جناب ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ قصہ نمبر ۱۷
عربی کتاب: صور من حیاۃ الصحابہ
مؤلف: علامہ عبدالرحمن رافت الباشا
اردو کتاب: صحابۂ رسول ﷺ کی تڑپا دینے والی زندگیاں
جدید تخریج شدہ
جناب ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ قصہ نمبر ۱۷
غفار کا قبیلہ ودان کی وادی میں آباد تھا جو مکہ کو باہر کی دنیا سے جوڑتی تھی قبیلہ غفار کی گزر بسر کا دارومدار ان کی بخششوں اور عطیات پر تھا جو شام کی طرف آتے جاتے قریشی تجارتی قافلوں سے انہیں حاصل ہوتی تھی بار ہا ایسا بھی ہوتا تھا کہ اگر یہ ان کی مرضی کے مطابق انہیں مال نہ دیتے تو یہ انہیں بے دریغ لوٹ لیا کرتے تھے
جندب بن جنادہ جو عام طور سے اپنی کنیت ابو ذر کے ساتھ مشہور ہیں اسی قبیلے کے ایک فرد تھے مگر وہ اپنی شجاعت و دلیری حلم و دانشمندی اور دور اندیشی و بالغ نظری کی بنا پران میں سب سے ممتاز تھے، وہ اپنے بنائے قبیلہ میں اس لحاظ سے بھی امتیازی خصوصیت کے مالک تھے کہ وہ ان بتوں سے سخت بیزار اور دل برداشتہ تھے جن کو ان کے قبیلے نے اللہ تعالی کے مقابلے میں اپنا معبود بنا رکھا تھا عرب میں پایا جانے والا دینی بگاڑ اور فرسودہ عقیدہ انہیں سخت ناگوار تھا وہ کسی نئے نبی کے منتظر تھے جو لوگوں کے قلب و ذہن کو مطمئن کر دے انہیں تاریکی سے نکال کر روشنی میں لے آئے ابوذر کے پاس جبکہ وہ اپنی بستی میں تھے مکہ میں ظاہر ہونے والے نئے نبی کی خبریں پہنچی توانہوں نے اپنے بھائی انیس کو کو بلا کر کہا
پیارے بھائی تم مکہ چلے جاؤ اور اس شخص کے حالات معلوم کرو جو اس بات کا دعوی کررہا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے اور اس کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے اس سے اس کی باتیں سنو اور یہ ساری معلومات میرے پاس لاؤ انیس مکہ پہنچے وہاں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے ملاقات کرکے ان کی باتیں سنیں اور اپنے قبیلے میں واپس آگئے ابوذر جو بڑی بے چینی کے ساتھ ان کے واپسی کا انتظار کر رہے تھے ان سے ملے اور بڑے اشتیاق سے نئے نبی کے حالات دریافت کئیے انیس نے انہیں بتایا اللہ کی قسم! میں ایک ایسے شخص سے ملا ہوں جو مکارم اخلاق کی دعوت دیتا ہے اور ایسا کلام سناتا ہے جو شعر و شاعری سے بہت بلند چیز ہے
ابو ذر نے پوچھا:
لوگ اس کے متعلق کیا کہتے ہیں؟
انیس نے جواب دیا:
کہتے ہیں کہ جادوگر ہے کاہن اور شاعرہے۔
اللہ کی قسم! تمہاری باتوں سے میرا اطمینان نہیں ہوا نہ میری ضرورت پوری ہوئی جس کے لئے میں نے تم کو بھیجا تھا میں خود وہاں جا کر براہ راست اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں کیا تم میری غیر موجودگی میں میرے اہل و عیال کی کفالت کی ذمہ داری سنبھال سکتے ہو؟ ابو ذر نے پوچھا
انیس نے کہا:
ٹھیک ہے میں یہ ذمہ داری بخوشی ادا کروں گا آپ جائیے مکہ والوں سے محتاط رہیے گا،
