؛؛؛ آو باب در رحمت کو کھٹ کھٹائیں ؛؛؛
از ، محمد ہارون قاسمی
میرے دوستو ۔۔۔۔۔ میری آواز سنو ۔۔۔۔۔۔۔ میری آواز میں آواز ملاو ۔۔۔۔۔ آو ۔۔۔۔ میرے ساتھ آو ۔۔۔۔۔میرے قدم سے قدم ملاو ۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ ہم سب ملکر اس باب در رحمت کو کھٹ کھٹائیں جہاں سے ہر کسی کو سب کچھ ملتا ہے جہاں سے کوئی سائل کبھی خالی ہاتھ نہیں جاتا ۔۔۔ جی ہاں ۔۔۔۔۔ ہم نے اس دروازے کو ابھی کھٹ کھٹایا ہی کہاں ہے ۔۔۔۔۔
ہم بھٹکتے پھر رہے ہیں ہمیں اپنے مسائل کا حل نہیں ملتا ۔۔ ہم ٹھوکریں کھا رہے ہیں ہمیں اپنی منزل نہیں ملتی ۔۔ ہم نے ہر چوکھٹ پہ دستک دی ہم نے ہر دروازہ کھٹ کھٹایا ہم نے ہر در سے مانگا ہم نے ہر دہلیز پہ سر جھکایا مگر ہمیں ذلت اور دھتکار کے سوا کچھ نہ ملا ۔۔
ہم نے اپنے رب کو ناراض کیا تو زمین اور آسمان ہمارے دشمن ہوگئے ۔۔ ہم نے اپنے خدا سے بغاوت کی تو زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے اور حشرات الارض ہمیں آنکھیں دکھانے لگے ۔۔ ہم اپنے مالک سے منہ موڑ کر وقت کے فرعونوں کے دروازوں پر گئے تو رسوائیاں ہمارا مقدر بنیں ۔۔ ہم وقت کے دجالوں کے سامنے سجدہ ریز ہوئے تو زمانہ کی ٹھوکریں اور پامالیاں ہمارے نصیب میں لکھی گئیں ۔۔۔
اے میری قوم کے لوگو ۔۔۔۔
اب چھوڑ دو ان مصنوعی خداوں کو اب چھوڑدو ان کی پرستش کو اب چھوڑ دو ان کی غلامی کو اب چھوڑ دو ان کی اطاعت اور فرماں برداری کو اور لوٹ آو اپنے اس رب کی طرف جو بڑا مہربان اور بڑا رحیم ہے جو تم سے تمہارے ماں باپ سے زیادہ محبت کرتا ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے جس کے خزانے ??ا محدود ہیں ۔ جو عزت دیتا ہے جو ذلت دیتا ہے جو موت دیتا ہے جو زندگی دیتا ہے ۔۔۔
جس کی طاقت کے سامنے کوئی طاقت نہیں جس کی قدرت کے مقابلے کوئی قدرت نہیں جس کی نظر میں دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کی حیثیت ایک مکڑی کے جالے سے زیادہ کچھ بھی نہیں جو کائنات کا تن تنہا حاکم ہے اور جو دنیا کی ہر چیز پر غالب ہے ۔۔۔ اسی کو اپنا رب مانو اسی کی پرستش کرو اسی کے بندے بن جاو اور اسی کی اطاعت اور فرماں برداری کرو ۔۔۔۔
اور اگر تم اسی خدا کو ماننے والے ہو اگر تم اسی خدا پر ایمان رکھتے ہو اگر تم اسی خدا کو اپنا رب مانتے ہو اگر تم خود کو اسی خدا کا بندہ اور غلام کہتے ہو اگر تمہارا یقین ہے کہ تمہارا رب قادر مطلق ہے تمہارا رب غالب ہے تمہارا رب قہار ہے ۔۔۔ پھر تم کس سے خوف زدہ ہو کیڑے مکوڑوں سے ۔۔ ؟؟ تم کہاں بھٹکے چلے جارہے ہو تباہی اور بربادی کی طرف ۔۔ ؟؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم مسلسل پشت بمنزل دوڑے چلے جارہے ہو ۔۔ تم کیوں پستی اور انحطاط کی طرف بڑھتے چلے جارہے ہو ۔۔ تم اپنے رب کی طرف کیوں نہیں آتے جس کے ہاتھ میں تمام فتوحات اور کامیابیوں کی کنجیاں ہیں ۔۔۔۔
