???? *صدائے دل ندائے وقت*????(991)
یہ مسئلہ کردار سے ہی حل ہوگا
*کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن نے انسانوں کو بتلایا کہ حکومتیں سیاست اور تفرقہ پر کام کرتی ہیں، انسانیت جب ہی زندہ رہ سکتی ہے کہ سماج خود اپنے اندر اپنوں کا درد محسوس کرے، چنانچہ جب لوگ شہروں سے گاؤں کی طرف پیدل ہی نکل پڑے، بھوکے پیاسے حسرت و یاس سے چور مسافت نے انہیں نڈھال کردیا؛ ایسے میں خلوص و قربانی اور خدمت کا حیران کن نمونہ سامنے آیا، پرائیویٹ اداروں نے دریا دلی دکھائی، جس سے جو بن سکا وہ کیا گیا، ان میں بڑا کردار مسلمانوں کے جذبہ انسانیت کا تھا، انہوں نے ریلوے اسٹیشن، بس اسٹاپ، ہائے وے اور عام شاہراہوں پر پانی کی سبیل نصب کئے، بھوکوں کیلئے کھانے کا بندوبست کیا، لوگوں نے دوڑ دوڑ کر اور خود کو تھکا کر ان کیلئے ایک مسیحا کی صورت میں ظاہر ہوئے، یہ بات الگ ہے کہ ذرائع ابلاغ نے اسلام و مسلم دشمنی کی بنا پر اسے وہ کوریج نہ دی جو ہونی چاہئے تھی؛ اس کے باوجود عام انسانوں، سوسائٹیز اور برادران وطن میں بہتر تاثر پایا گیا، تبلیغی جماعت کے خلاف اگلے گئے زہر کا بہت حد تک تریاق ہوا. دراصل بات یہ ہے کہ جب تک ہم ملک میں اخلاص، ہمدردی اور بے لوث خدمت کا جذبہ پیش نہ کریں گے، ہم یہ نہ ثابت کردیں کہ مسلمان اس ملک کیلئے رحمت ہیں، ان کا اخلاق اور ان کی موجودگی کسی سایہ عاطفت سے کم نہیں؛ تب تک ہمارا سماجی و ملی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، ہندو اکثریت والی قوم یوں ہی تعصب کا نشانہ بناتی رہے گی، اپنے اندر جوش کے بجائے ہوش اور انسانیت نوازی کا ثبوت دینا ہوگا، سیدی حضرت مولانا أبوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ ملک کی نبض نبض سے واقف تھے، وہ درد اور مداوا دونوں کو جانتے تھے، آپ نے ملک کی خدمت اور پیام انسانیت کا بہترین پیغام دیا، ایک موقع پر مسلم سماج کو خطاب کرتے ہوئے آپ نے بڑے شد مد سے فرمایا تھا:*
*"__ ابھی تک ہم نے ملت کے محبوب بننے کے مسئلہ پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا، اصل میں محبوب بنانے والی صفات ہیں، وہ صفات اگر فرد میں پیدا ہوں تو فرد محبوب بن جائے، ملت میں پیدا ہوں تو ملت محبوب بن جائے، آج ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے اس کے سوا عزت و قیادت کا کوئی راستہ نہیں ___*
حکومت کا تو کیا شکوہ کہ وہ ایک عارضی شئی تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارہ
*خلوص، قربانی، اور ایثار و خدمت کا جذبہ محبوبی دلانے والی صفات ہیں، حکومتیں اس کے جلو میں چلتی ہیں، تمدن اور تہذیبیں اس کا رکاب تھامتی اور اس پر فخر کرتی ہیں، اگر یہ نہیں ہے تو نہ حکومت کا بھروسہ ہے، نہ عہدوں کا، نہ سیاسی دانشمندی اور جوڑ توڑ کا، آج ضرورت ہے کہ ہمارے مسلمان نوجوان یہ ثابت کریں کہ ہم میں زیادہ صلاحیت کار (Efficiency)، ہم میں زیادہ احساس ذمہ داری، ہم میں زیادہ فرض شناسی اور ایمانداری ہے، ہم. کو اگر لاکھوں روپے کی رشوت دی جائے اور ہم کو روپے کی سخت ضرورت ہو، تو ہم اس کو ہاتھ لگانا بھی حرام سمجھیں گے؛ بلکہ رشوت پیش کرنے والے سے کہیں گے کہ تم نے میری ملت کی توہین کی، تمہیں یہ خیال کیسے آیا کہ کوئی مسلمان رشوت لے سکتا ہے؟ تمہارا چہرہ یہ بتائے کہ تمہیں کسی نے گالی دے دی، مسلمان زندگی کے جس محاذ پر بھی ہو، وہ کردار کا ایک نمونہ ثابت ہو، وہ اپنے عمل سے ثابت کردے کہ اس کو کوئی فرد یا پارٹی؛ بلکہ حکومت بھی خرید نہیں سکتی، ملت کا مستقل مسئلہ کردار ہی سے حل ہوگا،مسلمانوں کے ایک باعزت ملت کی حیثیت سے رہنے یہی واحد راستہ ہے، قرآن کہتا ہے: إِنَّ الَّذِينَ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بأنفسهم __ "خدا اس (نعمت) کو جو کسی قوم کو (حاصل) ہے، نہیں بدلتا، جب تک کہ وہ اپنی حالت کو نہ بدلے"* (تحفہ دکن:٣٤_٣٥)
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
31/07/2020
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