محمد قمر الزماں ندوی
گزشتہ سے پیوستہ کل ہم نے امریکہ کے نئے صدر کے عزم و ہمت اور قوت و حوصلہ کے حوالے سے ایک آئینہ دکھایا تھا،تصویر کے ایک رخ کو پیش کیا تھا۔۔آج تصویر کی ایک اور جھلک اور تصویر کا ایک اور رخ ہم دکھاتے ہیں۔۔۔۔اس جھلک کو دیکھئے اور اپنوں اور غیروں کے قانون کے فرق کو سمجھئے کہ عرب حکمراں قانون شہریت کے حوالے سے کس قدر سخت قانون بنائے ہوئے ہیں اور یورپ اور امریکہ اس بارے میں کتنی وسعت کے قائل ہیں ان کا اصول کتنا سہل اور لچک دار ہے ۔۔۔۔۔۔ ہندوستان کے سربراہ شہریت کے معاملے میں کس کو نمونہ بنا رہے ہیں وہ آپ سب جان رہے ہیں۔۔۔۔۔
امریکہ میں مقیم ایک صاحب نے نئے امریکی صدر کے نئی شہری پالیسی سے متعلق اچھا تجزیہ اور عمدہ تبصرہ کیا ہے، انہوں نے لکھا ہے:
گزشتہ سے پیوستہ کل 78/ سالہ جو بائیڈن نے امریکہ کے چھیالیسویں صدر کا حلف لیا، اور حلف برداری کی تھکا دینے والی تقریب میں شرکت کے باوجود تقریب کے بعد وہ وائٹ ہاؤس کے رہائشی حصہ میں جانے کے بجائے اپنے آفس کے حصہ میں گئے اور کئی اہم دستاویزات پر دستخط کئے جس کے بارے میں الیکشن کمپین کے دوران وہ وعدے کرتے رہے تھے ، خاص کر ٹرمپ دور میں کچھ مسلم ممالک پر امریکہ میں داخلہ پر جو پابندیاں عائد کی گئی تھیں ان کو ختم کیا ، امریکہ میں گیارہ ملین لوگ غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں ، اُن کے لئے ایک قانون کو فعال کیا گیا جس میں آٹھ سال یہاں گزارنے والے کو اُس کا ریکارڈ چیک کرنے کے بعد مرحلہ وار قانونی کیاجائے گا یعنی گرین کارڈ ، اور یہاں کی وطنیت دی جائے گی ، اسی طرح جو بچپن میں ہی غیر قانونی طور پر یہاں آگئے تھے انہیں بھی ترجیحی بنیادوں پر DACA پروگرام کے ذریعے قانونی کیا جائے گا
آج صبح یہ پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں یہ خیال بار بار آتا رہا کہ ہمارے عرب ممالک میں حکمران اتنے سفاک ہیں کہ جن لوگوں نے اپنی پوری زندگیاں اُن عرب ممالک میں گزاردیں وہ انہیں ایک عام شہری جتنے حقوق دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں ، میں کئی فیمیلیز کو جانتا ہوں کہ سعودی عرب میں کچھ عرصہ پہلے شاہ سلمان کے آتے ہی اتنے ٹیکسز بڑھا دئیے گئے کہ کئی خاندانوں نے سعودی عرب سے ہجرت کی ، جو کہ تیس چالیس سال سے وہاں مقیم تھے ، اب ان ممالک کی محدود آمدنی کے ساتھ وہ پاکستان و ہندوستان میں کچھ کرنے کے قابل نہیں اور کسم پرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ، اسلام تو ریاست کو ذمیوں ( جو کفار ٹیکس دے کر اسلامی ریاست میں رہیں ) کے حقوق کی پاسداری کا حکم دیتا ہے ، لیکن وہاں اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ زیادتیوں کی کہانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، یہ ہی ہماری زبوں حالی کی وجہ ہے کہ ہمارے اپنوں نے اپنوں کو مغلوب کیا
افسوس کہ آج ہم معاملات میں اغیار کی مثالیں دیتے ہیں جبکہ اُس رب نے ہمیں تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر کی شرط کے ساتھ خیر امت بنایا تھا ،
ہوسکتا ہے کوئی کہے کہ اس میں بھی ان کا کوئی مفاد ہوگا تو جان لیجئے کہ ڈیموکریٹس پارٹی جن کے نمائندہ بن کر جو بائیڈن جیتے ہیں اُن کا ووٹ بینک وہ امیگرنٹس ہی ہیں جو دیگر ممالک سے یہاں آکر سیٹیزن ہوجاتے ہیں ، لیکن اس سارے معاملہ میں بھلا تو اس عام آدمی کا ہی ہوتا ہے جو مہاجر بن کے یہاں آیا !
(محمد حسن رضا خان...................
پلانو ٹیکساس امریکہ کے وال سے)
خلیجی ممالک کے درمیان اور مملکت برطانیہ اور بعض دیگر مغربی ممالک کے قانون شہریت کے درمیان کس قدر فرق ہے ، ارادہ تھا کہ آج اس حوالے سے کچھ لکھوں اور یہ بتاوں کہ خلیجی ممالک حق شہریت کے معاملے میں کس قدر تنگ دل ہیں اور ان کے یہاں اس معاملہ میں کس قدر تنگی اور شدت پائی جاتی ہے، لیکن دن بھر آج دیگر مصروفیات، یومِ جمہوریہ کی تقریب میں شرکت کی وجہ سے کچھ لکھنے کا موقع ہی نہیں ملا، ایک رشتہ دار کے جنازہ میں شرکت کے لیے بھی جانا پڑا، اسی لیے آج اسی پر اکتفا کرتا ہوں، کسی اور دن اس حوالے سے گفتگو ہوگی۔۔۔۔۔۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