تمہیں سخت مصائب و آفات نے گھیر لیا ہے تمہیں خوفناک طوفانوں کا سامنا ہے موذی جانوروں نے تمہارے جسموں کو نوچ ڈالا تم تڑپ کر رہ گئے تم بلبلا تے رہے تم تلملا اٹھے تمہیں کچھ ہوش ہی نہیں رہا تم مبہوت ہوگئے تم پر بد حواسی کا عالم طاری ہو گیا ۔۔۔ تمہاری قوت سماعت زائل ہوگئی تمہاری آنکھوں کی روشنی جاتی رہی تمہارے فکر و شعور کی قوتیں سلب ہوگئیں تمہارے اندر کوئی حس اور حرکت باقی نہ رہی تمہارے قلوب پتھر ہوگئے تمہارے اندر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوگئی ۔۔
مکڑیوں نے تمہارے گھر کو جالوں سے بھر دیا کیڑے مکوڑے تم پر مسلط ہوگئے دنیا کی رذیل ترین مخلوقات نے تمہیں اپنا محکوم بنا لیا ۔ انہوں نے تمہارے ہاتھوں کو جکڑ دیا انہوں نے تمہارے پیروں میں بیڑیاں ڈال دیں انہوں نے تمہارے ہونٹوں کو سی دیا ۔۔۔ تم اپاہج ہوگئے تم مفلوج ہوگئے تم ایک بے جان اور گھن کھائی ہوئی لاش کی طرح زمین پر بوجھ بن گئے اور وقت کے تھپیڑوں نے تمہیں ذلت کی پستیوں کی گہرائیوں میں پھینک دیا ۔۔۔۔۔۔۔
مگر تم نے پھر بھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا تم نے پھر بھی اپنے رب کی طرف دیکھنا گوارا نہ کیا ۔۔۔ تم نے اپنے رب کی بندگی کو چھوڑ کر ہر طاغوت کی غلامی کی ۔۔ تم اپنے رب کی اطاعت کو چھوڑ کر اپنے ان نفس پرست پیشواؤں کے پیچھے چلتے رہے جن کا منتہائے نظر دولت منصب اور عیش پرستی کے سوا کچھ نہیں تھا ۔۔۔۔
یہی لوگ تھے جو قوم کے حالات بدل سکتے تھے جن کے کاندھوں پر قوم کی تعمیر و تحفظ کی ذمہ داری تھی مگر وہ اپنی عیش پرستی میں بدمست اور اپنی دولت کے نشہ میں مدہوش ہوگئے ۔۔۔ وہ تمہارے لئے مخلص نہ تھے وہ تمہارے ہمدرد نہ تھے وہ ایمان دار نہ تھے وہ خدا کے وفادار نہ تھے ۔۔۔
وہ تمہیں بے زبان بھیڑوں کی طرح اسی راستے کی طرف ہانکتے رہے جہاں ان کی منزل تو تھی مگر وہاں تمہاری منزل موجود نہیں تھی ۔۔ ان کے ایک ایک اشارے پر تم لاکھوں کی تعداد میں کھنچے چلےگئے انہوں نے تمہاری افرادی قوت اور ازدہام کے ذریعہ بارہا اپنی طاقت اور اہمیت کا مظاہرہ کیا اپنے نام کے پر جوش نعرہ لگوائے اور باطل قوتوں سے اپنے باطنی مراسم کو گہرائی اور گیرائی بخشی ۔۔۔ مگر تمہارا احساس اس قدر مردہ ہوگیا کہ تمہارے ذہن میں کبھی یہ سوال بھی نہیں ابھرا کہ تمہارے خون کی پیاسی طاقتیں تمہارے رہنماؤں پر مہربان کیوں ہیں ۔۔ تم نے کبھی اس پر غور کرنے کی زحمت بھی نہیں کی کہ تم پر ظلم و ستم کی جس قدر داستانیں رقم کی گئیں تمہارے قائدین کے درجات اسی قدر بلند کیسے ہوتے چلے گئے ۔۔ باطل قوتیں تمہاری غلامی کے بندوں کو کستی رہیں تم درد سے کراہتے رہے اور تمہارے مخلص قائدین کے چہرہ کی چمک دو چند ہوتی رہی ۔۔ انہوں نے اپنے ذاتی مفادات کےلئے سیاست کی منڈی میں وقت کے سودا گروں کے ہاتھوں قومی مفادات کو نیلام کردیا اور ان کے سامنے اپنی قوم کو ایک نفع بخش مال تجارت بناکر پیش کیا ۔۔۔۔ یہ سب کچھ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا پھر بھی تم ان کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھتے رہے مگر انہوں نے کبھی تمہاری طرف دیکھنے کی زحمت نہیں کی ۔۔۔ انہوں نے کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ وہ ایک بار اپنی قوم کو آواز دیتے اور وقت کی ظالم قوتوں کو للکار تے کہ ۔۔۔۔۔ خبردار ۔۔۔۔ بس ۔۔۔۔۔ بہت ہوچکا اب اور نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
اب نا انصافی نہیں ہوگی اب ظلم نہیں سہا جائےگا اب موب لینچنگ نہیں ہوگی اب دین و ایمان پر حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا ہم بھی اسی ملک کے شہری ہیں ہمارا خون بھی مادر وطن کی مٹی میں شامل ہے آئین ہند نے ہمیں بھی حقوق دئیے ہیں جن کو اب اور پامال نہیں ہونے دیا جائے گا ۔۔۔۔
وہ ان کو متنبہ کرتے کہ آپ کو ہمارے شرعی اور عائلی مسائل میں جھانکنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔۔۔۔۔ نکاح کیسے کرنا ہے اور طلاق کیسے دینی ہے یہ ہمارے اپنے مسائل ہیں جنہیں ہمیں خود طے کرنا ہے ۔۔۔۔۔ آپ کو نہیں ۔۔ وہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ۔۔۔۔ کہ ہمیں اپنے دینی شعائر اپنی مساجد اپنے مدارس اپنے مقابر اور اپنی تہذیب و تمدن کے نقوش اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں اور اگر ان سے کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی گئی تو ہم آئین ہند کے دائرے میں رہکر ان کا پوری طاقت کے ساتھ دفاع اور تحفظ کریں گے ۔۔۔ لیکن انہوں نے ایسا کبھی نہیں کیا اور وہ ایسا کربھی نہیں سکتے تھے کیوں کہ قوم کے تاجروں اور سودا گروں سے یہ توقع کی بھی نہیں جاسکتی ۔۔۔۔
قوم پستی رہی اس کے حقوق پامال ہوتے رہے اپنے ہی وطن میں اس پر زمین تنگ کردی گئی مگر تمہاری مخلص قیادت کی پیشانی پر کبھی کوئی شکن تک نہیں آئی ۔۔۔ قوم چیختی رہی چلاتی رہی مگر تمہارے رہنماوؤں کے ہونٹوں کی خوبصورت مسکراہٹ پھیکی نہیں پڑی ۔۔۔۔ انہوں نے اپنے شخصی مفادات کی خاطر اپنی خودداری اپنے ضمیر اپنی ملی غیرت اپنے قومی مفادات اور اپنے دین و ایمان کو فروخت کر ذلت اور غلامی کا راستہ اختیار کیا اور تمہیں بھی اسی غلامی کے راستے کی طرف بلایا ۔۔ انہوں اپنی قوم کی بربادی کی قیمت پر اپنی ذاتی زندگی کو سنوارا ان کی زندگی تو جگمگا اٹھی مگر تمہاری زندگی تاریک سے تاریک تر ہوتی چلی گئی وہ امیر سے امیر تر ہوتے گئے مگر تم غریب سے غریب تر ہوتے چلے گئے ۔۔۔ تم ان کی اطاعت پر فخر کرتے رہے اور انہوں نے تمہیں اسفل سافلین کی صفوں لیجا کر کھڑا کردیا ۔۔۔
