???? *صدائے دل ندائے وقت*????(811)
*ہندوستان معاشی بحران کا شکار---لیکن___!!*
*ملک کی معاشی حالت تشویشناک ہے، جس سیکٹر کی بات کی جائے، سوائے افسوس کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا، تمام اسکیموں کا جائزہ لیجئے صرف ناکامی ہی نظر آئے گی، اگر ملمع سازی نہ ہو تو ملک کا جی ڈی پی تاریخ کے سب سے کمتر کی طرف بڑھتا ہوا دکھے گا، سرکار کے پاس پیسے ختم ہو چکے ہیں، اسی لئے اس نے ریزرو بینک کا دروازہ کھٹکھٹایا اور کھٹکھٹاتا ہی جارہا ہے، اندیشہ ہے کہ اسے توڑ نہ دیں، اس نے اپنے اشتہارات کیلئے اور اپنی آسائش کیلئے سب کچھ کیا، ملک کے خزانے خالی کردیئے، انتخابات میں دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے مہنگا چناؤ کروانے کا سہرا انہیں کے سر جاتا ہے، کڑوروں کے ہیلی کاپٹر خریدنا، اور عوامی ضروریات کو کنارہ کرتے ہوئے عالمی ٹور پر چلے جانا اس حکومت کی خود ایک پہچان ہے، مہنگائی نے آسمان چھو لیا، ہر عام و خاص پریشان ہے، ایسے میں گزشتہ روز ایک سال کا بجٹ پیش کیا گیا، اندازہ تھا کہ گورنمنٹ اس دفعہ کسی ہمت خیز نتجیہ پر پونچے گی، اور ایسے اقدامات اٹھانے والی ہوگی کہ جس سے ملک کی معاشی حالت بحران سے ہچکولے کھاتے ہوئے نکل پائے؛ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس بجٹ میں ایسا کچھ بھی نہ تھا، بلکہ یہ محسوس ہوا کہ حکومت ملکی معاشی بحران کو قبول ہی نہیں کرنا چاہتی، مطلب یہ کہ دنیا کا ہر ماہر معیشت چیختا رہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، قابلیت صرف انہیں کے گھر کی لونڈی ہے.*
*افسوس کی بات تو یہ ہوئی کہ اس کے اندر پرائیویٹ سیکشن کو بڑھاوا دینے اور ان کمپنیوں کو جو سرکار کی ساکھ ہیں اور جو عوام کے خرچ پر قائم ہیں، انہیں بھی بیچنے کی تیاری ہے، گویا ہندوستان کو کیپیلزم کے دلدل میں پھینکنے کی پوری تیاری کی جا چکی ہے، چند اشخاص کے ہاتھوں میں ملک کی پوری دولت سمیٹ کر رکھ دیا جائے، یہی نتیجہ ہے کہ امبانی اور اڈانی سب بڑے ہوگئے ہیں، بلکہ حکومت بھی اب ان کے سامنے بونی ہوگئی ہے، اور یوں لاچار ہوگئی ہے کہ ان کے سامنے دریوزہ گری کرنی پڑ جائے، ہر سیکٹر ان کے حوالے کرنے کو تیار ہے، اگر ایسا ہی ہے کہ ان سے ملک اب نہیں چلتا، وہ اس لائق نہیں ہے کہ سرکاری خزانے کو سنبھال سکیں، تو پھر انہیں سرکار میں بنے رہنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیوں نہ امبانی کو وزیراعظم بنا دیا جائے، اڈانی کو وزیر داخلہ بنا دیا جائے، اور ٹاٹا کو فائینس منسٹر بنا دیں، مسٹر بجاج بھی کچھ بن جائیں اور اسی طرح سبھی کو تقسیم کرتے چلے جائیں، اب سرکار بے بس ہے، ذرا سوچئے__! وہ بی ایس نل کو چلا نہیں سکتی، ایم ٹی این ایل ڈوب رہا ہے؛ لیکن جیو کو خوب فروغ دیا جا سکتا ہے، بلکہ سرکاری ملازمین کو تنخواہ تک دینے کی گنجائش نہیں ہے، چنانچہ اکثر سرکاری اداروں کے ملازمین پریشان ہیں، آئر انڈیا کو کل کا کل بیچا جارہا ہے، مگر بی جے پی کے تمام ایم پی اور ایم ایل اے اپنی تنخواہ میں سب سے زیادہ عروج پر ہیں.*
