جناب ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ

سلسلہ نمبر ۱۱

جناب ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ

عربی کتاب: صور من حیاۃ الصحابہ
مؤلف: علامہ عبدالرحمن رافت الباشا

اردو کتاب: صحابۂ رسول ﷺ کی تڑپا دینے والی زندگیاں
جدید تخریج شدہ

مترجم: مولانا اقبال احمد قاسمی
مرتب: عاجز: محمد زکریّا اچلپوری الحسینی

 

سلسلہ نمبر ۱۱

جناب ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ

وہ پاکیزه رو خوش شکل دبلا پتلا جسم اور تیز رفتار شخصیت کے مالک تھے انہیں دیکھ کر آنکھوں کو راحت ملتی اور ان سے مل کر روح کو سکون اور دل کو قرار میسر آتا تھا، اس کے علاوہ وہ بے حد خوش اخلاق نرم مزاج اور شرم وحیا کے پیکر تھے لیکن جب کوئی سخت معاملہ پیش آتا یا کوئی کٹھن گھڑی سامنے آتی تو وہ ایک خوں خوار شیر کی مانند نظر آتے، وہ رونق وصفائی اور تیزی اور کاٹ میں تلوار کی دھار کے مشابہ تھے، یہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امین جناب ابوعبیده عامر بن عبداللہ بن جراح فہری قرشی ہیں، جناب عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ ان کی تعریف کرتے ہوئے کہتے
قریش کے تین آدمی سب سے زیادہ درخشنده رو سب سے زیادہ خوش اخلاق اور سب سے زیادہ باحیاء ہیں، اگر وہ تم سے بات کریں گے تو کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے اور اگر تم ان سے بات کرو گے تو بھی تمہاری تکذیب نہیں کریں گے، وہ ہیں ابوبکر صدیق عثان بن عفان اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم
جناب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ "السابقون الاولون” (سب سے پہلے ایمان لانے والے) میں سے تھے، وہ جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے دوسرے دن انہی کے دست مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئے، جناب ابو بکر ان کو جناب عبدالرحمن بن عوف کو جناب عثمان بن مظعون کو اور جناب ارقم رضی اللہ عنہم کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو کلمہ حق کا اعلان کیا، یہ لوگ بنیاد کی اول اینٹ تھے جس پر اسلام کی عظیم الشان عمارت تعمیر کی گئی۔
اگرچہ جناب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے مکہ میں رہتے ہوئے شروع سے آخر تک ان شدید ترین آزمائشوں کو برداشت کرتے ہوئے زندگی گزاری جن میں مسلمانوں کو مبتلا کیا گیا۔ انہوں نے ابتدائی مسلمانوں کے ساتھ مصائب، رنج و غم کی جوسختیاں جھلیں روئے زمین پر کسی دین کے متبعین نے نہ جھیلی ہوں گی۔ انہوں نے بڑی پا مردی اور عزم و حوصلے کے ساتھ ان ابتلاؤں کا مقابلہ کیا
اور ہر موقع پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سچی محبت کا ثبوت دیا، لیکن غزوہ بدر کے موقع پر وہ جس آزمائش میں مبتلا ہوئے اس کی سختی ہرخیال و تصور سے بالاترتھی۔ وہ غزوة بدر میں صفوں کے درمیان اس طرح بڑھ بڑھ کر اور پینترے بدل بدل کر حملہ کر رہے تھے جیسے ان کو نہ تو موت کا کوئی ڈر ہے نہ ہلاکت کا کوئی اندیشہ، ان کے حملوں نے مشرکین پر ان کی ہیبت طاری کر دی اور قریش کے بڑے بڑے سورما ان کا سامنا کرنے سے کترانے
لگے، لیکن ان میں سے ایک شخص ایسا تھا جو ہر وقت ان کا سامنا کرنے کی کوشش کرتا اور ہر موقع پر ان کے بالمقابل آ جاتا مگر وہ اس کے راستے سے ہٹ جاتے اور اس کے ساتھ مقابلہ کرنے سے پرہیز کرتے، وہ شخص بار بار ان کے اوپر حملہ آور ہوتا اور وہ ہر بار کترا کر دوسری طرف نکل جاتے، آخر کار اس نے ان کے لئے سارے راستے بند کر دیئے ان کے سامنے آ کھڑا ہوا اور ان کے اور ان کے دشمنوں کے درمیان حائل ہو گیا، جب اس کی یہ حرکتیں جناب ابوعبداللہ رضی اللہ عنہ کی قوت برداشت سے باہر ہو گئیں تو انہوں نے اس کے سر پرتلوار کا ایک بھر پور ہاتھ مارا، اس کی کھوپڑی کے دوٹکرے ہو گئے اور وہ بے جان ہو کر زمین پر گر پڑا۔
قارئین کرام ! یہ اندازہ لگانے کی کوشش نہ کریں کہ یہ مرنے والا شخص کون ہوگا؟ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ غزوہ بدر کے موقع پر جناب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کا امتحان ہرقسم کے خیال وگمان سے بلند تھا اور آپ کا سر چکرا جائے گا جب یہ بات آپ کے علم میں آئے گا کہ جناب ابوعبید اللہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے مارا جانے والاشخص کوئی اور نہیں خودان کا والد عبد الله بن جراح تھا، انہوں نے اپنے والد
کونہیں ان کی شخصیت میں پائے جانے والے کفر کوقتل کیا تھا، اس موقع پر اللہ تعالی نے جناب ابو عبیداللہ رضی اللہ عنہ اور ان کے والد کے متعلق قرآن نازل کرتے ہوئے فرمایا:
ا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (المجادله: ۲۲)

تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے اہل خاندان، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو نقش کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کر
کے ان کو قوت بخشی ہے، وہ ان لوگوں کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں خبردار رہو اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔“
جناب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے اس بات کا صادر ہونا کچھ حیرت انگیز اور تعجب خیز نہ تھا، وہ اپنی قوتِ ایمانی دینی خیر خواہی اور امت محمد یہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے امانت داری کے اس مقامِ بلند پر فائز تھے کہ بہت سے لوگوں کی رشک آمیز نگاہیں ان کی طرف اٹھتی رہتی تھیں۔
محمد بن جعفر نے بیان کیا ہے کہ ایک بار نصاری کا ایک وفد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی ” ابوالقاسم ! آپ ہمارے ساتھ اپنے اصحاب میں سے کسی ایسے شخص کو بھجیئے جس کو آپ ہمارے لئے پسند کرتے ہوں تا کہ ہمارے درمیان ان جائیدادوں کا فیصلہ کرے جن کے بارے میں ہمارے اندر اختلاف پیدا ہوگیا ہے، تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ تم دن کے وقت مجھ سے ملو میں تمہارے ساتھ ایک قوی امین کو روانہ کروں گا۔ (۱)
جناب عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ظہر کی نماز کے لئے بہت سویرے پہنچا اس روز کی طرح میرے دل میں امارت کی کبھی خواہش نہیں پیدا ہوئی تھی اور امارت کی یہ خواہش میرے دل میں صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی تھی کہ ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ وصف کا میں ہی مصداق ٹہروں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر اپنے دائیں بائیں دیکھنے لگے تو میں اچک اچک کر خود کو نمایاں کرنے لگا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میرے اوپر پڑ سکے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش کرتی نظریں ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بن جراح پر جا کر ٹک گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے پاس بلایا اور اہل وفد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
ان کے ساتھ جاؤ اور ان کے درمیان پیدا شده اختلافی معاملے کا برحق اور مبنی بر انصاف فیصلہ کردو‘ یہ دیکھ کر میں نے اپنے دل میں کہا: ابوعبیدہ اس فضیلت کو لے اڑے،
جناب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نہ صرف صفت امانت ہی سے متصف نہ تھے وہ امانت داری کے ساتھ ساتھ زبردست قوتِ ایمانی کے مالک بھی تھے اور بہت سے مواقع پر ان کی اس قوت کا اظہاربھی ہو چکا تھا، اس قوت کا اظہار خاص کر اس وقت ہوا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک دستہ قریش کے تجارتی قافلے سے تعرض کرنے کے لئے روانہ فرمایا اور جناب ابوعبیده رضی اللہ عنہ کو اس کا امیر مقرر کیا تھا، روانگی کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں سے بھری ہوئی ایک تھیلی ان کے حوالے کی تھی انہیں زاد سفر کے طور پر دینے کے لئے اس وقت اس کے علاوہ دوسری کوئی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومیسر نہ تھی، جناب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں میں سے ہر ایک کو روزانہ ایک ایک کھجور دیتے اور ہر شخص اس کھجور کو اس طرح چوستا جس طرح شیر خوار بچہ ماں کی چھاتیوں کو چوستا ہے اور اوپر سے پانی پی لیتا تھا اور یہی اس کی پورے ایک دن کی خوراک ہوتی تھی۔
ان کی قوت ایمانی کا اظہار اس وقت بھی ہوا تھا جب غزوہ احد کے موقع پر مسلمانوں کو شکست اور ان کے میدان چھوڑ کر بھاگ جانے کے بعد مشرکین مسلسل آوازیں لگا رہے تھے
ہمیں بتاؤ! محمد کہاں ہے؟ بتاؤ ہمیں کہاں ہے محمد؟ (صلی اللہ علیہ وسلم ) تو جناب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ان دس افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے ان کو چاروں طرف سے اپنے