اپنے رہنمائوں کے اس مکروہ اور گھناؤنے طرز عمل کو تم دیکھتے اور تکتے رہے مگر پھر بھی تمہاری آنکھیں نہ کھل سکیں تمہارے لب جنبش نہ کر سکے کیوں کہ تمہیں زبان کھولنے کی اجازت ہی کب تھی تم صرف آنکھیں بند کرکے ان کی اطاعت اور فرماں برداری کے مکلف تھے تمہیں ان سے سوال کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا ۔۔۔
اور اگر کسی جری سر پھرے نے یہ سوال کرنے کی جرئت کی کہ آپ کی قیادت اور رہنمائی میں یہ قوم اس حالت کو کیونکر پہنچی اس کا ذمہ دار کون ہے تو قوم کے سورماؤں نے اس کو باغی اور گمراہ قرار دیکر اس کا ناطقہ بند کردیا ۔۔۔۔ ملک کے کسی کونے سے جب بھی کوئی بندہ خدا اپنی قوم کو سیدھا راستہ دکھانے لئے اٹھا تو اس کی آواز صحرائی چٹانوں سے ٹکرا کر فضا میں تحلیل ہوکر رہ گئی ۔۔۔۔۔۔۔
مگر یہ دنیا تغیرات اور انقلابات سے عبارت ہے آج پھر آسمان منتظر ہے کہ کاش پھر کوئی سرفروش بندہ خدا اٹھے جس کی آواز میں بجلی کی کڑک ہو رعد جیسی گرج ہو اور برق جیسی تاثیر ہو جو ذلت و رسوائی کی نیند سو رہی اس قوم کے کانوں کے پردوں کو چیر کر اس کے دلوں میں اتر جائے ۔۔۔ اور جو اپنی قوم سے کہے کہ اٹھو ۔۔۔ بہت سوچکے ہو ۔۔۔ اب بیدار جاو ۔۔۔ کیوں کہ اب تمہارا خدا تمہیں بیدار کرنا چاہتا ہے ۔۔۔
جو صدائے کوہ صفا کو دہرائے اور بلندی پر چڑھ کر کہے ۔۔۔ کہ اے لوگو نگاہ اٹھا کر دیکھو ایک خطرناک طوفان تمہارے سر پر منڈلا رہا ہے ایک خوفناک انقلاب تمہارے دروازہ پر دستک دے رہا ہے ۔ تم ناکامی اور نامرادی کے راستے کو چھوڑ دو اور فلاح اور کامیابی کے راستے کی طرف آجاو ۔۔۔۔۔
جو چیخ چیخ کر کہے کہ اے لوگو ۔۔۔۔ اس خدا کی طرف آو جو تمہیں موت کی دلدل سے نکال کر زندگی کی وسعتوں کی طرف لانا چاہتا ہے جو تمہیں ذلت اور زوال کی پستیوں سے نکال کر عزت اور وقار کی بلندیوں پر پہنچانا چاہتاہے ۔۔۔۔۔ تم کب تک ذلت اور رسوائی کی زندگی جیتے رہوگے تم کب تک اپنی تباہی اور بربادی پر ماتم کرتے رہوگے تم اپنے خدا سے رشتہ توڑ کر کبتک غیر اللہ کے در کے بھکاری اور ان سے مدد کے طلبگار بنے رہوگے ۔۔۔۔
