مولانا علی میاں ندوی اور پیام انسانیت

مولانا علی میاں ندوی رح اور تحریک پیام انسانیت

????: ـــــ  *محمد قمرالزماں ندوی*     (مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ)

ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ

     فروغ اسلام اور اشاعت دین میں سب سے زیادہ موثر ذریعہ اور کارگر جو چیز ثابت ہوئی ہے وہ ہے کار انسانیت اور سماجی خدمت، جس میں خدمت خلق کی تمام شکلیں اور صورتیں شامل اور داخل ہیں - اس سے دعوت کی راہیں ہموار ہوتی ہیں ـ غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں ـ ماحول خوشگوار ہوتا ہے اور حق اور راستی کا پیغام سمجھنے کے لیے موقع فراہم ہوتا ہے - آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصف رحمت و انسانیت ہی کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ فقط تئیس برس کے عرصے میں اسلام کی جڑیں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک تمام عالم کے طول و عرض میں پھیل گئیں - دنیا کی تاریخ میں کوئ ایسی مثال نہی ملتی کے آباء و اجداد کے طور طریقوں اور رسم و رواج اور عادات و اطوار کے خلاف کسی روش کو برداشت کیا گیا ہو اور اتنی تیزی سے قبول کیا گیا ہو - ایسا نہیں ہوا کہ نامانوس اور اجنبی صدائیں بہ رغبت سن لی گئ ہوں - یقینا اس کے پیچھے الہی اور ربانی نصرت کے ساتھ ساتھ اعلی اخلاق و انسانیت کا مظاہرہ ، تحمل و برداشت ،صبر استقامت،عزم و استقلال،بلند حوصلگی، انسانیت کے لئے درد و تڑپ اور بے مثال عفو و درگزر پوشیدہ اور پنہاں تھا جس نے انصاف پسند مؤرخین اور مصنفین کو بھی یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ *اسلام تلوار سے نہیں؛ بلکہ اعلی اخلاق و کردار، محبت و پیار اور انسانیت سے پھیلا اور فروغ پایا*ـ       مولانا علی میاں ندوی رح کو اپنی عملی اور دعوتی زندگی میں اس بات کا شدید احساس ہوا کہ مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو صرف نماز، روزہ، حج، زکوة صدقہ، قربانی اور نکاح و شادی میں ڈھونڈتے اور تلاش کرتے ہیں - ان کا ذہن کبھی اس طرف نہیں جاتا کہ لکم دینکم ولي دین. صلح حدیبیہ، حلف الفضول ،میثاق مدینہ ،بنو نجران ،بنو غادیان ،اہل مقنا ،اہل ازدم وغیرہ کے عیسائی اور یہودی قبائل کے ساتھ امن و معاہدات بھی ہوئے تھے اور یہ بھی طریقۂ نبوی اور عین سنت رسول ہیں ـ        اسی احساس کی بنا پر اور ہندوستان کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رح نے تحریک پیام انسانیت کی داغ بیل ڈالی تھی اور ان ہی کے ایما اور مشورہ پر تحریک پیام انسانیت کے پلیٹ فارم سے غیر مسلم دانشوروں سے ڈائیلاگ ہوئے ـ  یہ محض ایک رسم نہیں؛ بلکہ اسی سنت رسول اور طریقۂ نبوی کی ادائیگی کا ایک حسین اعادہ تھا - پروفیسر انیس چشتی صاحب حضرت مولانا علی میاں ندوی رح کی انسانوں کے