ابوذر نے زادراہ کا انتظام کیا اپنے ساتھ ایک چھوٹا سا پانی کا برتن لیا اور نبی کریم صلی اللہ وسلم سے ملاقات کے لیے مکہ پہنچ گئے مگر دل ہی دل میں ڈر رہے تھے، ان کو معلوم تھا کہ قریش اپنے معبودوں کی حمایت میں سخت غیظ و غضب میں بھرے ہوئے ہیں انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ وہ ہر اس شخص کو سخت اور عبرتناک سزا دیتے ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کا خیال بھی اپنے دل میں لاتا ہے اس لئیے انہوں نے کسی سے ان کے بارے میں پوچھنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ جس شخص سے وہ پوچھیں گے وہ ان کو ماننے والوں میں سے ہوگا یا مخالفین میں سے،
ایک رات کو وہ مسجد ہی میں لیٹ گئے اتفاقا ادھر سے جناب علی رضی اللہ تعالی عنہ کا گزر ہوا تو یہ غریب الوطن پردیسی سمجھ کر انہیں اپنے ساتھ لے گئے رات انہوں نے ان کے گھر میں گزاری اور صبح کو اپنی چھا گل اور سامان کا تھیلا اٹھا کر مسجد میں واپس آ گئے اس دوران ان دونوں میں سے کسی نے بھی ایک دوسرے کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا ابوذر نے دوسرا دن بھی اسی طرح گزار لیا اور انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی معلومات حاصل نہیں ہوسکیں، رات کو وہ پھر مسجد میں ہی لیٹ گئے جناب علی رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا تو انہوں نے ان سے کہا کیا تمھیں ابھی تک اپنی منزل معلوم نہیں ہوئی؟ وہ پھر ان کو اپنے ساتھ لے گئے اور انہوں نے دوسری رات
بھی ان کے یہاں بسر کی آج بھی دونوں خاموش رہے لیکن تیسری رات سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے مکہ آنے کا سبب دریافت کیا، تو ابوذر نے کہا
اگر وعدہ کرو کہ مجھے مطلوب تک پہنچا دو گے تو میں اپنے آنے کی غرض بتا سکتا ہوں، جناب علی رضی اللہ کے وعدہ کرنے پر انہوں نے کہا:
میں دور دراز سے مشکل بھرا سفر کرکے نئے نبی سے ملنے اور ان کا پیغام معلوم کرنے کے لیے آیا ہوں، یہ سن کر جناب علی رضی اللہ تعالی عنہ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور بولے کہ واقعی وہ اللہ کے رسول ہیں اور وہ……. ایسے ہیں ، اور وہ….. ایسے ہیں (ایک کے بعد ایک تعریف کرنے لگے) دیکھو صبح کو میں جدھر جاؤں میرے پیچھے پیچھے چلے آنا اگر میں تمہارے لئے کوئی خطرہ محسوس کروں گا تو اس طرح کھڑا ہو جاؤں گا جیسے پیشاب کررہا ہوں اور جب چلنے لگو تو میرے پیچھے لگ جانا اور جہاں جہاں جاؤں چلے آنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار اور ان پر نازل شدہ وحی کو سننے کی آرزو میں انہوں نے پوری رات جاگتے ہوئے کاٹی صبح کو جناب علی رضی اللہ تعالی عنہ اپنے مہمان کو ساتھ لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی طرف (مڑے بغیر) چلتے رہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو ابوذر نے کہا:
السلام علیکم یا رسول اللہ!
