???? *صدائے دل ندائے وقت*????(1170)
*یوم جمہوریہ - جو خدشہ تھا وہی ہوا--*
https://t.me/joinchat/T78wo9HSWkM5dOhs
*یوم جمہوریہ قانون کا دن، جس دن دستور ہند کو تسلیم کیا گیا، اسے نافذ کیا گیا، بھارت کے تمام صوبوں نے ملکر اسے ہری جھنڈی دی، اسی لئے اس کا جشن منایا جاتا ہے، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی لال قلعہ کی اونچائی سے سنہ رنگی جھنڈا لہرایا، مگر اس دفعہ یوم جمہوریہ کا منظر کچھ اور ہی تھا، ہندوستان کی جمہوریت کو تیز اور دھار دار چھری سے قتل کرنے والے اور اپنے ہاتھوں زعفران کا زہر پلا کر اسے موت کی گود میں سلانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف لوک تنتر کا جشن تھا، جنہوں نے ڈیموکریسی کی بنیادوں پر حملہ کیا، ملک کی اساس کو پامال کیا اور اسے پھر سے سرمایہ داروں اور فاشسٹوں کے حوالے کرنے کا پروپیگنڈا رَچا انہیں کے خلاف عوامی جوش اور اتحاد کا جشن تھا، کئی مہینوں سے کسان آندولن بلکہ کہنا چاہئے کہ ہندوستان اور دستور بچاؤ تحریک کا جاری ہے، سرکاری زور زبردستی اور ان کی تانا ہی سے اُوب کر ایک فیصلہ کن احتجاج دہلی کی سرحدوں پر رواں ہے، آج انہیں کا جشن تھا، انہوں نے پہلے ہی اعلان کردیا تھا کہ وہ دہلی کی بارڈر سے ٹریکٹر ریلی نکالیں گے، ٢٦/جنوری اگرچہ راج پَتھ پر منایا جائے گا؛ لیکن لوک تَنتر کا اصل چہرا ہم دکھائیں گے، اور زرعی قوانین کے خلاف متحدہ طور پر دہلی کے ارد گرد جمہوریت کا جشن منائیں گے، اگرچہ کہ دہلی میں سرکاری عملہ کے ذریعے لال قلعہ پر علم لہرایا جائے گا، اور لوٹینس کے لوگ دستور کی قسمیں کھائیں گے؛ لیکن صحیح معنوں میں جمہوریت کا پھریرا دہلی سے باہر افق پر رنگ بکھیرے گا، اور وعدہ کے مطابق یہی ہوا، صبح صبح ٹریکٹر ریلیاں نکالی گئیں.*
*یہ امن پسند مظاہرہ تھا، ایک لمبے وقت تک پر امن احتجاج اور جشن جاری تھا، مگر پھر بعض جگہوں پر ٹریکٹروں کے ذریعے پولس بریکٹس توڑے گئے، جس راہ سے روکا گیا تھا اس راہ پر بھی ریلی بڑھتی چلی گئی، ہجوم، بھیڑ اور لوگوں کا جوش و خروش ایسا تھا کہ سمندر کی لہریں ہوں، انہیں کوئی نہیں روک سکتا تھا، دہلی کے چاروں طرف لوگوں کے سروں کے سوا کچھ نہ تھا، سڑکیں اَٹی پڑی تھیں، گاڑیاں اور جھنڈے لہرائے جارہے تھے، دیش بھکتی اور کسان بھکتی کے گیت کے ساتھ جَے جوان اور جَے کسان کے نعرے لگ رہے تھے، اتنے میں ہی پولس نے مظاہرین پر آنسو گیس کی گولیاں داغنی شروع کیں، ڈندے بھانجتے ہوئے ٹریکٹر ڈرائیوروں کو نشانہ بنایا، بوڑھے کمزور اور نوجوانوں کو بری طرح زخمی کیا جانے لگا، نہ جانے کہاں سے کچھ ایسے شرپسند بھی گھس آئے تھے جنہوں نے پولس سے مزاحمت کی تھی، یہ یقینی تھا، پہلے سے ہی سازشیں زوروں پر تھیں، اور ایسا مانا جاتا ہے کہ جن جگہوں پر یہ کسان متشدد ہوئے وہ کسان تھے ہی نہیں؛ بلکہ غنڈے اور کرائے کے اوباش تھے، ان کی شکل و شباہت سے یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ وہ سرکاری یا زعفرانی چالوں کے مارے تھے، وہ اندھ بھکت اور دیش مخالف تھے، مگر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پھر کسانوں کی بھیڑ بے قابو ہوگئی، ہر اینٹ اور پتھر کی جگہ سے وہی ظاہر ہورہے تھے، افراد تفری اور گُتَّھم گُتھی بھی ہونے لگی، پولس نے گولیاں بھی چلائیں، جس میں اب تک بی بی سی نے ایک کسان کے مرنے کی وضاحت کی ہے، ایسے میں یہ جوشیلے کسان، دیش کو اپنے خون پسینے سے اَناج اُگا کر لوگوں کے منہ تک پہنچانے والے اور ان کی ضرورت پوری کرنے اور اپنے آپ کو تھکا کر دوسروں کو سکون پہنچانے والے کہاں رکتے تھے، انہوں نے اپنی زمین کی حفاظت اور قوانین کی خلاف ورزی میں یہ حد بھی پار کردی کہ وہ دہلی میں نمودار ہوگئے، بلکہ وہ لال قلعہ میں جا گھسے، اس پر بھی بَس نہ ہوا تو انہوں نے کیسری جھنڈا وہاں لہرا دیا، یہ حیران کن نظارہ تھا، ایسا لگتا تھا کہ اب ملک کسی خطرناک جھول میں جا پھنسا ہے، اور حقیقت یہی ہے کہ ایک بڑا بھنور اور عظیم غار کا دروازہ کھل گیا ہے، اب جمہوریت اور حقوق کی لڑائی ہوگی، مباحثہ شروع ہوں گے اور ملک میں بدامنی کے نام پر انتشار اور تاناشاہی کی کوشش کی جائے گی.*