تئیں فکر مندی اور ہر ایک کے ایمان و ہدایت کی فکر اور دنیا میں ہر ایک تک ہدایت کا پیغام پہنچانے کی ذمہ داری کے حوالے سے لکھتے ہیں :    *"ایک مرتبہ فلسطینی طلبہ اور اساتذہ کا ایک وفد مولانا (علی میاں ندوی) رح سے ملنے آیاـ ان کے بیان نے ہمیں آبدیدہ کردیا - مولانا ساکت و صامت (خاموش) بیٹھے رہے - سب یہ سمجھے کہ مولانا ابھی جہاد کی فضیلت پر تقریر شروع کریں گے؛ لیکن مولانا کی نظر میں ہر فرد،ملت کے مقدر کا ستارہ ہوا کرتا تھا - انھوں نے اس چھوٹی سی مجلس کو عالمی ہی نہیں کائناتی بنا دیا - وہ ہمیں دور رسالت میں لے گئے اور پوچھا کہ کیا نبی کریم کے ہاتھ پر یہودی ایمان نہیں لائے تھے ؟ کیا آپ نے ان تک دعوت اسلام نہیں پہنچائی تھی؟کیا آپ نے انھیں انسانیت کا درس نہیں دیا تھا ؟ کیا ہم اسرائیلیوں کے درمیان یہ فریضہ(یعنی فریضۂ دعوت و تبلیغ) انجام دے چکے ہیں ؟ اس وقت مولانا رح نے تاریخ کے صفحات سے ایسے متعدد صحابہ کا ذکر کیا جو یہودی مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئے تھے - اس وقت مولانا رح نے ایک بڑی معرکة  الآراء بات کہی، وہ یہ تھی کہ اتمام حجت کے بغیر خدا کی نصرت کی امید نہیں رکھنی چاہئیے .. اس دعوے کی دلیل کے لیے مولانا نے متعدد تاریخی حوالے بھی پیش کیے اور یہ ثابت کردیا کہ سخت ترین حالات میں بھی تحریک پیام انسانیت سوئے ہوئے انسانوں کو جگانے کا موثر ترین اور محفوظ ترین اسلوب ہے۔ تحریک انتفاضہ کے قائدین نے پہلی مرتبہ تحریک انسانیت کا درس لیا تھا ـ ان کی آنکھیں بھیگ گئیں اور شاید ان کی نظر میں یہودی بھیڑیے ایک ایسی مخلوق میں تبدیل ہوگئے جو اب تک دعوت کی گرمی اور انسانیت نوازی کی سرگرمی سے محروم تھے"ـ*  (مفکر اسلام رح اپنے افکار کے آئینے میں صفحہ:397)     یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ حضرت مولانا رح کی زندگی میں خود داری اور مفاہمت کا حسین امتزاج تھا - وہ مفاہمت کے نام پر ملت،دین، ایمان اور عزت نفس کا کوئی سمجھوتہ کے قائل بالکل نہ تھے،اور یہی خصوصیت ان کے تربیت یافتگان کی خاص پہچان ہے - مفاہمت کے اسی امتزاج نے تحریک پیام انسانیت کو وحدت ادیان اور ایشور کو پانے کے انیک راستوں میں سے ایک راستہ اسلام بھی ہے ،جیسی فکر کو پنپنے کا موقع نہیں دیا - بہر حال مولانا رح نے اپنے ہم وطن غیر مسلموں کا حق سمجھا کہ ان کو یکسر نظر انداز کرنا مناسب نہیں ہے ،چناں چہ جہاں آپ نے ایک طرف جماعت اسلامی کی دعوتی کاموں اور کاوشوں کی تائید و حمایت کی اور تبلیغی جماعت کی حرکت و محنت میں شامل رہے، وہیں اس کے ساتھ مزید ایک کام کا آغاز کیا کہ ایسے اجتماعات منعقد کیے جائیں جن میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی شریک ہوں؛ لیکن چونکہ یہ کام بہت نازک تھا اس کے لیے بڑے سلیقہ،احتیاط ،اظہار خیال پر قدرت اور مخاطبین کی نفسیات