*حکومت کا مقصد صاف ہے کہ اسے ک??ی بھی طرح عوام کو کنگال کرنا ہے، سرکاری سطح پر بھی عوام کو دیوالیہ پن کا شکار بنا دینا ہے، بس جو کچھ ہے تو یہ ہے کہ اپنا خزانہ بھرا رہے، چنانچہ غور کیجئے_! وہ کمپنی جس پر سب سے زیادہ عوام کا بھروسہ تھا، جس کا ہر کوئی نام لیتا تھا، وہ LIC کمپنی ہے، جس کے ذریعے انسانی بیما کرواجاتا ہے، جو جیون کے ساتھ بھی اور جیون کے بعد بھی کا سلوگن دیتا ہے، اب وہ کمپنی اس قدر مجبور ہوچکی ہے؛ کہ سرکار اس کے بعض حصوں کو بیچے گی، اب بھلا جس نے اعتماد کی گارنٹی دی تھی وہ خود گارنٹی سے محروم ہے، اس سے زیادہ قابل افسوس یہ ہے کہ سرکار تعلیمی میدان کو بھی پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں سپرد کرنی خواہش رکھتی ہے، اعلی تعلیمی مراحل کیلئے ایسے افراد کو تلاش کیا جارہا ہے؛ کہ وہ اس تعلیمی میدان کو سنبھال سکیں، مزید یہ کہ اب اسپتال کو بھی پرائیویٹ ہاتھوں میں سونپنے کی تیاری کی جارہی ہے، اب اس سے یہ بات صاف ہے کہ تعلیم صرف اعلی طبقے کے لوگ ہی حاصل کر پائیں گے، اب انہیں کے بچے اعلی تعلیمی میدانوں کا رخ کر پائیں گے، جنہوں نے رقمیں جیب بھر کر رکھی ہو، جنہوں نے تجوری مضبوط بنا رکھی ہو، اور اب وہی علاج کا بھی مستحق ہے جس کے اندر علاج کرانے کی استطاعت ہو، وہ آپ نے پاس پیسے رکھتا ہو، چنانچہ اگر آپ پیسے سے محروم ہیں تو پھر مر جائیے، اب آپ کو جینے کی گنجائش نہیں ہے.*
*تو وہیں بجٹ کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ اس میں ثروت مند حضرات کو ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے، حالانکہ بعض متوسط ایسے دائرے میں آییں گے جن کیلئے اس کا کوئی مطلب نہیں ہے، حکومت کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ اس نے صرف خواب کی بات ہے، اسمارٹ سیٹیز، اسمارٹ-فون وغیرہ، بلکہ جھوٹ بھی بولنے سے پرہیز نہ کیا گیا جیسے اب میلا اٹھانے والے نہ رہے، کوئی بنک خطرے میں نہیں ہے، اور نوکری کے میدان بھی وسیع ہیں، نیز اب حکومت کا مقصد تو یہ ہے کہ وہ میک ان انڈیا کے اندر اس بات کو شامل کر رہی ہے؛ کہ یہاں کمپنیوں کو آنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے اجزاء (پارٹس) یہاں بنوا سکتے ہیں، یعنی اب پڑھے لکھے اور جاہل سبھی پارٹس بنائیں گے، یعنی یہ مان لیا گیا ہے کہ ہندوستان کے اندر لوگوں میں اتنی بیداری نہیں ہے؛ کہ وے اسٹارٹ آپ سے فائدہ اٹھا سکیں، اس لئے ہر ایک مزدور بن جائے.....بہر حال صداؤں کو سمیٹنا مشکل ہے درد کی دنیا بے پناہ ہوتی ہے، اتنا سمجھ لیجیے کہ یہ بجٹ پینتالیس صفحات کا تھا، جسے پڑھتے ہوئے خود نرملا سیتا رمن تھک گیی تھیں؛ بلکہ پورا ایوان تھک گیا تھا، اور انہیں بھی اندازہ تھا کہ یہاں کچھ بھی اصل نہیں ہے، اب عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خواب کو سجھے حقیقت کا چشمہ لگائے، وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ حکومت آپ کو اور آپ کے ہی خزانے کو جو سرکار کے پاس ہے، اسے برباد کرنے پر آمادہ ہے، جاگ جائیں اس سے پہلے کہ آپ کو سلا دیا جائے.*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
02/02/2020