???? *صدائے دل ندائے وقت*????813)
*ہندوستان پولیس گری کی چپیٹ میں ___*
*انگریزوں ملک عزیز کو چھوڑتے ہوئے جن مہلک نظام کو اس کے سر باندھ گئے، ان میں سے ایک پولس کا نظام بھی ہے، برطانوی حکومت کیلئے پولس ایک آلہ کے طور پر رہی ہے، اس نے گویا پالتو جانور کی طرح انہیں پالا تھا اور وقت بہ وقت ان سے خونریزی تک کرواتے تھے، ستیہ گرہ اور ترک موالات جیسے مواقع پر اس نے یہی کردار ادا کیا تھا، جلیان والا باغ کی چیخیں آج تک سنائی جاتی ہیں، جہاں پر معصوم اور خالی ہاتھ عوام کو گولیوں سے بھون دیا گیا تھا، یہ کارنامہ بھی پولس ہی کا تھا، ہندوستان اگرچہ آزاد پوا؛ لیکن اس نے پولس کا نظام ویسے ہی اخذ کرلیا جو کبھی انگلش دور میں جاری تھا، اکثر اس میں اصلاحات کی آوازیں اٹھتی ہیں، مگر شور و شرابے میں گم ہوجاتی ہیں، چونکہ انگریز برتری فکر کی قوم تھی، اسی لئے پولس کا ایک ایسا نظام تھا، جس میں ہر ایک اپنے سے اوپر والے اعلی عہدیدار کا غلام ہوتا ہے، ایک عام. کانسٹیبل سے شروع کیجئے اور پھر اس کا سلسلہ اعلی سیاست دان تک لے جائیے، ہر کوئی اپنے اوپر عہدیدار کے استحصال کا شکار ہوتا ہے، اور پھر پوری کمیونٹی کسی طاقتور کی طاقت کے نیچے دبی رہتی ہے.*
*ہر زمانے میں جب کبھی سیاست بدل جاتی ہے، ایک پارٹی جاتی اور دوسری پارٹی اقتدار سنبھال لیتی ہے تو عہدیداران بھی بدل جاتے ہیں، ان کی پولس کا عموما ہر فرد اگرچہ خاکی پہنے؛ لیکن اصل رنگ اس پارٹی کا چڑھا ہوتا ہے، اگر ہم یہ کہیں کہ ان میں پولس کا کوئی دخل نہیں ہے، تو یہ بھی بے جا نہ ہوگا، البتہ اخلاقی اقدار اور ضمیر فروشی کی فہرست میں انہیں قطعا نہیں بھلایا جا سکتا، ان کے استحصال کی رپورٹس آپ نے ہر کبھی دیکھی ہوگی، کم تنخواہ اور زیادہ ڈیوٹی؛ بلکہ جانوروں کی طرح ڈیوٹی انجام دینے کی داستانیں سنی ہوں گی، یہ سب دراصل غلام ہیں، اقتدار اور پاور میں موجود سیاست دانوں کے پیادے ہیں اور انہیں کے اشارے کی کٹھپتلی ہیں، یوروپ میں پولس اس قدر فرینڈلی برتاو کرتی ہے؛ کہ انہیں ایک بچہ بھی روک کر اپنا کام کروا سکتا ہے، اور وہ خوشی خوشی اس کام کو نجام دیتے ہیں، اور انہیں دوست کہہ کر پکارتے ہیں،آپ اس وقت دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے؛ کہ جب کبھی کسی پولس والے کی صورت نگاہوں کے سامنے آجاتی یے، تو کیا کچھ دل میں آتا ہے_؟ یقیناً وہ قابل بیان نہ ہوگا، جس کسی نے بھی پولس سے کوئی رابطہ کیا ہو یا ان سے کسی قسم کا واسطہ پڑا ہو وہ کہہ سکتا ہے کہ اس کا تجربہ تلخ ہی رہا ہے، اس میں شاذ و نادر واقعات کو چھوڑئے؛ لیکن مجموعی نتیجہ اس سے زیادہ خطرناک ہے۔*
*بالخصوص موجودہ دور میں ہندوستان کو پولس لا کی طرف دھکیلا جارہا ہے، کہ ہر جگہ ان ہی کا قبضہ ہو اور انہیں سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جائے_ ابھی CAA. NRC. NPR کے خلاف ہورہے ملک گیر احتجاج میں پولس کا رول کتنا اہم رہا یے، اس سے بہت کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے، حکومت وقت کی پکڑ جہاں کہیں بھی ہے وہاں پر پولس کی بر برتا تو تھی ہی اور اب تک جاری ہے؛ لیکن ان صوبوں کو بھی نہیں بھول سکتے جہاں بی جے پی کا دخل نہیں؛ لیکن پولس اپنی انتہا پر ہے، ابھی کچھ دنوں قبل بنگال کی خبر بھی ایسی ہی تھی؛ کہ وہاں پولس نے سخت ایکشن لیا ہے اور یوپی جیسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے، یہ سب فاشزم کے نوالے اور فسطائیت کے پروردہ ہیں، اور پھر طاقت کے لالچی ہیں، جہاں سے بھی حکم ملے گا انہیں ایکشن لینا یے، کل تک کسی اور کی سرکار تھی تو وہ موجودہ حکومت کے لوگوں پر گرفت کرتی تھی، یاد کیجئے_ جب مہنگائی کے خلاف ایک آندولن سا چھڑ گیا تھا، تو اس وقت بھی موجود حکمرانوں نے کوئی خاص سلوک نہ کیا تھا؛ بلکہ ایسی تصویریں گردش کررہی تھی کہ جس کے اندر احتجاج کرنے والوں کو گھسیٹا اور پیٹا جارہا تھا.*
*بالخصوص پتنجلی والے نایاب بابا رام دیو کو کیسے بھول سکتے ہیں، جنہیں نصف شب میں شلوار، کرتی پہن کر بھاگنا پڑا تھا، چنانچہ آج بھی وہی حال ہے، جامعہ میں پولس کا کیا برتاؤ تھا، اور فی الوقت پوری دہلی میں پولس نے کیا رویہ اختیار کر رکھا ہے، ان کی موجودگی میں تین گولیاں چل چکی ہیں، لیکن وہ بے بس ہیں، بلکہ ان فائرنگ کرنے والوں کو پکڑنے کی کیفیت سے بھی بہت کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں، انہیں ایسے لیکر جاتے ہیں جیسے کوئی معمولی چور ہو، یا یہ کہ انہوں نے ان سے سانٹھ گانٹھ کر لی ہو، رہ رہ کر پولس احتجاج کرنے والے پر امن خواتین کو پریشان کرنے لگتی ہے، حد تو یہ ہے کہ ان سے ضرورت کے سامان تک چھین لے جاتی ہے، بات بس اتنی ہی ہے کہ ہر کوئی پولس کو اپنی قوت کا ایک ٹول اور آلہ بنانا چاہتا ہے، اور حکومت کے ضوابط ایسے ہی ہیں کہ وہ سب لامحالہ رواں حکومت کی غلامی کریں گے، ایسے میں صرف پولس کی بربرتا پر طعن کس دینا اور انہیں کوس دینا ہی کافی نہیں؛ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس نظام کو بدلا جائے، ایک ایسا سسٹم لایا جائے جہاں پولس صرف Puppet بن کر نہ رہ جائے؛ بلکہ اس کے ہاس سوجھ بوجھ اور خود کی strategy ہو، جو ملک و آئین کی حفاظت کا سامان بنیں، ترقی کی راہ میں معاون ہوں، اور صحیح معنوں میں خدمت گزار ثابت ہوں.*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
04/02/2020