گھیرے میں لے رکھا تھا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھنے والے مشرکین کے نیزوں کو اپنے سینوں پر روک لیں۔
جنگ ختم ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کے دو دانت شہید ہو چکے تھے پیشانی مبارک زخمی ہوگئی تھی اور رخسار مبارک میں خود کی کڑیاں چبھ گئی تھیں، جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو رخسار مبارک سے نکالنا چاہا تو جناب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے انہیں قسم دے کر کہا کہ یہ کام آپ میرے لئے چھوڑ دیں اور انہوں نے چھوڑ دیا کہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ یہ خدمت انجام دیں۔
جناب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو یہ اندیشہ تھا کہ اگر وہ ان کڑیوں کو ہاتھ سے کھینچ کر نکالتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوگی اس لئے انہوں نے ایک کڑی کو دانتوں سے مضبوطی کے سات پڑ اور زور لگا کر کھینچا تو وہ باہر آ گئی مگر ساتھ ہی ان کا ایک دانت بھی ٹوٹ گیا، پھر انہوں نے دوسری کڑی کوبھی اپنے دانتوں کی مضبوط گرفت میں لے کر زور لگایا کڑی پیشانی مبارک سے نکل گئی مگر ان کا دوسرا دانت بھی ٹوٹ کر الگ ہو گیا، (۲) جناب ابوبکررضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ:.
ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سب سے اچھے ہیں جن کے آگے کے دانت ٹوٹے ہوئے ہوں۔“
جناب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ شروع سے آخر تک تمام غزوات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب رہے اور جب سقیفہ بنی ساعدہ کا موقع آیا (جس موقع پر جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دست مبارک پر خلافت کی بیت کی گئی تھی) تو جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جناب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اپنا ہاتھ بڑھایئے آپ کی بیعت کروں اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے یہ کہتے سنا ہے کہ ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور ہماری امت کے امین تم ہو.تو انہوں نے جواب دیا کہ
میں اس شخص سے آگے بڑھنے کی جرات کیسے کر سکتا ہوں جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم مسلمانوں کا امام بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک وہ ہماری امامت کرتا رہا اور اس کے بعد جب جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دست مبارک پر خلافت کی بیعت ہوگئی تو جناب ابوعبیده رضی اللہ عنہ حق وصداقت کے معاملہ میں ان کے بہترین خیر خواہ اور خیر و فلاح میں ان کے قابل اعتماد معاون
ثابت ہوئے۔
پھر جب جناب ابوبکررضی اللہ عنہ نے اپنے بعد جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لئے خلافت کی وصیت کی اور اس کی ذمہ داریاں ان کے سپرد کیں تو جناب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے مکمل طور پر ان کی اطاعت کی اور ایک مرتبہ کے علاوہ کبھی ان کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی، وہ کون سا موقع تھا جب جناب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے خلیفۃ المسلمین کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی۔
ہوا یہ کہ جس زمانے میں وہ شام کے علاقے میں لشکر مجاہدین کی قیادت فرمارہے تھے اور یکے بعد دیگرے فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے پورے علاقے کو فتح کرتے ہوئے ایک طرف مشرق میں دریائے فرات اور دوسری جانب شمال میں ایشیائے کو چک تک پہنچ گئے تھے۔ شام میں اچانک طاعون کی زبردست اور بہت ہی زیادہ وبا پھوٹ پڑی جس نے بے شمار انسانوں کو اپنے بھیانک خونی پنچوں میں جکڑ لیا اور دیکھتے دیکھتے ان گنت انسان لقمہ اجل بن گئے ۔
