اکابرین دیوبند کیا تھے از رشحہ قلم..... ترجمان دیوبند فقیہ النفس،اشرف علی تھانوی کے بعد دنیائے اسلام کے سب سے بڑے قلم کار اور مصنف٬ مذہب اسلام کے عظیم اسکالر یعنی شیخ الاسلام حضرت اقدس حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی زبانی......
اکابر دیوبندکیا تھے؟ اس کا جواب مختصرلفظوں میں یوں بھی دیاجاسکتا ہے کہ وہ خیرالقرون کی یادگار تھے، سلف صالحین کا نمونہ تھے، اسلامی مزاج ومذاق کی جیتی جاگتی تصویر تھے، لیکن ان مختصر جملوں کی تشریح وتفصیل کرنے بیٹھیں تواس کے لیے دفتر کے دفتر بھی ناکافی ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی خصوصیات کو لفظوں میں سمیٹنا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہے۔ اس لیے کہ ان کی خصوصیات کا تعلق درحقیقت اس مزاج ومذاق سے ہے جو صحابہٴ کرام (رضوان اللہ علیہم) کی سیرتوں اور اُن کے طرزِ زندگی سے مستنیر تھا اور مزاج ومذاق وہ چیز ہے جسے محسوس تو کیا جاسکتا ہے لیکن الفاظ کے ذریعے ٹھیک ٹھیک بیان نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح گلاب کی خوشبو کو سونگھا تو جاسکتا ہے لیکن اس کی پوری کیفیت کو الفاظ میں ڈھالنا ممکن نہیں۔ اسی طرح اُن حضرات کے مزاج ومذاق کو ان کی صحبتوں اور ان کے واقعات سے سمجھاجاسکتا ہے مگر اس کی منطقی تعبیر ناممکن ہے۔
لہٰذا اس مضمون میں اکابر دیوبند کی خصوصیات وامتیازات کو نظری طور سے بیان کرنے کے بجائے اُن کے چند متفرق واقعات سنانے مقصود ہیں جن سے ان کی خصوصیات زیادہ واضح اور آسان طریقے سے سمجھ میں آسکیں گی ... وباللّٰہ التوفیق!
علم وفضل اور اُس کے ساتھ تواضع وللہیت
اگر صرف وسعت مطالعہ، قوتِ استعداد اور کثرتِ معلومات کا نام علم ہوتو یہ صفت آج بھی ایسی کمیاب نہیں لیکن اکابر دیوبند کی خصوصیت یہ ہے کہ علم وفضل کے سمندر سینے میں جذب کرلینے کے باوجود اُن کی تواضع،فنائیت اور للہیت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ یہ محاورہ زبان زدِ عام ہے کہ ”پھلوں سے لدی ہوئی شاخ ہمیشہ جھکتی ہے“ لیکن ہمارے زمانے میں اس محاورے کا عملی مظاہرہ جتنا اکابر دیوبند کی زندگی میں نظر آتا ہے اور کہیں نہیں ملتا۔ چند واقعات ملاحظہ فرمائیے:
۱- بانیٴ دارالعلوم دیوبند حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ کے علوم بحر ناپیداکنار تھے۔ اُن کی تصانیف آبِ حیات، تقریر دلپذیر، قاسم العلوم اور مباحثہ شاہجہاں پور وغیرہ سے اُن کے مقامِ بلند کا کچھ اندازہ ہوتاہے اور ان میں سے بعض تصانیف تو ایسی ہیں کہ اچھے اچھے علماء کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ حد یہ ہے کہ ان کے ہم عصر بزرگ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی رحمة الله عليه کا یہ جملہ دارالعلوم میں معروف تھا کہ ”میں نے آبِ حیات کا چھ مرتبہ مطالعہ کیا ہے، اب وہ کچھ کچھ سمجھ میں آئی ہے۔“
اور حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ:
”اب بھی مولانا (نانوتوی رحمة الله عليه) کی تحریریں میری سمجھ میں نہیں آتیں اور زیادہ غور وخوض کی مشقت مجھ سے برداشت ہوتی نہیں، اس لیے مستفید ہونے سے محروم رہتا ہوں اور اپنے دل کو یوں سمجھالیتاہوں کہ ضروریات کا علم حاصل کرنے کے لیے اور سہل سہل کتابیں موجود ہیں پھر کیوں مشقت اٹھائی جائے“۔(۱)
