اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور، فہم و فراست، بصارت و بصیرت اور قوت ادراک سے نوازا ہے۔ انسان پابند ہے کہ وہ ان نعمتوں صلاحیتوں اور تجربات سے فائدہ اٹھائے۔ اور اپنے کو ہر طرح کے دھوکے اور نقصان سے بچائے، کسی کے دام فریب میں مبتلا نہ ہو۔ سمجھداری اور شعور سے کام لے، سرپٹ کسی کی تقلید اور پیروی میں نہ لگ جائے اور کسی کی ہر بات کو بلا سوچے سمجھے اپنے لیے واجب العمل نہ سمجھ لے، اور اپنے دین و دنیا کا نقصان کرلے۔ زندگی گزارنے کے لیے جو ٹھوس اور بنیادی اصول ہیں ان کا ضرور لحاظ رکھے۔ مومن کو اس قدر بیدار، باخبر اور باشعور رہنا چاہیے کہ اگر کبھی ایک بار کسی سوراخ سے ڈسا جائے تو یہ اس کے لئے آیندہ کے لیے عبرت ہوجائے کہ اب ہم کو اس کا سامنا نہ کرنا پڑے، آپ صلی علیہ وسلم نے فرمایا:
مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔۔۔۔۔بخاری۔۔۔۔
ابن ہشام نے تہذیب سیرت میں لکھا ہے کہ مومن دو بار ایک سوراخ سے نہیں ڈسا جاتا سب سے پہلے آپ ہی کی زبان مبارک سے یہ جملہ نکلا اور پھر یہ ضرب المثل بن گیا۔
آج حال یہ ہے کہ پڑھے لکھے اور باشعور لوگ بھی جب کسی کو اپنا مرجع اور مقتدا مان لیتے ہیں تو پھر وہ اپنے عقل و شعور اور فہم و ادراک کو جامد کر لیتے ہیں اب وہ جو کچھ سمجھیں گے ان کے فہم و شعور کی روشنی میں سمجھیں گے ان کی ہر بات کی تائید کریں گے، چاہیے ان کے حضرت کا مسلک اور فتویٰ سلف سے ہٹ کر ہی کیوں نہ ہو، چاہیے وہ جمہور سے ہٹ کر ہی کوئی موقف کیوں نہ اپنانے ہوں۔ یہ روش اور اس طرح کی تقلید و پیروی قرآن و سنت کی روشنی میں درست نہیں ہے۔ ایسے لوگ شریعت میں پسندیدہ نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امعہ کہا ہے ، جو بلا سوچے سمجھے کسی کی تقلید کرے اور سرپٹ کسی کے پیچھے دوڑے اور اس کو اپنا رہنما اور مقتدیٰ بنائے ۔
شریعت اس بارے میں ہمیں کیا رہمنائی اور گائڈ لائن دیتی ہے آئیے اس بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں اور اس کی روشنی میں زندگی گزارنے کا عزم کرتے ہیں۔
*آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے ایک موقع پر صحابئہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : *تم امعہ نہ بنو کہ کہنے لگو کہ لوگ نیکی اور بھلائی کریں گے تو ہم بھی کریں گے اور بھلائی کی روش اختیار کریں گے اور اگر لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی کریں گے بلکہ اپنے دل کو ٹکا دو ،اگر لوگ نیکی کریں تو تم پر لازم ہے کہ نیکی کرو اور اگر وہ برائی کریں تب بھی تم ظلم نہ کرو* ۔ ترمذی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*امعہ* عربی زبان میں ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنی رائے اور اصول پر قائم نہ رہے بلکہ عقل اور فکر و نظر میں دوسروں کا تابع ہوکر رہے ۔ وہ ہر چیز میں کسی دوسرے کا تابع اور مقلد بن کر رہے خواہ سامنے والے کی رائے و سوچ شریعت کی نظر میں غلط ہی کیوں نہ ہو ۔ اور اللہ تعالی نے جو عقل سلیم اور فہم عمیق کی دولت اور نعمت عطا کی ہے اس کا وہ استعمال نہ کرے ۔ شریعت میں اس طرز عمل کی گنجائش نہیں ہے کہ ہمارا ہر فیصلہ دوسروں کے تابع ہو ۔ ہم ہر چیز کو دوسروں کی فکر اور نظر ہی سے سمجھیں اور اللہ تعالٰی نے فہم و ادراک اور بصیرت و بصارت کی جو عظیم نعمت سے ہمیں خود بھی مالا مال کیا ہے اس کو استعمال نہ کریں اور اسے پس پشت ڈال دیں ۔
