*اب آئین ہند بھی سیاست کا حصہ ہے__!!* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*
*آزادی ہند کے بعد سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ ملک میں ساوارکر کی سوچ کو توسیع دی جائے، ٹو نیشل تھیوری کے مطابق یہ عین ممکن بھی تھا؛ کہ جناح کے پاکستان بنا لینے کے بعد اب ہندوستان کو ہندو راشٹر بنایا جائے، اس کیلئے اسے کسی قانون سازی اور نئے آئین کی ضرورت بھی نہ تھی؛ بلکہ میتھالاجی اور دیومالائی کہانیوں کو ہی زمینی حقائق سے جوڑا جاتا، وہی براہمن وادی کو بڑھاوا دیا جاتا، طبقہ واریت کے ساتھ معاشرے کی تقسیم کردی جاتی، یہی وجہ ہے کہ جب ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر کی ٹیم تشکیل پائی اور انہوں نے ملک ملک کے آئین کا جائزہ لینا شروع کیا، تو اس کے روز اول ہی سے سنگھ پریوار اور اس کے متعلق تمام پارٹیوں نے سخت رد عمل ظاہر کیا تھا، اس وقت اگرچہ ملک میں وہ کمزور تھے اور گاندھی جی کی تحریک و افکار نے ان کے رنگ کو پھیکا کردیا تھا، بالخصوص سردار پٹیل کی سیاسی حکمت کے سامنے وہ بونے ہوگئے تھے، اس لئے وے اخبار و رسائل میں اپنی بھڑاس نکالتے تھے، خود واجپائی جی کی ادارت میں ایسے کالم لکھے گئے جس سے موجودہ آئین کی توہین کی گئی اور اسے بیکار و بے مراد بتایا گیا۔* *تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھئے__! سنگھ پریوار نے ہمیشہ ہندوستانی آئین کو نکارا ہے، اور ہندو تہذیب کو مکمل دستور سمجھتے رہے اور اس کی حمایت میں لگے رہے، چنانچہ انہوں نے محنت کی _ زمین سے جڑ کر عوام کو خود سے جوڑا_ اپنی فکر کو گھر گھر پہونچایا اور پھر اکیسویں صدی کا وہ زمانہ بھی آیا، جب سنگھ کے سیاسی بازو بی جے پی نے اقتدار پر قبضہ جمالیا_ اور اس تزک و احتشام کے ساتھ براجمان ہوئے؛ کہ اس کی مثال صرف اندرا گاندھی ہی کے زمانے میں ملتی ہے، ورنہ ستر سالہ تاریخ میں ایسی طاقتور سرکار اور ایسی ہٹ دھرم اور ڈھیٹ سرکار کا کوئی وجود نہیں ملتا، انہوں نے سیاست ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، اپنے گوشت اور پوست کا حصہ بنایا، تفرقہ بازی کو ہتھیار بناتے ہوئے اقلیت کو اصل ملکی دھارے سے کاٹا، نفرت کی کھائی گہری کی اور صرف ایک گروہ کو لیکر پورے ملک میں شعلہ برپا کردیا، اب ہر چیز ڈائنامک ذرات پر رکھ دی گئی ہے، کب کیا پھٹ جائے اور کیا ہنگامہ برپا ہوجائے_ کچھ نہیں کہہ سکتے_! اب انہیں کے اشاروں پر سبھی ناچتے ہیں، وہ جو کہہ دیں وہی قانون ہے، وہی صداقت ہے، ان کے منہ میں ہی حق کی زبان ہے، باقی سب مفلوج العقل اور مغلول الفھم ہیں۔