ایسے وسیع وعمیق علم کے بعد، بالخصوص جب کہ اس پر عقلیات کا غلبہ ہو، عموماً علم وفضل کا زبردست پندار پیدا ہوجایا کرتا ہے لیکن حضرت نانوتوی رحمة الله عليه کا حال یہ تھا کہ خود فرماتے ہیں:
”جس طرح صوفیوں میں بدنام ہوں اسی طرح مولویت کا دھبہ بھی مجھ پر لگا ہوا ہے، اس لیے پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے، اگر یہ مولویت کی قید نہ ہوتی تو قاسم کی خاک کا بھی پتہ نہ چلتا۔“(۲)
چنانچہ اُن کی بے نفسی کا عالم یہ تھا کہ بقول مولانا احمد حسن صاحب امروہوی رحمة اللہ علیہ:
”حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمة الله عليه جس طالب علم کے اندر تکبردیکھتے تھے اُس سے کبھی کبھی جوتے اُٹھوایا کرتے تھے اور جس کے اندر تواضع دیکھتے تھے اُس کے جوتے خود اُٹھالیا کرتے تھے“۔(۳)
۲- یہی حال حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمة اللہ علیہ کا تھا۔ انھیں اُنکے تفقّہ کے مقامِ بلند کی بناء پر حضرت مولانا نانوتوی رحمة الله عليه نے ”ابوحنیفہٴ عصر“ کا لقب دیا تھا اور وہ اپنے عہد میں اسی لقب سے معروف تھے۔ حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمة الله عليه جیسے بلند پایہ محقق جو علامہ شامی رحمة الله عليه کو ”فقیہ النفس“ کا مرتبہ دینے کے لیے تیار نہ تھے، حضرت گنگوہی رحمة الله عليه کو ”فقیہ النفس“ فرمایا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله عليه واقعہ سناتے ہیں کہ:
”حضرت مولانا گنگوہی رحمة اللہ علیہ ایک مرتبہ حدیث کا سبق پڑھارہے تھے کہ بارش آگئی۔ سب طلبہ کتابیں لے لے کر اندر کو بھاگے مگر مولانا رحمة الله عليه سب طلباء کی جوتیاں جمع کررہے تھے کہ اُٹھاکر لے چلیں۔ لوگوں نے یہ حالت دیکھی تو کٹ گئے“(۴)
۳- شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب قدس سرہ کے علم وفضل کا کیا ٹھکانا؟ لیکن حضرت تھانوی رحمة الله عليه راوی ہیں کہ ”ایک مرتبہ مراد آباد تشریف لے گئے تو وہا ں کے لوگوں نے وعظ کہنے کے لیے اصرار کیا۔ مولانا رحمة الله عليه نے عذر فرمایا کہ مجھے عادت نہیں ہے مگر لوگ نہ مانے تو اصرار پر وعظ کے لیے کھڑے ہوگئے اور حدیث ”فقیہ واحد أشدّ علی الشیطٰن من ألف عابد“ پڑھی اور اس کا ترجمہ یہ کیا کہ:
”ایک عالم شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے۔“
مجمع میں ایک مشہور عالم موجود تھے۔ انھوں نے کھڑے ہوکر کہا کہ: ”یہ ترجمہ غلط ہے اور جس کو ترجمہ بھی صحیح کرنا نہ آوے اس کو وعظ کہنا جائزنہیں۔“
حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کا جوابی ردِّ عمل معلوم کرنے سے پہلے ہمیں چاہیے کہ ذرا دیر گریبان میں منہ ڈال کر سوچیں کہ اگر اُن کی جگہ ہم ہوتے تو کیا کرتے؟ ترجمہ صحیح تھا اور اُن صاحب کااندازِ بیان توہین آمیز ہی نہیں، اشتعال انگیز بھی تھا۔ لیکن اس شیخ وقت کا طرزِ عمل سنیے، حضرت تھانوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ یہ سن کر:
”مولانا فوراً بیٹھ گئے اور فرمایاکہ میں تو پہلے ہی کہتاتھا کہ مجھے وعظ کی لیاقت نہیں ہے مگر ان لوگوں نے نہیں مانا۔ خیر اب میرے پاس عذر کی دلیل بھی ہوگئی، یعنی آپ کی شہادت۔“