و علیک السلام ورحمتہ و برکاتہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سلام کا جواب دیا
اس طرح ابو ذر پہلے شخص تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلامی طریقے سے سلام کیا اور بعد میں سلام و تحیتہ کا یہی طریقہ مسلم معاشرے میں عام ہوگیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے اسلامی دعوت رکھی اور قرآن کا کچھ حصہ پڑھ کر سنایا اور انہوں نے کسی ٹال مٹول کے بغیر کلمہ حق کا اعلان کردیا اور اپنی جگہ چھوڑنے سے پہلے نئے دین میں داخل ہوگئے وہ مسلمان ہونے والے چوتھے یا پانچویں شخص تھے قبول حق کی اس سنہری داستان کی بقیہ تفصیل انہی سے سنئے:
اس کے بعد کچھ دنوں تک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ میں مقیم رہا اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسلام کی تعلیم دی اور قرآن پڑھنا سکھایا پھر فرمایا مکے میں کسی شخص کو اپنے مسلمان ہونے کی خبر نہ ہونے دینا مجھے اندیشہ ہے کہ وہ تم کو قتل کردیں گے لیکن میں نے کہا کہ میں جب تک مسجد حرام میں جا کر قریش کے سامنے دعوت حق کا برملا اظہار نہ کر لو مکہ نہیں
چھوڑ سکتا اس کے بعد میں مسجد میں گیا اس وقت قریش کےلوگ بیٹھے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے تھے میں نے ان کے درمیان کھڑے ہو کر بآواز بلند کہا قریش کے لوگوں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں
جو ھی میری آواز ان کے پردہ سماعت سے ٹکرائی وہ سب بری طرح دہشت زدہ ہو گئے تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھے اور یہ کہتے ہوئے میری طرف لپکے
مارو اس بے دین کو اور مجھے بری طرح مارنے لگے اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا محترم عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہ کی نظر پڑی انہوں نے مجھے پہچان لیا اور ان دشمنانِ دین سے بچانے کے لیے میرے اوپر جھک گئے پھر ان کو ڈانٹتے ہوئے کہا
تمہارا برا ہو تم
قبیلہ غفار کے ایک
آدمی کو قتل کرنا چاہتے ہو؟ جبکہ تمھارے تجارتی قافلے ان کی طرف سے ہوکرگزرتے ہیں؟ تب جا کر انھوں نے مجھے چھوڑا
جب میرے ہوش و حواس بجا ہوئے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری یہ حالت دیکھ کر پیار پھرے لہجے میں فرمایا کیا میں نے تم کو اپنے اسلام کے اعلان سے منع نہیں کیا تھا؟
میں نے عرض کیا:
یہ میرے دل کی ایک خواہش تھی جو پوری ہوگئی
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیتے ہوئے فرمایا اپنے قبیلے میں جاؤ جو کچھ یہاں دیکھا اور سنا ہے انہیں بتاؤ اور ان کو اللہ کی طرف بلاؤ ممکن ہے کہ اللہ تعالی تمہارے ذریعہ سے ان کو فائدہ پہنچائے اور تمہیں اس کا اجرعنایت فرمائیں اور جب سن لینا کہ میں غالب آگیا ہوں تو میرے پاس چلے آنا(۱)
جب میں اپنے قبیلے میں واپس آیا تو میرا بھائی انیس مجھ سے ملا اور پوچھا کہ آپ نے کیا کیا؟ میں نے اس کو بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کر کے مسلمان ہو گیا ہوں اللہ تعالی نے ان
کے دل کو قبول اسلام کے لئے کھول دیا انہوں نے کہا مجھے آپکے دین سے کوئی اختلاف نہیں میں بھی اس میں داخل ہوتا ہوں اور اس کی تصدیق کرتا ہوں اس کے بعد ہم اپنی ماں کے پاس گئے اور انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کہا کہ تم لوگوں کے دین پر مجھے کوئی اعتراض نہیں میں بھی مسلمان ہوتی ہوں اور اسی روز سے اس مسلمان گھرانے نے قبیلہ غفار میں دعوت الی اللہ کا کام شروع کر دیا ان کی دعوتی جدوجہد کے نتیجے میں بنو غفار کی ایک بڑی اکثریت دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی(۲) اور ان کے اندر نماز کا شوق بیدار کیا گیا، البتہ ان کے کچھ افراد نے کہا کہ ہم اپنے دین پر قائم رہیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئیں گے تو اسلام قبول کریں گے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد وہ لوگ بھی مسلمان ہوگئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا
غفار غفر اللہ لھا و اسلم سالمھا اللہ
اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور اسلم کو سلامت رکھے(۳)