* *انہوں نے آئین کے ساتھ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے چھیڑ چھاڑ کی، انہیں اندازہ تھا کہ اگر تشدد کی راہ اپنائی جائے اور محض اپنے پروپیگنڈے پر توجہ کی جائے، تو یقینا کئی بار پابندیوں کی طرح اس بار بھی پابندی کا سامنا کرنا ہوگا، لوگوں کی نگاہ میں بے عزت ہونا ہوگا، غیر معتبر ہو کر سیاست کے گلیاروں سے نکلنا ہوگا، چنانچہ انہوں نے قانون کی باریکیاں پکڑیں، چھوٹے چھوٹے نکات کو سہارا بنایا، ان کی تشریحات میں حد سے زیادہ توسع سے کام لیا، اور اب دیکھتے دیکھتے ان کا خواب پورا ہورہا ہے، ہندوستان مسلم مکت بنتا جارہا ہے، اور ہندو راشٹر کی بڑی سرعت کے ساتھ پیش قدمی کی جا چکی ہے۔ اس کیلئے مختلف فیہ اور ایک ہی گروہ سے قابل نفرت سیاسی موضوعات کو زیر بحث لایا گیا، اس کے بعد انہوں نے کشمیر کو نشانہ بنایا، دفعہ ۳۷۰ یہ کہہ کر ہٹادی کہ اس کی گنجائش خود آئین نے دی ہے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ کشمیر کی رضامندی کے ساتھ اسے لاگو کرنا تھا۔ تین طلاق اقلیت کا مسئلہ تھا، وہ پرسنل لا سے متعلق تھا، مگر اس کے خلاف قانون بنایا گیا، یہ بول کر کہ یہ ظلم کے خکاف لڑائی ہے، جو عین قانون کی بات ہے۔ بابری مسجد کا فیصلہ تمام تر ثبوتوں کے باوجود ہندو جماعت کو سونپ دی گئی اور جواب یہ دیا گیا؛ کہ قانون میں اکثریت کے مذہبی جذبات کا خیال کرنا چاہئے۔* *نوبت یہ آن پڑی کہ اب قانون ہی کو مدعی بنا کر سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ لایا گیا اور یہ بتا کر قانونی شکل دے دی گئی؛ کہ دفعہ ۱۴ میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ باہر سے آنے والے مسلمانوں کو بھی شہریت دینی چاہئے، اس میں صرف برابری کا تذکرہ ہے۔ قانون کی یہی باریکی تھی کہ ایوانوں میں اسے خم ٹھونک کر پاس گیا، اور پھر صدر جمہوریہ سے بھی اس پر دستخط لے لیا جاتا ہے۔ جرائم کی چھان پھٹک کیلئے ED اور CBI خود اپنے آپ میں تحقیقی ادارے ہیں، لیکن اب صرف حکومت کے اشارے پر کام کرتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے؛ کہ وہ قانون کا کام کر رہے ہیں۔ راتوں رات CBI کے دفتر پر چھاپہ مارتے ہیں، اور اس کے صدر کو برخواست کردیتے ہیں۔ اسی سیاست کا زور ہے اور آئین کو سیاسی آلہ بنا لینے کا ہی دم ہے کہ شب کی تاریکی میں مہاراشٹر سے صدر راج ہٹایا گیا، وہ بھی قانون کے دائرے میں لا کر ہی کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں عموما ججوں کا حال یہ ہے کہ وہ کہیں نہ کہیں موجودہ حکومت سے جا ملتے ہیں، چنانچہ وہ خود جب کوئی فیصلہ سناتے ہیں، تو نہ صرف وہ قانون ہندوستانی ایکٹ کے تحت ہوتا ہے؛ اور اسی کو قانون مان لیا جاتا ہے، سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ایوان بالا اور ایوان زیریں دونوں جگہوں پر اکثریت حاصل کر لی گئی ہے، اب وہ جو چاہیں وہی قانون ہے اور وہی دستور ہے، ان سب باتوں پر غور کیجئے_! تو صاف نظر آتا ہے کہ ہندوستان کا آئین جمہوریت سے ہٹ کر فاشزم پر مشتمل ہوگیا ہے، اور آئین خود سیاست کا ایک آلہ ہے۔* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 19/12/2019
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