*حقیقت یہ ہے کہ کسان آندولن ایک گونہ پرامن ہی تھا، اور اب بھی وہ پرامن ہے، ان میں دراندازی کرنے والے نہ جانے کہاں سے آئے، بی بی سی نے کسانوں کے نیتاؤں سے بات کی ہے، وہ صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ یہ ہمارے لوگ نہیں تھے، کسان نیتا راکیش ڈِکیت نے بھی نوجوانوں کے جوش کا اعتراف کیا ہے، مگر یہ بھی کہا ہے کہ اس میں سرکار اور غنڈہ گردی کے عناصر شامل تھے، یوگیندر یادو نے درخواست کی ہے کہ سارے کسان دھرنا کی جگہ پر جمع ہوجائیں، چنانچہ اب سب غازی پور، سنگھور بارڈر، اَکشر دھام اور ٹیکری بارڈر سے دھرنا استھل پہنچ گئے ہیں، دہلی خالی کردی گئی ہے،جہاں کسانوں نے بہت سی سڑکوں پر قبضہ بھی کرلیا تھا، ایک اور نیتا منجیت سنگھ نے بھی یہی کچھ بیان دیا ہے اور کہا ہے کہ پورا معاملہ ہمارے قابو میں ہے، اب کل ایک اہم میٹنگ ہوگی جس میں آئندہ کی راہیں طے کی جائیں گی؛ لیکن تیر اب کمان سے نکل چکا ہے، دہلی میں خصوصاً نانگلوئی کے اندر کسان اور پولس کی جھڑپ اب بھی نازک مرحلے میں ہے، یہی وجہ ہے کہ گِرہ منتری امت شاہ نے فوری ہائی کمان کی میٹنگ بلائی ہے، پندرہ گھنٹوں کیلئے دہلی میں انٹرنیٹ کی سہولت بند کردی گئی ہے، اب یہ بات یقینی ہے کہ سرکار کو جو چاہئے تھا وہ مل چکا ہے، کئی مہینوں سے سرکار اس مسئلے کو سلجھانے اور اپنی ناک بچانے کی کوشش میں تھی، نَو مراحل کی مشاورتی اجلاس کے باوجود معاملہ ہاتھ سے نکل رہا تھا، یہ مسئلہ ان کے گلی کی ہڈی نہ گئی تھی جسے نہ اُگل پاتے تھے اور نہ نِگل پاتے تھے.*
*اب بلاشبہ وہ کسان آندولن کو کمزور کرنے اور اسے مسل دینے میں دیر نہیں کریں گے، UAPA دیس مخالف کی دفعہ لگائی جائے گی، کرفیو لگا کر کارروائیاں شروع کردی جائیں، ایسا مانا جاتا ہے کہ احتجاج اگر پر امن نہ رہے تو crimnal law کے تحت سرکار کو موقع مل جاتا ہے اور وہ کھلے عام دیش کی شانتی کا نام لیکر کاروائی شروع کردیتی ہے، حالانکہ کہ غور کیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے؛ کہ یہ سرکار اور خاص طور پر دہلی پولس یعنی گرہ منتری امت شاہ کی ناکامی ہے، ایسا پہلے بھی دیکھا جا کا ہے کہ شاہین باغ تحریک کو چوٹ پہنچانے کیلئے دہلی فسادات کروائے گئے اور امت شاہ اپنے دربے میں بیٹھے رہے، اس وقت بھی جبکہ پولس اور فوج کو متعین کرنا چاہئے تھا، سیکورٹی مضبوط کرنی چاہیے تھی انہوں نے جان بوجھ کر لیت و لعل سے کام لیا، بھیڑ کو بھڑکنے دیا، چنگاری کو ہوا دیتے رہے، جوش کو جنون میں بدلنے کی کوشش ہوتی رہی، اور بالآخر یہی ہوا کہ پوری بھیڑ بے قابو ہوگئی اور دہلی کے ارد گرد اور خود دہلی جو دیش کی راجدھانی اور ملک کا فخر ہے اس کی عزت مجروح ہوئی، عالمی برادری میں چیمہ گوئی کا موقع ملا، اب امت شاہ اور موجودہ سرکار کیلئے یہ ایک سنہرا موقع ہے؛ لیکن ہمیں دن کے اجالے سے زیادہ یقین ہے کہ کسان اس موقع کا مقابلہ کرلیں گے، یہی وجہ ہے کہ یکم فروری کو سانسد مارچ کا وعدہ کیا جارہا ہے، یہ مسلمان نہیں ہیں جو مصلحت اور جمہوریت کا تحفظ، قانون اور سپریم کورٹ کے جھانسے میں آجائیں، انہوں نے پہلے ہی ان سب کو خارج کردیا ہے، مگر ساتھ ہی یہ خدشہ ہے کہ جو کسان اور سرکار آمنے سامنے تھے اب کہیں آر پار نہ ہوجائیں، اگر ایسا ہوتا ہے تو بلاشبہ ملک میں انارکی پھیلے گی، اور ایک شعلہ بپا ہوگا جس کی آنچ ہر کسی تک پہونچے گی، اس کی گرماہٹ سے ہر کوئی جھلس سکتا ہے، اس لئے دعا کیجئے کہ سب خیر ہو! جمہوریت کا عَلم نہ گرنے پائے اور سرکار و عوام کی بے اطمینانی کی خلیج پاٹ دی جائے.*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
26/01/2021
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