جناب ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ اپنے قبیلے میں سکونت پذیر رہے یہاں تک کہ بدر احد اور خندق کے معرکے گزر گئے پھر وہ مدینہ میں منتقل ہو گئے اور ہر طرف سے کٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کے ہو کر رہ گئے، چناچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے نفع حاصل کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی سعادت سے اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کا لحاظ کرتے ہوئے انہیں دوسروں پر ترجیح دیتے تھے جب بھی ملاقات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے مصافحہ کرتے ہوئے اپنی مسرت و شادمانی کا اظہار فرماتے تھے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب مدینہ منورہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرکشش شخصیت اور نورانی مجالس سے خالی ہو گیا تو جناب ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے وہاں رسول ﷺ کا کوئی مثل نہ رہا چنانچہ وہ شام کے ایک گاؤں میں چلے گئے جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ خلافت تک وہی مقیم رہے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں وہاں سے منتقل ہوکر دمشق میں سکونت
اختیار کرلی انہوں نے دیکھا کہ مسلمان عموما دنیا طلبی میں منہمک اورعیش و عشرت میں غرق اور آخرت سے غافل ہیں اس بدلی ہوئی صورت حال کو انہوں نے بڑی شدت سے محسوس کیا سختی سے اس کا نوٹس لیا اور بڑے تند و تیز لہجے میں اس پر اعتراضات کرنے لگے لوگ ان کے اس رویے سے تنگ آگئے بات عثمان رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچی انہوں نے جناب ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ کو مدینہ میں طلب کرلیا خلیفہ رضی اللہ عنہ کی طلبی پر وہ مدینہ پہنچ گئے لیکن وہاں بھی وہ اسی صورت حال کا سامنا کر رہے تھے جس سے دمشق میں ان کو سابقہ پیش آچکا تھا وہاں بھی لوگوں کو دنیا کی طرف مائل دیکھ کر بہت جلد رنجیدہ ہو گئے اور لوگ بھی ان کی سخت گیری اور تلخ و تند باتوں سے بیزار ہو گئے آخرکار جناب عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں "ربذہ” چلے جانے کا حکم دیا ربذہ مدینہ کی ایک آس پاس کی بستی تھی وہاں منتقل ہوگئے (۴) اور لوگوں سے دور دنیاوی ساز وسامان سے بے نیاز اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخین کے اس طریقے پر چلتے ہوئے زندگی بسر کرنے لگے جو انہوں نے دنیا پر ترجیح دیتے ہوئے اختیار کیا تھا
ایک مرتبہ ایک شخص ان کی خدمت میں حاضر ہوا وہ ان کے گھر میں چاروں طرف اپنی نظریں دوڑاتا رہا، جب اس کو وہاں کوئی سامان نظر نہیں آیا تو ان سے پوچھا
ابو ذر! آپ کا سامان کہاں ہے؟
جناب ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا:
وہاں آخرت میں ہمارا ایک گھر ہے ہم اپنے اچھے اور بیش قیمت سامان وہیں بھیج دیتے ہیں،
اس آدمی نے ان کی بات سمجھتے ہوئے کہا:
پھر بھی جب تک آپ اس دنیا میں رہیں زندگی گزارنے کے لیے کچھ سامان تو ضروری ہے
جناب ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا:
لیکن گھر کا مالک ہم کو یہاں نہیں چھوڑے گا،
ایک دفعہ شام کے گورنر نے اس ہدایت کے ساتھ ان کے پاس تین ہزار دینار
بھیجے کہ انہیں اپنی ضروریات پر خرچ کریں
لیکن انہیں یہ کہہ کر رقم واپس کر دی کہ کیا شام کے گورنر کو مجھ سے زیادہ ذلیل کوئی شخص نہیں ملاتھا۔
ہجرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیسویں سال گردش زمانہ کے ہاتھوں نے اس عابد و زاہد صحابی کی زندگی کا خاتمہ کر دیاجس سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا
ما اقلت الغبراء ولا اظلت الخضراء من رجل اصدق من ابی ذر
زمین کی پشت پر اور آسمان کے زیر سایہ کوئی شخص ابو ذر سے زیادہ سچا نہیں(۵)
____________________________
(۱)صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار حدیث ۳۸۶۱صحیح مسلم کتاب الفضائل باب الفضائل ابی ذر رضی اللہ تعالی عنہ سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مولفہ امام ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ ۱: ۴۸۲ ۳۸۶
(۲)صحیح مسلم کتاب الفضائل باب الفضائل ابی ذر رضی اللہ تعالی عنہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم مؤلفہ امام ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ (۱: ۲۸۶_ ۲۸۷)
نوٹ: کسی بھی قسم کی غلطی نظر آئے تو ہمیں ضرور اطلاع کریں۔
eSabaq.in@gmail.com
zakariyyaachalpuri9008@gmail.com
(۳)سرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم امام ابن کثیر ۱: ۲۸۶ ۲۸۷
_ ۴)صحیح بخاری کتاب الزکاۃ حدیث ۱۴۰۶
(۵) اس روایت کا حوالہ کافی تلاش کے بعد بھی نہیں ملا
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