چنانچہ وعظ تو پہلے ہی مرحلے پر ختم فرمادیا، اس کے بعد اُن عالم صاحب سے بطرزِ استفادہ پوچھا کہ ”غلطی کیا ہے؟ تاکہ آئندہ بچوں“ انھوں نے فرمایا کہ أشدّ کاترجمہ أثقل (زیادہ بھاری) نہیں بلکہ أضرّ (زیادہ نقصان دہ) کا آتا ہے۔“ مولانا رحمة الله عليه نے برجستہ فرمایا کہ ”حدیث وحی میں ہے یاتینی مثل صلصلة الجرس وہو أشدّ علیّ“ (کبھی مجھ پر وحی گھنٹیوں کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر سب سے زیادہ بھاری ہوتی ہے) کیا یہاں بھی أضرّ (زیادہ نقصان دہ) کے معنی ہیں؟ اس پر وہ صاحب دم بخود رہ گئے۔(۵)
۴- حکیم الامّت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله عليه جب کانپور میں مدرس تھے، انھوں نے مدرسہ کے جلسہ کے موقع پر اپنے استاذ حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کو بھی مدعو کیا، کانپور میں بعض اہل علم معقولات کی مہارت میں معروف تھے اور کچھ بدعات کی طرف بھی مائل تھے۔ادھر علمائے دیوبند کی زیادہ توجہ چونکہ خالص دینی علوم کی طرف رہتی تھی، اس لیے یہ حضرات یوں سمجھتے تھے کہ علمائے دیوبند کو معقولات میں کوئی درک نہیں ہے۔ حضرت تھانوی رحمة الله عليه اُس وقت نوجوان تھے اور اُن کے دل میں حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کو مدعو کرنے کا ایک داعیہ یہ بھی تھا کہ یہاں حضرت رحمة الله عليه کی تقریر ہوگی تو کانپور کے ان علماء کو پتہ چلے گا کہ علمائے دیوبند کا علمی مقام کیا ہے؟ اور وہ منقولات و معقولات دونوں میں کیسی کامل دستگاہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ جلسہ منعقد ہوا اور حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کی تقریر شروع ہوئی، حسن اتفاق سے تقریر کے دوران کوئی معقولی مسئلہ زیر بحث آگیا۔ اس وقت تک وہ علماء جن کو حضرت تھانوی رحمة الله عليه شیخ الہند رحمة الله عليه کی تقریر سنانا چاہتے تھے، جلسہ میں نہیںآ ئے تھے۔ جب حضرت رحمة الله عليه کی تقریر شباب پر پہنچی اور اُس معقولی مسئلہ کا انتہائی فاضلانہ بیان ہونے لگا تو وہ علماء تشریف لے آئے جن کا حضرت تھانوی رحمة الله عليه کو انتظار تھا۔ حضرت تھانوی رحمة الله عليه اس موقع پر بہت مسرور ہوئے کہ اب ان حضرات کو شیخ الہند رحمة الله عليه کے علمی مقام کا اندازہ ہوگا۔ لیکن ہوا یہ کہ جونہی حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه نے اُن علماء کو دیکھا۔ تقریر کو مختصر کرکے فوراً ختم کردیا اور بیٹھ گئے۔ حضرت مولانا فخرالحسن صاحب گنگوہی رحمة الله عليه موجود تھے، انھوں نے یہ دیکھا تو تعجب سے پوچھا کہ:
”حضرت! اب تو تقریر کا اصل وقت آیا تھا، آپ بیٹھ کیوں گئے؟“
شیخ الہند رحمة الله عليه نے جواب دیا: ”ہاں! دراصل یہی خیال مجھے بھی آگیا تھا۔“
حضرت علی رضى الله تعالى کا واقعہ مشہور ہے کہ کسی یہودی نے ان کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی گستاخی کردی تھی تو وہ اس پر چڑھ دوڑے اور اُسے زمین پر گراکر اس کے سینے پر سوار ہوگئے۔ یہودی نے جو اپنے آپ کو بے بس پایا تو کھسیانا ہوکر اُس نے حضرت علی رضى الله تعا لى عنه کے روئے مبارک پر تھوک دیا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ حضرت علی رضى الله تعا لى عنه اُس کو چھوڑ کر فوراً الگ ہوگئے اور پوچھنے پر بتایا کہ میں پہلے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی محبت کی بناء پر اس یہودی سے اُلجھاتھا۔ اگر تھوکنے کے بعد کوئی اور کارروائی کرتا تو یہ اپنے نفس کی مدافعت ہوتی۔
حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه نے اپنے اس عمل سے حضرت علی رضى الله تعا لى عنه کی یہ سنت تازہ فرمادی۔ مطلب یہی تھا کہ اب تک تو تقریر نیک نیتی سے خالص اللہ کے لیے ہورہی تھی لیکن یہ خیال آنے کے بعد اپنا علم جتانے کے لیے ہوتی، اس لیے اسے روک دیا۔(۶)
۵- مدرسہ معینیہ اجمیر کے معروف عالم حضرت مولانا محمدمعین الدین صاحب معقولات کے مسلّم عالم تھے۔ انھوں نے شیخ الہند حضرت مولانامحمود حسن صاحب قدس سرہ کی شہرت سن رکھی تھی، ملاقات کا اشتیاق پیدا ہوا تو ایک مرتبہ دیوبند تشریف لائے اور حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کے مکان پر پہنچ گئے۔ گرمی کا موسم تھا۔ وہاں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو صرف بنیان اور تہبند پہنے ہوئے تھے۔ مولانا معین الدین صاحب رحمة الله عليه نے اُن سے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ ”مجھے حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمة الله عليه سے ملنا ہے“ وہ صاحب بڑے تپاک سے مولانا اجمیری رحمة الله عليه کو اندر لے گئے، آرام سے بٹھایا اور کہاکہ ”ابھی ملاقات ہوجاتی ہے“ مولانا اجمیری رحمة الله عليه منتظر رہے، اتنے میں وہ شربت لے آئے اور مولانا کو پلایا۔ اس کے بعد مولانا اجمیری نے کہا کہ ”حضرت مولانا محمود حسن صاحب کو اطلاع دیجیے“ اُن صاحب نے فرمایا ”آپ بے فکر رہیں اورآرام سے تشریف رکھیں“ تھوڑی دیر بعد وہ صاحب کھانا لے آئے اور کھانے پر اصرار کیا، مولانا اجمیری رحمة الله عليه نے کہا کہ ”میں مولانا محمود حسن صاحب سے ملنے آیا ہوں، آپ اُنھیں اطلاع کردیجیے“۔ ان صاحب نے فرمایا ”اُنھیں اطلاع ہوگئی ہے آپ کھانا تناول فرمائیں ابھی ملاقات ہوجاتی ہے“ مولانا اجمیری رحمة الله عليه نے کھانا کھالیا تو اُن صاحب نے اُنھیں پنکھا جھلناشروع کردیا۔ جب دیر گزرگئی تو مولانا اجمیری رحمة الله عليه برہم ہوگئے اور فرمایا کہ آپ میراوقت ضائع کررہے ہیں، میں مولانا سے ملنے آیاتھا اوراتنی دیر ہوچکی ہے، ابھی تک آپ نے اُن سے ملاقات نہیں کرائی۔ اس پر وہ صاحب بولے کہ:
”دراصل بات یہ ہے کہ یہاں مولانا تو کوئی نہیں۔ البتہ محمود خاکسار ہی کا نام ہے۔“
مولانا معین الدین صاحب یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے اور پتہ چل گیا کہ حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کیا چیز ہیں؟“(۷)
۶- امام العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ صاحب کشمیری رحمة اللہ علیہ علم وفضل میں یکتائے روزگار تھے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله عليه نے اپنی ایک مجلس میں نقل کیا کہ ایک عیسائی فیلسوف نے لکھا ہے کہ ”اسلام کی حقانیت کی ایک دلیل یہ ہے کہ غزالی رحمة الله عليه جیسا محقق اور مدقق اسلام کو حق سمجھتا ہے۔“ یہ واقعہ بیان کرکے حکیم الامت رحمة الله عليه نے فرمایا: ”میں کہتا ہوں کہ میرے زمانہ میں مولانا انور شاہ صاحب کا وجود مذہب اسلام کے حق ہونے کی دلیل ہے
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