???? *صدائے دل ندائے وقت*????(994)
*یہی اسلامی تہوار ہے __!!*
*اسلام نے خوشی و غمی دونوں ہی صورت میں مناسب رہنمائی کی ہے، اور اس متوسط طور پر رہبری فرمائی ہے؛ کہ انسان کے جذبات بھی مجروح نہ ہوں اور وہ دلی کیفیات سے سرشار بھی ہوجائے، ارمانوں کا شیش محل برقرار رہے اور اس کی چمک بھی مخدوش نہ ہو، اسلام میں حقیقی تہوار صرف دو ہیں، عیدالفطر اور عید الأضحى. یہ دونوں انسانی مزاج و مذاق میں محبت و انسیت اور انسانیت پیدا کرنے کے مراکز ہیں، انسان کے دل کو پاک کرنے اور رب کے سامنے خضوع و انکساری کی علامت ہیں، دوگانہ سے شروع ہو کر بھائی چارگی اور موخات پر یہ تہوار ختم ہوتے ہیں، عید میں مٹھائیاں تقسیم کر کے لوگوں کی زندگی میں مٹھاس بھرنے کی کوشش کی جاتی ہے، دل و دماغ کی کڑواہٹ ختم کر کے اسے دلداری و دلآویرزی سے بھرا جاتا ہے، معانقہ و مصافحہ اور تبریک کے ذریعے دلوں کو جیتا جاتا ہے، ایک دوسرے کو عفو و درد گزر کا تحقہ دیا جاتا ہے، مہمان نوازی اور انسان نوازی کا سبق یاد کیا جاتا ہے، تو وہیں بقرعید میں قربانی کی سنت ادا کی جاتی ہے، نفس کو مارنے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑھ کر دوسروں کیلئے آسانی و راحت کا سامان کیا جاتا ہے، جن گھروں میں سوکھی روٹی، باسی دانہ کھایا جاتا ہو، جن کے پاس دو وقت کی روزی مشکل سے پہونچتی ہو، وہ بھی سیر ہوکر کھاتے ہیں، گوشت جن گھروں میں ناپید ہو وہ بھی گوشت کی لذت حاصل کرتے ہیں، دنیا میں ایسا کوئی تہوار نہیں جو اس عظیم پیمانے پر انسانی مواخات اور بھائی چارے کی نشانی ہو، ایسا کہیں نہیں کہ لوگ صرف ثواب کی امید اپنے پاس رکھ کر دنیاوی غرض بھول جائیں اور سب کچھ فقراء کے حوالے کردیں، انسان اپنی ایک سوئی بھی کسی کو دنیا نہیں چاہتا؛ لیکن گرانی کے اس دور میں بھی دوسروں کے پیٹ بھرنے کی فکر کرتا ہے، خود لوگوں تک پہونچ کر یا لوگ ان تک پہونچ کر اپنی حاجت روائی کرتے ہیں.*
*ان دونوں تہواروں میں کوئی ایسا ایک واقعہ بھی نہیں کہ انسان کے دل کو ٹھیس پہونچائے، کسی کے چین و آرام میں خلل ڈالے، مادی نقصان ہو، جانیں ضائع ہوں؛ اس کے برعکس دیگر قومیں یا خود نام نہاد مسلمان بھی کئی رسمی تہواروں میں یوں مبتلا ہوتے ہیں کہ انسانیت کو نقصان پہونچتا ہے، جان مال کا ہرجانہ ہوتا ہے، گانے بجانے کی محفلیں سجتی ہیں، سرمستی میں ڈوب کر دوسروں کے کان خراب کرنے اور ان کی راتوں کی نیند حرام کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں، حادثے ہوتے ہیں، محلے جل جاتے ہیں، سڑکیں بند ہوجاتی ہیں، ضرورت مند پریشان ہوتے ہیں، غریب و فقراء کی کوئی قدر نہیں ہوتی، انہیں دھتکارا جاتا ہے، وہ ایک جوڑے کو ترس جاتے ہیں، بلکہ بسااوقات انہیں دیکھ لینا منحوسیت سمجھا جاتا ہے، ایسے تہواروں کے موقع پر سماج کا مکروہ چہرہ سامنے آتا ہے، ایک طبقہ عیش و عشرت کی زندگی میں مست رہتا ہے؛ جبکہ دوسرا طبقہ ان کے سامنے نگاہیں گڑائے دو وقت کی روٹی مانگ رہا ہوتا ہے، نہ کہیں انسانیت رہتی ہے اور نہ انسیت کا کوئی تصور ہوتا ہے، یہ بات الگ ہے کہ ان سب کے باوجود اسلامی تہواروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اس پر بیجا اشکالات کئے جاتے ہیں، بالخصوص بقرعید کو "جیو ہتیا" کا نعرہ دے کر مہم چھیڑ دی جاتی ہے، حالانکہ خود بھارت دنیا میں سب سے زیادہ گوشت بیچنے والا ملک ہے، بہرحال اگر تعصب کی نگاہ نہ ہو، آنکھوں پر حقیقت کا چشمہ ہو تو یقیناً ہر کوئی کہے گا کہ اسلامی تہوار انسانیت سے تعبیر ہے، یہ انسان کو انسانیت سے ہمکنار کرتا ہے، سماجی رواداری بحال کرتا ہے، حقیقت سے روشناس کراتا ہے، تفرقہ کو دور کرنے اور ایک دوسرے کو جوڑنے کا کام کرتا ہے، یہ بتلاتا ہے کہ انسان مذہب انسان کے جذبات کی قدر کرتا ہے، اسے سنوارتا ہے، اور زمین میں رہ کر بھی آسمانی مخلوقات سے برتر بنادیتا ہے.*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
03/08/2020
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