تم چاہتے ہو کہ تم پر چھائے ہوئے تباہی اور بربادی کے سیاہ بادل چھٹ جائیں تم چاہتے ہو کہ تمہارے سامنے سے یہ مصائب و مشکلات کے پہاڑ ہٹ جائیں تم اس کے لئے مختلف قسم کے حربے اور تدبیریں سوچ رہے ہو تم نے اتحاد و اجتماعیت کا نعرہ دیا مگر تم ۔۔۔ واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ۔۔۔ کی تفسیر نہیں سمجھ سکے تم نے سیاست کو قومی مسائل کا علاج بتایا مگر اسلامی نظام سیاست کے معنی تمہاری آنکھوں سے اوجھل رہے ۔۔ تم نے تعلیم کے حصول پر زور دیا مگر تعلیم کی حقیقی روح تک تمہاری رسائی نہ ہوسکی ۔۔۔۔ تم نے ہر طرح کے راستے اختیار کئے مگر تمہیں ناکامی کے سوا کچھ نہ مل سکا تمہاری ہر تدبیر ناکام ثابت ہوئی تمہارا کوئی علاج کارگر ثابت نہ ہوسکا ۔۔۔۔۔
مگر یہ کیسی بد بختی اور بد نصیبی ہے کہ اپنی پیہم ناکامیوں کے تلخ تجربات کے باوجود تمہارے دل میں ایک لمحہ کےلئے بھی اس راستے کی طرف لوٹنے کا خیال تک نہیں گزرا جس کی طرف خود تمہارا رب تمہیں بلا رہا ہے ۔۔۔ ھذا صراطی مستقیما فااتبعوہ ولا تتبعوا السبل ۔۔۔۔ یہی میرا سیدھا راستہ ہے اسی پر چلو دوسرے راستوں پر مت چلو ۔۔۔۔۔۔ کوئی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہو سکتی کوئی علاج موثر ثابت نہیں ہوسکتا تا آنکہ تم اپنے رب کو راضی نہیں کرلیتے اور اسی سیدھے راستے کی طرف نہیں لوٹ آتے جس پر تمہاری فلاح و کامیابی کی منزل واقع ہے ۔۔۔ تمہیں کوئی ٹھکانہ نہیں مل سکتا تمہیں کہیں کوئی جائے پناہ نصیب نہیں ہو سکتی جبتک تم اپنے رب کے اسی در کی طرف واپس نہیں آجاتے جس سے بھاگ کر تم نے ساری دنیا میں ذلتوں اور نامرادیوں کی ٹھوکریں کھائیں ہیں ۔۔۔
اگر زندگی چاہتے ہو اور عزت اور وقار کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہو تو اپنے رب کی آواز کو سنو اور خواب غفلت سے بیدار ہوجاو ۔۔۔ سورج بہت اوپر چڑھ چکا ہے ۔۔۔ اب اٹھ کھڑے ہو ۔۔۔ کیوں کہ یہی اٹھنے کا وقت ہے ۔۔۔ اور اگر آج تم نہ اٹھے تو پھر تمہاری نسلیں بھی کبھی نہیں اٹھ سکیں گی وہ اپاہج ۔۔ مفلوج اور ذہنی بیمار پیدا ہونگی ۔۔۔ آج وقت ہے جو کچھ کرسکتے ہو آج کرسکتے ہو اسی زندگی میں کر سکتے ہو اس کے بعد موت ہے ۔۔۔ صرف موت ۔۔۔۔۔ اور موت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔۔۔
لہذا اس حقیقت کو ذہن میں بٹھالو کہ تمہاری دولت تمہاری شہرت تمہاری عزت تمہارا عہدہ تمہارا منصب تمہاری سیاست تمہاری قیادت تمہارے رہنما اور تمہارے لیڈران تمہیں موجودہ بحرانی حالات سے باہر نہیں نکال سکتے اور نہ یہ تمہارے کسی کام آسکتے ہیں کیوں کہ یہی تو در اصل تمہارے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہیں ۔۔۔۔
تمہیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہوگا تمہیں اپنے اندر انقلابی تبدیلیاں لانی ہونگی جس کا حاصل صرف یہ ہے کہ تم اپنے رب کو راضی کرلو اس کی رضا کے لئے سب کچھ قربان کرنے کا عہد کرلو اس کے راستے پر آجاو اپنی زندگی کو اس کے حکم کے ماتحت کرلو تم تمام خطرات سے محفوظ اور ساری دنیا سے بے نیاز ہوجاوگے ۔۔۔۔
