ہندوستان کی سیاست بدل سکتی ہے

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(829) *ہندوستان کی سیاست بدل سکتی ہے__!!*

*بھارت سیاست کا اکھاڑہ ہے، وہ میدان ہے جہاں پر ہر طرح کی سیاست جنم لیتی ہے، اور ایک مدت کے بعد اسے کوئی دوسری سیاست بدل دیتی ہے، نہرو جی نے تعلیمی سیاست کی تھی، اندرا گاندھی نے قوت اور زور آزمائی پر توجہ دیا تھا، راجیو گاندھی نے ڈیجیٹل انڈیا کا راگ چھیڑا تھا، اٹل بہاری واجپائی نے شائننگ انڈیا کا نعرہ دیا تھا، منموہن سنگھ نے معاشی درستگی اور مضبوط جمہوریت کو اہمیت دی تھی، مودی جی نے بھی ابتدائی زمانے میں "سب کا ساتھ سب کا وکاس" جیسے نایاب سلوگن کے ساتھ سیاست شروع کی تھی، لیکن دیکھتے دیکھتے وہ سب کچھ وناش کی طرف بڑھ گئے، ان سب سیاست دانوں میں ایک چیز ضرور پائی جاتی تھی؛ کہ وہ نفرت کی سیاست بھی پہلو میں لیکر چلتے تھے، ایک تشدد بھی ان کے اندر پایا جاتا تھا، وہ چاہے حکومت کا نشہ ہو یا پھر ایک خاص نظریہ کو لاگو کرنے کا جنون ہو، یہ نفرت بھی ہندو مسلمان کے کوکھ سے ہی جنم لیتی ہے، اسی نے آزادی کے بعد پاکستان بنایا، اور پھر پاکستان سے مختلف جنگوں کے ذریعے اس نفرت کی پرورش کرتے رہے، مگر اس موقع کبھی بھی یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کہ انڈیا کے مسلمانوں میں ہندو مسلم کا تشدد کتنا ہے؟ چنانچہ اسی ٹمپریچر کو چیک کرنے کیلئے مختلف دنگے کروائے جاتے رہے اور ملک کی دھارا کو بدلنے کی کوشش ہوتی رہی، ادھر ایک عرصے سے ہندو مسلم کا مدعا ہی سب سے اہم مدعا قرار پایا گیا ہے.* *ایسا لگتا تھا کہ یہ دونوں پہلوؤں سے ہے، مگر اس کی پرت کھولتے جائیں تو پتہ چلے گا کہ اس کی پشت پناہی سب سے زیادہ آر ایس ایس اور بی جے پی نے کی ہے، بالخصوص 2019 کے پارلیمانی انتخابات نے تو ملک کو دو دھڑوں میں تقسیم کردیا تھا، وہ چناؤ پوری طرح سے ہندو مسلمان پر لڑا گیا، ایسے میں ظاہر ہے اکثریت نے فتح پائی تھی، مگر اس کا سلسلہ تھما نہیں؛ بلکہ عام صوبوں میں بھی اس کی گونج سنائی دینے لگی، کیونکہ اس طرح انہوں نے فتح کی کلید پالی تھی، اب سیاست دان نچلے پائیدان پر آگئے، انہوں نے اپنی جہالت اور حیثیت بتلادی، وہ سب کچھ کر بیٹھے جس سے ملک میں نفرت پیدا ہو اور ووٹوں کو کاٹ کر کسی بھی ہندو کھاتے میں ڈالا جا سکے، رفتہ رفتہ پورا ملک زعفرانی رنگ میں ڈوب گیا، چنانچہ ابھی دہلی کے ودھان سبھا انتخابات نے بھی عجب جوہر دکھائے، یہاں پر وہی قدیم سیاسی بساط بچھائی گئی، ہندو مسلم کے ساتھ الفاظ پر کوئی کنٹرول نہ رکھا گیا، گولی مارو__ اور گولی مار دی گئی، بلاتکار کرو__ اور کئی بلاتکاری بابا سامنے آگئے، پاکستان والے ہیں __ اور پاکستانی بیانات سامنے آگئے، یہ ہندو مسلم کا مباحثہ زیر کی مانند پھیل چکا تھا، ایسا لگتا تھا کہ اب اس زیر میں پورا شہر تباہ ہوجائے گا، خاص طور پر ووٹنگ سے چند روز قبل جے شری رام کے نعرے اور بھگوا دہشتگردی نے وہ بلندی پالی تھی کہ خدشات میں عوام ایک دم خاموش ہوگئی، ہر طرف سناٹا ہی نظر آتا تھا، منصف عوام کے دلوں کی دھڑکن بھی رک گئی تھی، اور کیا ہوگا_؟ کیا ہوگا__؟ کی فکر ستا رہی تھی.* *دوسری طرف ان کے مد مقابل پارٹی "AAP" اور اس کے سربراہ اروند کیجریوال نے بھی ہندوانہ کھاتا کھول دیا تھا، ان کے سیاست دان بھی ایک زمانے تک اگرچہ کام کی بنیاد پر ووٹ مانگتے رہے، اپنی کامیابیاں گنواتے رہے، ویلفیئر سوسائٹی کی اساس کو سمجھاتے رہے، دہلی کی ترقی اور خوشحالی کا راز بتاتے رہے، خواتین کیلئے کارنامے، اسکول کیلئے فنڈ اور سی سی ٹی وی کا شہرہ کرتے رہے، سب کچھ ہوتا رہا؛ لیکن بی جے پی ہندتوا ایجیڈے میں وہ بھی پھنسے اور پھر ہنومان جی نے مداخلت کی، کیجریوال نے ہنومان چالیسا سنائی، ان کے کارندے ہندتوا کے بیانات دینے لگے__ لیکن اتنا طے تھا کہ اب دیس کا موڈ بدل رہا ہے، سیاست میں اگرچہ مذہبیت داخل کر کے اسے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا تھا؛ مگر خود عوام میں وہ بیداری محسوس کی جارہی تھی وہ کہ اپنی ضرورت کو سمجھ رہے ہیں، وہ یہ جان چکے تھے کہ ستر سال سے سیاست نے مذہب کے نام پر صرف استحصال کیا ہے، امن و آشتی کو ٹھیس پہنچائی ہے، ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالا ہے، اور ملک کو الٹے پیر چلنے پر مجبور کیا ہے.* *یہ پروپیگنڈہ اگرچہ گاؤں اور دیہاتی علاقوں میں کام کر جائے؛ مگر شہری آبادی سے اس کی توقع رکھنا فضول ہے، کہ وہ ان بے بنیاد باتوں پر اپنا ووٹ ضائع کرے، ہندو مسلم کی تفریق پر اور ملک ایکتا و اکھنڈتا پر قدغن لگاتے ہوئے ووٹ کرے؛ چنانچہ اس نے تشدد میں ضرورت کو چنا، نفرت میں محبت کا انتخاب کیا، بٹوارے کی سیاست میں اتحاد کو گلے سے لگایا، ہندوتوا کے درمیان جمہوریت کو جینے اور اسی پر مرنے کو ترجیح دی، انہوں نے پیغام دیا کہ اب سیاست بدل جانی چاہیے، یہ اکیسویں صدی ہے، ڈیجیٹل دنیا ہے، عوام کو بیوقوف بنانا اور انہیں اپنے ایجینڈوں اور سلوگن کے دم پر اور محض وعدے، خواب و خیال کے ذریعے بہکانا ناممکن ہے، چنانچہ سیاست نے کروٹ لی، دہلی بدل گئی، وہاں کے افق سے ایک نیا سورج نکلا، جس نے پورے دیس میں امید کی اور محبت کی جوت جگائی، تجزیہ نگاروں مناتے ہیں؛ کہ اب وقت بدل سکتا ہے، سیاست بدل سکتی ہے، ہندتوا کا نشہ ٹوٹ سکتا ہے، اب سے انتخابات کام پر ہوں گے، ویلفیئر سوسائٹی کی بنیاد پر ہوں گے، ہر اسٹیٹ کو سوچنا ہوگا کہ وہ بھی بجلی پانی عوام تک پہنچائیں، اور مفت پہنچائیں، ان کے ٹیکس انہیں پر استعمال کرنے ہوں گے، ترجیحات بدلنی ہوں گی، اور پھر سیاست اور انتخابات کی ستھرائی کو قائم رکھتے ہوئے جمہوریت کو جینے اور برتنے کا کام کرنا ہوگا.* ✍ *محمد صابر حسین ندوی* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 20/02/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