یہی تو اصل جمہوریت ہے

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(805) *یہی تو اصل جمہوریت ہے___!!*

*جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ جہاں عوام کی بالادستی ہو، جہاں پر عوام کے خیر کی بات کی جائے، چنانچہ جمہوریت میں سرکار بھی انہیں سے ہوتی ہے، اور آئین بھی انہیں سے ہوتا ہے، یہ جمہوریت انسان کو استعماری طاقتوں سے نجات دلاتا ہے، بادشاہت اور غلامی کے سامنے ایک موٹی لکیر کھینچتا ہے، یہ زمین داری کے خلاف ہے، یہ انسان کو ایک آزاد فکر اور آزاد خیال بناتا ہے، ہر ایک کو جینے کا اور یکساں رہنے کا حق دیتا ہے، اگر اسے صحیح سے نافذ کیا جائے تو غریبی اور طبقہ واریت کی چھٹی ہوجائے، ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے، دنیا نے سینکڑوں طریقے ایجاد کئے اور انسانی حقوق کی بازیابی کے راستے ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے؛ لیکن جمہوری طریقہ اسے سب سے زیادہ راس آیا ہے، بلکہ بہت سے علماء نے بھی اسے اسلامی فکر سے قریب ترین بتایا ہے، ہندوستان دنیا کا سے بڑا جمہوری ملک ہے، یہاں پر ہر طرح کی ذات پات کی نسلیں آباد ہیں، سینکڑوں تہذیب و ثقافت پائے جاتے ہیں؛ اس قدر تنوع ہے کہ دوسرے سارے ممالک اس سے قاصر ہیں.* *اس کے باوجود سبھی برابری کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر رہنے کا حق رکھتے ہیں، ایک عرصے سے اس جمہور کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے، سرکاریں اسے اپنے حساب سے چلانے اور یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا؛ کہ انہیں غلام بنانے پر کوشاں ہیں، زمانہ ہوا کہ عوام کی صلاح کے بارے میں سوچا جائے، اب قوانین بنتے ہی اسی لئے ہیں کہ ان کے ذریعے عوام پریشان ہو، حکومت نے اس قدر اختیارات پالئے ہیں؛ کہ کسی بھی شہری کو بغیر کسی سوال و جواب کے اٹھالینے کا حق رکھتی ہے، دیس مخالف دفعہ ١٢٤ اے تو ان کے گھر کی لونڈی ہے، کسی پر بھی لاگو کردیتے ہیں، اب بولنا بھی جائز نہیں ہے، سرکار پر انگلی اٹھانا بھی گوارا نہیں ہے، حالانکہ ہمارے آئین کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے؛ کہ یہ سوالات قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے، بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اسے جمہوریت کیلئے سب سے زیادہ مناسب مانا جاتا ہے، مگر اب کوئی کچھ کہہ دے تو فورا اس پر دیس مخالف، دیش دروہ کا چارج لگا کر ایکشن لے لیا جاتا ہے؛ اور پھر اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ اپنی دیس بھکتی ثابت کرے، وہ بتائے کہ اسے اس ملک سے کتنی محبت ہے اور کیا واقعی وہ اسی دیس کا ہے؟* *عوام کو نہ صرف سوالات کرنے کا بلکہ کسی بات پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کرنے کا بھی بنیادی حق ہے، لیکن سی اے اے کے مدعی پر عوام نے احتجاجی کمان سنبھالی تو ان کے ساتھ بر برتا کی گئی، سب سے زیادہ یوپی پولس نے حیوانیت کا ثبوت دیا، خواتین کو بھی نہیں بخشا، انہیں مارا اور انہیں بھگانے کی کوشش کی، آج جمہوریت کو آئین میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ حکومت نے میدان سے جمہوریت ختم کردی ہے، اپنے فیصلوں میں وہ مذاہب کو شمار کرتی ہے، وہ یہ دیکھتی ہے کہ کس کے پاس کتنے ووٹ ہیں، انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں پر کیا بیتے گی، جو ملک اپنی جمہوریت پر فخر کرتا تھا آج وہ اپنی انہیں کرتوتوں کہ وجہ سے بدنام ہورہا ہے، ہم عالمی برادری میں سوالیہ نشان بن کر رہ گئے ہیں، جمہوریت کے سب سے بڑے قائد اس کا وزیر اعظم ہوتا ہے، جو ملک کی پہچان ہوتا ہے اور نمائندہ ہوتا ہے.* *مگر غور کیجئے کہ انہیں تو ملک کو تقسیم کرنے والا کہا جاتا ہے، کشمیر اور سی اے اے کو لیکر اس کی تصویر پر انگلی اٹھائی جاتی ہے، عالمی جمہوریت کے انڈیکس میں ہندوستان دس خانے نیچے آگیا ہے، اب اس سے زیادہ کیا کہا جائے__؟ یہ سب کچھ ہورہا ہے لیکن جمہوریت کے ٹھیکیدار اپنی کرسی اور اپنی سیاست کو چمکانے میں ہی مصروف ہیں، البتہ بے چینی دیکھی جارہی ہے اور جمہوریت کی ایک نئی صبح انتظار کررہی ہے، ١٩٥٠ میں دستور جاری ہوا، اس کے بعد سے شاید اب یہ نوبت آرہی ہے کہ ملک بھر میں آئین کی باتیں ہورہی ہیں، کیرلا اور مہاراشٹر نے سرکاری سطح پر اسے تعلیمی نصاب میں لاگو کرنے کا حکم دے دیا ہے، اور اب وہاں کے بچے اسکولوں میں آئین کے بنیادی خاکوں کے بارے میں پڑھیں گے، اب ممکن ہے کہ ایسی نسل پروان پائے گی جو ہندوستانی آئین کو سمجھتی ہو اور اسے نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہو___ صحیح معنوں میں جمہوریت یہی ہے، جو آج سڑکوں پر ہے، میدانوں میں ہے، اس بار کی یوم جمہوریہ واقعتاً یوم جمہوریہ ہے، جسے لال قلعہ پر نہیں عوام کے درمیان منایا گیا ہے، وزیراعظم کا لیکچر سن کر نہیں بلکہ کمزوروں کے ساتھ بالخصوص شاہین باغ دہلی اور گھنٹہ گھر لکھنؤ وغیرہ میں منایا گیا ہے.*

✍ *محمد صابر حسین ندوی* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 27/01/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