الحب فی اللہ والبغض فی اللہ ۔۔۔ کمال ایمان کی کسوٹی ہے جس کا تقاضہ ہے کہ تم اپنے ان نام نہاد رہنماوؤں سے جو تمہارے اربابا من دون اللہ بنے ہوئے ہیں سے قطع تعلق کرلو یہی ہیں جنہوں نے تمہیں راہ راست سے بھٹکایا ہے یہی ہیں جنہوں نے تمہیں تمہارے خدا سے بیگانہ کیا ہے ان کی پیروی کو چھوڑدو ۔۔۔۔ یہی وہ شرار خلق ہیں جن کے بارے میں ہادئ اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں خبر دار کیا ہے ۔۔۔۔ انی اخوف ما اخاف علیکم الائمتہ المضلون ۔۔۔۔ مجھے اپنی امت پر سب زیادہ جس چیز کا خوف اور اندیشہ ہے وہ میری امت کے گمراہ کرنے والے رہنما ہیں ۔۔۔۔
صرف اللہ کو اپنا معبود جانو ہرطرف سے منہ پھیر کر صرف خدا کی طرف متوجہ ہوجاو اپنے گناہوں سے توبہ کرو اپنے رب کے سامنے روو اور گڑگڑاو کیونکہ وہ ہی تمہارا آخری ملجا و ماوی ہے ۔۔۔ قرآن کو پڑھو اور سمجھو اور اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش کرو ۔۔۔۔ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجو اور سنتوں کا اہتمام کرو ۔۔۔ اپنے فرض اور ذمہ داری کا احساس کرو اپنے اپنے حلقہ اور علاقہ میں اپنی قوم کو جگاو اور بیدار کرو اور اس کی شیرازہ بندی کی کوشش کرو ۔۔ اور جہاں بھی کوئی صالح اور مخلص شخص نظر آئے جس کے اندر قوم کا درد ہو جو قوم کے لئے کچھ کر رہا ہو یا کرنا چاہتا ہو اس کا دامن تھام لو اس کا ساتھ دو اسے اپنا رہبر اور رہنما بنالو ۔۔۔
حالات کی نزاکت کو پیش نظر رکھو احتیاط کا دامن تھامے رکھو حتی الامکان کوشش کرو کہ تمہارے کسی عمل سے اپنے وطن بھائیوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے ۔۔۔ ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرو اور موقع اور محل کے مطابق ان کو اسلام کی دعوت دو ۔۔۔
تمہاری کوئی بھی سرگرمی ملک کے آئین اور قانون کے دائرے سے باہر ہرگز نہیں ہونی چاہیئے تم خود کو ملک اور قوم کے لئے نفع بخش بناو اور جس شعبہ سے تم وابستہ ہو وہاں اپنی ایمان دارانہ شبیہ چھوڑ نے کی کوشش کرو ۔۔۔ اور اہل وطن کو اپنے عمل سے بتاو کہ ایک مسلمان کا اخلاق اور کردار کتنا اعلی اور کتنا بلند ہوتا ہے ان کو سمجھاو کہ ایک مسلمان کا مذہب اس کے سینے کے اندر حب الوطنی کا سچا جذبہ جگاتا ہے اور اس کا دین اور ایمان اس کو امن کا داعی اور انسانیت کا محافظ بناتا ہے ۔۔۔۔۔
جس دن تم نے اپنی زندگی کا رخ بدل دیا جس دن تم صراط مستقیم پر واپس آگئے ۔۔۔۔ یقین کیجئے اسی دن سے تم پر چھائے ہوئے یہ پرہیبت تاریکیوں کے سائے خود بخود چھٹتے شروع ہو جائیں گے اور انشاءاللہ تعالی تمہیں فوز و فلاح اور کامیابی اور کامرانی کی ایک نئی منزل ملے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