جناب عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوا تو وہ سخت تشویش میں مبتلا ہو گئے اور انہوں نے ایک قاصد کو اس پیغام کے ساتھ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں روانہ کیا کہ اچانک مجھے ایک ضرورت پیش آگئی ہے جس میں میرے لئے آپ سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔ میں آپ کوقسم دیتا ہوں کہ اگر میرا خط آپ کے پاس رات کے وقت پہنچے تو صبح کا انتظار کیے بغیر سفر پر روانہ ہوجائیے اور اگر دن کو ملے تو شام ہونے سے پہلے رخت سفر باندھ لیجئے ۔ جناب ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو جب جناب عمررضی اللہ عنہ کا یہ خط ملا تو انہوں نے فرمایا:
مجھے معلوم ہے کہ امیرالمومنین کو مجھ سے کیا ضرورت ہے۔ وہ ایک ایسے شخص کو بچانا چاہتے ہیں جو بچنے والا نہیں۔ پھر انہوں نے ان کے جواب میں لکھا:”امیرالمومنین ! میں سمجھ گیا کہ آپ کو مجھ سے کیا ضرورت ہے۔ میں مسلمانوں کے لشکر میں اور اپنے دل میں اس قسم کی کوئی خواہش نہیں پاتا کہ میں اپنے آپ کو اس وباء سے محفوظ کر لوں جس میں یہ سب لوگ مبتلا ہیں۔ میں اس وقت تک ان سے الگ نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ تعالی میرے اور ان کے بارے میں اپنا فیصلہ نافذ نہیں کر دیتا۔ اس لئے جب میرایہ خط آپ کو ملے تو آپ مجھے اپنی قسم سے بری کر دیجئے اور مجھے یہاں ٹہر نے کی اجازت مرحمت فرمادیجئے ‘‘ جناب عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خط پڑھا تو رونے لگے اور ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے، حاضرین نے ان کی شدت گریہ کو دیکھ کر پوچھا کہ کیا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں؟ ان کا انتقال نہیں ہوا مگر موت ان سے زیادہ دور نہیں ہے۔‘ اور جناب عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اندیشہ غلط نہیں تھا۔ اس لئے کہ اس
کے کچھ ہی دنوں کے بعد وہ طاعون میں مبتلا ہو گئے اور جب ان کی موت کی گھڑی قریب آ گئی تو انہوں نے اپنی فوج کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: میں تم لوگوں کو ایک وصیت کر رہا ہوں اگر اس پر عمل کرو گے تو ہمیشہ خیر و فلاح پر قائم رہو گے، دیکھو ! نماز قائم کرو ماه رمضان کے روزے رکھو صدقہ و خیرات کرتے رہو حج اور عمرہ ادا کرو آپس میں ایک دوسرے کوحق کی نصیحت کیا کرو اپنے امراء کے ساتھ خیر خواہی کرو ان کے ساتھ خیانت اور فریب سے کام نہ لو اور دنیا تم کو دھوکے میں نہ ڈالے اس لئے کہ اگر آدمی کو ہزاروں سال کی طویل زندگی بھی مل جائے تب بھی اس کے لئے اس انجام سے دوچار ہونا ضروری ہے جس سے اس وقت میں دو چار ہوں والسلام علیکم ورحمة الله و بركاته .
پر انہوں نے جناب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا:” معاز ! میرے بعد لوگوں کو نماز تم پڑھاؤ گے۔ اور تھوڑی دیر بعد طائر روح قفس عنصری سے پرواز کر گیا۔ انا لله. وانا الیہ راجعون، انتقال کے بعد جناب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ان کو خراج عقیدت پیش کرتے. ہوئے فرمایا:
لوگو! تم ایک ایسے شخص کی موت کے صدمے سے دو چار ہو کہ واللہ! میں نے آج تک کسی ایسے شخص کونہیں دیکھا جو اس سے زیاد مخلص و پاک مزاج اور اس سے زیادہ شرو کینہ سے دور ہو۔ نہ میں نے کسی ایسے شخص کو دیکھا جو اس سے زیادہ آخرت سے محبت کرنے والا اور مسلم عوام کا خیر خواہ ہو۔ اس کے لئے الله تعالی سے رحم کی دعا کرو ۔ الله تعالی تمہارے او پررحم فرمائے۔“

✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿
۱) صحیح بخاری کتاب المغازی، حدیث ٤٣٨٠ – ۲۳۸۱ صحیح مسلم کتاب الفضائل، باب من فضائل ابی عبیدہ رضی اللہ عنہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم مولفہ امام ابن کثیررحمتہ اللہ علیہ ٢: ٥٦١
میں اس واقعہ کی کچھ تفصیل موجود ہے۔

۲) زادالمعاد ٢: ۹۵ بحوالہ الرحیق المختوم صفحہ ٣٦٨ ،٣٦٩

 

نوٹ:  کسی بھی قسم کی غلطی نظر آئے تو ہمیں ضرور اطلاع کریں۔ 

ناشر: eSabaq.com

eSabaq.in@gmail.com
zakariyyaachalpuri9008@gmail.com

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