آؤ مل کر ایک سوال حل کریں!
تحریر:توصیف القاسمیؔ، پیراگپوری، سہارن پور موبائل نمبر: 8860931450
مفتی محمدہارون قاسمی بلندشہری نے23؍فرری 2019ء کو اپنے فیس بُک اکائونٹ پر مندرجہ ذیل تحریر شائع کی، جس کا عنوان تھا ’’ایک سوال جسے بہرحال حل کرنا ہی ہوگا ‘‘: ’’مساجد ہیں ،مدارس ہیں، خانقاہیں ہیں، نمازیں ہیں، عبادات ہیں، ذکر واذکار کی مجلسیں ہیں، رقت آمیز دعائوں کا اہتمام ہے، دین و ملت کے عنوان پر زبردست سرگرمیاں ہیں، تحریکیں ہیں، تنظیمیں ہیں، جلسے ہیں جلوس ہیں، کانفرنسیں ہیں، بڑے بڑے اجتماعات ہیں، بڑے بڑے نامور مصنفین ہیں، بڑے بڑے شعلہ بیان مقررین ہیں، بڑے بڑے اہل اللہ اور خدا رسیدہ بزرگ ہیں، بڑے بڑے علماء دین ہیں، بڑے بڑے سیاسی قائدین ہیں اور ہر ایک کی اپنی اپنی سرگرمیاں ہیں مگرنتیجہ ہے کہ ۔۔۔۔ ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘‘۔ چند سطحی اصلاحات اور چند جزوی فوائد سے قطع نظر ملت ہے کہ پیہم انحطاط کی طرف بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔‘‘۔۔۔وجہ۔۔؟؟؟؟
یہ سوال صرف مفتی صاحب ہی کا نہیں ہے بلکہ میرا بھی ہے اور امت کے بہت سے افراد کا بھی ہے۔ یہ سوال آج سے نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے پس منظر میں مذکورہ سوال 1707ء میں اورنگزیب عالمگیر کے وفات پاجانے کے بعد ہی سے حل طلب ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (م 20؍اگست 1762ء) بھی ملت کی سرفرازی کا خواب لے کر محوخواب ہوگئے، سرسید (م 27؍مارچ 1898ء) بھی اسی سوال کو حل کرنے کے فراق میں فکری بغاوت کا شکار ہوگئے، علامہ اقبال(21؍اپریل 1938ء) بھی اسی سوال کو حل کرتے کرتے خدا سے شکوہ کربیٹھے اور بالآخر ان کی آواز بھرّاگئی اور امت مسلمہ کو یہ چبھتاہوا طعنہ دے گئے :
تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف
یہ ’سوال ‘ آج بھی حل طلب ہے لیکن علمی و فکری سطح پر نہیں، بلکہ عملی سطح پر، علمی و فکری سطح پر ہمارے پاس بہت کچھ مواد اکٹھا ہوچکا، مذکورہ تینوں بزرگوں کی علمی و فکری کدوکاوش کے ساتھ ہمارے زمانے کے عظیم مفکر مولانا وحیدالدین خان (پ یکم جنوری1925ء) کی چار کتابیں ہم کو بہت کچھ موادفراہم کرتی ہیں،جومندرجہ ذیل ہیں: (1 دین و شریعت (2قیادت نامہ (3 کاروان ملت (4 حل یہاں ہے اور بھی کئی اسلامی فکر کے حامل علماء ودانشوران کا لٹریچر ہماری علمی و فکری رہنمائی کے لیے موجود ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم اتحاد کلمہ کی بنیاد پر تنگ ذہنی Narrow-minded سے اوپراُٹھ کر ہر ایک سے فائدہ اُٹھائیں، لیکن عملی سطح پر ہم کہاں ہیں؟ ہمارے مقام و حیثیت کا تعین سچرکمیٹی کی رپورٹ نے کردیاہے: "The ecnomic condition of Muslim in urban areas not improved as much as of others SRCs" Sachar commetee Page No.162 یہ سچ ہے کہ ہم اہل ایمان کی حالت ابتر بلکہ بدتر ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس حالت کو ہم ہی بدلیں گے تو بدلے گی:
بھنور سے لڑو تند لہروں سے اُلجھو کہاں تک چلوگے کنارے کنارے (رضا ہمدانی)
