کرنا ہوگا ۔۔۔ یا صرف اس گھر میں جاکر قبضہ کرلینا کافی ہوگا ۔۔ ۔ نام تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی ۔۔۔ ؟
3 :- میرے بہن کہہ رہی ہے کے یہ گھر میں اس کو دوں گی جو میری ۔دوا ۔ علاج ۔ خدمت ۔ کرے ۔۔۔ تو کیا اسطرح کہنا اور کرنا صحیح ہے ۔ اسطرح کسی ایک کو دے سکتے ہے ؟ کوئی گناہ ۔ ناجائز تو نہیں ہے ۔۔ ؟ (المستفتی :- عبداللہ ۔۔۔ متحدہ عرب امارات)
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
*الجواب و باللہ التوفیق*
مذکورہ بالا صورت افسوسناک بھی ہے اور تکلیف دہ بھی، اللہ تعالیٰ انسانوں کو سمجھنے اور دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں، جو سوالات اوپر کئے گئے ہیں ان کے بالترتیب جوابات یہ ہیں کہ جب عورت کا شوہر یا باپ خرچہ برداشت نہ کرے تو پھر بیٹا اور بھائی کا حق ہوتا ہے کہ وہ ان کے اخراجات کو برداشت کریں؛ اس لیے مذکورہ بالا صورت میں لڑکے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ماں اور بہن کا خرچہ برداشت کرے لیکن معتدل طریقہ یہ ہے کہ وہ بیٹے کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کرے۔
اگر بہن اپنی رضامندی سے مصلحتاً مکان واپس کر رہی تو واپس کر سکتی ہے اور اس کو مکمل طور پر قبضہ دے دے اور کاغذات بھی اس کے نام کردے ورنہ بعد میں دقت آئے گی۔
زیادہ خدمت کرنے والے کو بھی دے سکتی بشرطیکہ زندگی میں ہی مالک بنا دے ورنہ مال میراث ہوسکتا ہے اور پھر شرعی طور پر تقسیم کرنا ہوگا۔
فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب
*????والدليل على ما قلنا????*
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية". ( الفتاوى الهندية 4/378 الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط: رشیدیہ)
و في ظاهر الرواية: البنت البالغة و الغلام البالغ الزمن بمنزلة الصغير نفقته على الأب خاصة. (فتاوى قاضي خان ٢٦٧/١ كتاب النكاح فصل في النفقات)
قال: ويجبر الولد الموسر على نفقة الأبوين المعسرين مسلمين كانا، أو ذميين قدرا على الكسب، أو لم يقدرا. (الفتاوى الهندية ٥٨٦/١ كتاب الطلاق باب النفقات، الفصل الخامس، زكريا جديد)
*كتبه العبد محمد زبير الندوي*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مورخہ 25/3/1442
رابطہ 9029189288
*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