*آج* ہم فکری اعتبار سے مفلوج اور ناکارہ ہو گئے ہیں ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ ہم امعہ میں گرفتار ہوگئے ہیں ہم یہ کہنے لگے ہیں کہ لوگوں کا طرز عمل ہمارے ساتھ جیسا ہوگا وہی طرز عمل ہمارا ان کے ساتھ ہوگا ۔ یہ راستہ اور طریقہ ایمان والوں کا نہیں بلکہ ایمان والوں کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی اپنی کوئی رائے ،فکر اور سوچا سمجھا طریقہ ہونا چاہیے جس پر وہ مضبوطی سے کاربند ہوں۔ غلط لوگوں کی غلط کاری ہرگز کسی کے لئے پیروی کے لائق نہیں ہوسکتی۔
آج کتنے ہی برے اور غلط کام لوگ بگڑے ہوئے سماج کے بگڑے ہوئے لوگوں کی اندھی تقلید اور اندھی پیروی میں کرتے ہیں ۔ آدمی کو خود ہر ایک کام کے حسن و قبح پر غور و فکر کرکے ایک سنجیدہ فیصلہ کرنا چاہیے اور ایک ٹھوس قدم اٹھانا چاہیے اور اپنے فیصلے پر استقلال کے ساتھ عمل پیرا ہونا چاہیے ۔ غلط لوگوں کی پیروی سے انسان کو بچنا چاہیے یہی فلاح و کامرانی کی صحیح راہ ہے ۔
*اس* حدیث میں انسان کو کردار سازی کی دعوت دی گئی ہے ۔ کردار سازی کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کا اپنی زندگی کے بارے میں ایک سوچا سمجھا سنجیدہ فیصلہ ہو یہ نہیں کہ اس کا اپنا کوئی موقف ارادہ اور فیصلہ ہی نہ ہو اور بس دوسروں کے پیچھے سرپٹ دوڑنے پر مجبور ہو ۔ ایسا شخص بے کردار ہے ۔ کردار کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی زندگی میں توافق اور وحدت قائم کرے کیونکہ جب تک زندگی میں توافق اور وحدت کی جلوہ گری نہیں ہوگی معاشرے میں بھی توافق اور وحدت کی جلوہ گری ممکن نہیں ۔ اخلاق و کردار کی تعمیر اور خواہشات و جذبات میں وحدت و توافق پیدا کرنے کے لئے کچھ چیزیں درکار ہیں ۔ پہلی چیز یہ کہ زندگی کی کچھ مستقل قدریں مقاصد اور اہداف ہو آدمی کو اس کا علم رہے اور اس پر مضبوطی سے ایمان لائے ۔ زندگی کی کوئی بنیادی مقصد اور غرض و غایتی ہو حرص و ہوس عہدہ و منصب کی طمع اور مادی و افادی نقطہ نگاہ سے بلند ہو ۔ ایک آخری چیز یہ بھی ہے کہ انسان کا تسلسل حیات پر یقین ہو ۔ دائمی حیات کے بغیر دائمی اور مستقل قدروں کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ جب تک آدمی اس پر یقین نہ رکھتا ہو کہ اس کے افکار و نظریات اعمال و افعال اس کے مستقبل کو متاثر کرتے ہیں اس وقت تک کسی مستحکم سیرت و کردار کی توقع نہیں کی جاسکتی جس معاشرے کے افراد کا منتہائے خیال قریبی اور فوری مفاد کا حصول ہو ان سے کسی اعلی کردار کی توقع نامکمن اور فضول ہے ۔ اوپر جن بنیادی چیزوں کو ذکر کیا گیا اس کا وجود اللہ کے بغیر ممکن نہیں اس لئے کہ کردار و اخلاق کو استحکام اسی وقت میسر ہوسکتا ہے جب کہ یہ دنیا بے خدا نہ ہو ۔
انبیاء کرام کا اور خاص طور پر آخری نبی و رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے انسانی زندگی کے لئے وہ ساری مطلوبہ چیزیں فراہم کردیں جن کی ضرورت سیرت و کردار اور اعمال و اخلاق کی تعمیر کے لئے پیش آتی ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم انبیاء کی تعلیمات اور قرآن مجید کی پوری تعلیمات خاص طور پر اصول معاشرت کو ??ختیار کریں اور خود کو اور اپنے معاشرہ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی کوشش کریں ۔ (مستفاد کلام نبوت ، ٢،ص، ۲۴۷ از مولانا محمد فاروق خاں)