قارئین کرام ! اتحاد کلمہ کی بنیاد پر علماء امت و دانشوران ملت کا تحریر کردہ علمی و فکری لٹریچر ہمارے پاس موجود ہے جو ہمارے عملی میدان کے لیے محرک اول Firts Animator بننے کی پوری طاقت رکھتا ہے۔ راقم پوری ذمہ داری سے کہہ سکتاہے کہ ہم اہل ایمان فکری الجھنو ں کے شکار نہیں ہیں، ہماری اصل الجھن یہ ہے کہ ہم آغازِ عمل کہاں سے کریں؟ کس میدان سے کریں؟ ہم اہل ایمان عملی سطح پر الجھن کا شکار ہیں، ہمارے اندر عملی اتحادنہیں پایاجاتا۔راقم کے پاس نوجوانوں کے فون آتے ہیں کہ ہم ملت کی سرفرازی اور احیاء اسلام کے لیے کیا کریں؟ کیسے کریں؟ راقم سب کو ایک ہی جواب دیتاہے جو کہ درج ذیل ہیں: _1 گہرا اور ہمہ گیر مطالعہ (Deep and comprehensive study) :آپ حیرت میں پڑجائیں گے کہ ملت کے وہ نوجوان جو میدان میں اُترے ہوئے ہیں، اکثر وبیشتر انگریزوں اور متعصب ہندو مصنفین کے قلم پر ایمان لائے ہوئے ہیں، اسکول وکالج کا طبقہ تومسلم اسکالرس اور ان کی کدوکاوش کو جانتا ہی نہیں۔ خیر! ہمارا یہ ’’مطالعہ ‘‘توحید سے لے کر سماجی زندگی کے ہر پہلو تک ہونا چاہیے۔ _2 جو ہر قابل: یعنی رجال سازی پر پوری توجہ دیں اور اپنے آس پاس کے مردان کار کو پہنچانیں اور ان سے ان ہی کی صلاحیت کے مطابق کام لیں:
افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
_3 مسلم ادارے: خواہ وہ مدارس ہوں یا مساجد، تنظیمیں ہوں یا اسکول و کالج، جن کا مکمل انتظام و انصرام اہل ایمان کرتے ہیں ان کا استعمال ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود کے لیے بھی ضرور کیاجانا چاہیے۔ آج کی بدتر صورت حال یہ ہے کہ مساجد کے منبرسے نماز، روزہ یا تبلیغی جماعت کی تعریف کے علاوہ کچھ بھی بولنا ائمہ کے لیے وبال جان بناہواہے، اس مسئلے کا دوسرا بدترین پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے ائمہ بھی مذہب کی سطحی معلومات کے علاوہ ہر میدان زندگی سے متعلق زیرو Ziroنالج رکھتے ہیں۔ اسکول و کالج کا طبقہ امت کے لیے دردمند دل نہیں رکھتا، تنظیمیں، نشستن، گفتن، برخاستن پر یقین رکھتی ہیں۔ بہرحال مسجد مسجد، مدرسہ مدرسہ ، اسکول اسکول، تنظیم تنظیم ، مسلک مسلک آپس میں ملت کی فلاح و بہبود کے لیے رابطے رکھیں۔ ملت اسلامیہ کی ’’فلاح ‘‘ واحد نشانہ ہو۔ ملّی وملکی مسائل میں مذکورہ پوری چین متحرک ہوجائے، عملی میدان کے اعتبار سے ہم الگ الگ ہوسکتے ہیں لیکن مقصد ہمارا ایک ہو، ملت اسلامیہ کی سربلندی۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی فرد اور ادارہ تنہا تمام کام انجام نہیں دے سکتا، تقسیم کارDifferentationکے اصول پر ہم کو ہر شعبۂ حیات کے لوگوں کی ضرورت ہے، صحابہ کو دیکھیے: حضرت ابوہریرہؓ وغیرہ احادیث کو جمع کرتے ہیں، حضرت خالد بن ولیدؓ فوجی کارروائیوں Militry Operationکے ذمہ دار ہیں، حضرت ابوبکر و عمر اسلامی سلطنت کے انتظام و انصرام کے ماہرہیں، حضرت معاذ بن جبل وعلیؓ شعبۂ انصاف Department of justice کے رمزشناس ہیں، حضرت ابوذرغفاریؓ ’’دنیائے فانی ‘‘کے واعظِ آخرت ہیں۔ صحابہ کے یہ مختلف میدان اس بات کو بتلاتے ہیں کہ ملت بھی مختلف محاذوں پر سرگرم عمل ہوجائے،ملت کے ہر طبقے کی اپنی ایک اہمیت ہے:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں اقبال
نوٹ: یہ مضمون مفتی محمد ہارون قاسمی بلندشہری اور محمد ذیشان (ایم بی بی ایس )کی مدد سے تیار کیاگیا ہے۔ فقط 10؍مئی 2019 بروزاتواربوقت11.00دوپہر
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