سمجھنے کی ضرورت تھی ـ ذرا سی بے احتیاطی سے یہ دعوت  وحدت ادیان کے لیے راستہ ہموار کرسکتی ہے،  اس لیے یہ نازک کام زیادہ تر مولانا بذات خود انجام دیتے تھے ـ حضرت مولانا رح فرمایا کرتے تھے کہ *" یہ کام تھوڑی دیر کا نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک جہد مسلسل کا نام ہے ـ کوئ کام شدید جد و جہد، خطرات اور قربانیوں کے بغیر نہیں ہوسکتاـ قوم کی صحیح تعمیر اور انسانیت کا احترام اور باہمی اعتماد و محبت پیدا کرنے کے لیے ہم کو مجنونانہ اور سر فروشانہ جدوجہد کی ضرورت ہے " ـ*       مولانا علی میاں ندوی رح ایک جامع، جہاں دیدہ اور ہمہ جہت شخصیت تھے ـ  انھوں نے مختلف محاذوں پر اسلام کی خدمت کی ـ  نازک اور مشکل موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی؛ مگر اسلامی دنیا کے عالمی مسائل میں الجھ کر اپنے وطن عزیز اور اس دیش کے رہنے والوں کو کبھی فراموش نہیں کیا ـ    مولانا کو اپنے طویل تجربات اور مختلف مخلوط اجتماعات کو  خطاب کرنے کا موقع ملا ـ  ان مخلوط اجتماعات کے تجربے سے مولانا رح کو محسوس ہوا کہ مسلمانوں سے دوری اور بے تعلقی کی وجہ سے غیر مسلم ہم وطنوں میں ان کے تئیں بہت سی غلط فہمیاں اور شکوک و شبہات ہیں ۔ مولانا رح لکھتے ہیں :     *"اسی تجربے اور اقدام نے 1976ء میں پیام انسانیت کی تحریک کی شکل اختیار کرلی ،جس کا تجربہ پچھلے تجربوں کی طرح کامیاب رہا ۔ اور اس نے اکثریت کے طبقے،  انصاف پسند غیر مسلموں اور دانشوروں میں اسلام اور سیرت اسلام کے مطالعہ کا کسی درجہ میں شوق اور جذبہ بھی پیدا کیا۔ ہندوستان انسانی بحران ،اخلاقی انتشار، انسانی جان و مال کے عدم تحفظ، خود غرضی اور دولت پرستی کے جنون کی وجہ سے جس خطرہ سے دوچار ہے اس کا مہیب نقشہ پیش کرنے اور ملک کو بچانے کی جدوجہد کی دعوت دینے پر بعض ممتاز رہنماؤں نے یہاں تک کہا کہ آج معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اس ملک کے بچانے کی فکر ہم سے زیادہ ہے" ۔* (کاروان زندگی: 400/1)      تصنیف و تالیف کے کاموں میں انہماک اور تبلیغی جماعت کے مقاصد کے شارح اور مبلغ کی حیثیت سے ترجمانی اور پھر ندوة العلما کے انتظام و انصرام کی غیر معمولی ذمے داری ...ان جیسی بے پناہ مصروفیات کے باوجود مولانا مرحوم کو تحریک پیام انسانیت برپا کرنے کا خیال کیسے آیا۔ ؟ مولانا رح فرماتے ہیں :    *" روزہ مرہ کا مشاہدہ تھا کہ یہ ملک تیزی سے اخلاقی انارکی ،بلکہ قومی و اجتماعی خود کشی کی طرف جارہا ہے ۔ اخلاقی قدریں بے درری کے ساتھ پامال کی جارہی ہیں ـ  خود غرضی؛ بلکہ خود پرستی کا جنون سب پر سوار ہے ـ انسان کی جان و مال، عزت و آبرو کا احترام تیزی کے ساتھ رخصت ہورہا ہے ۔ حقیر شخصی فوائد کے لئے اجتماعی و ملکی مفاد کو آسانی سے قربان کر دیا جاتا ہے ـ کام چوری ،احساس ذمہ داری کا فقدان ،رشوت خوری، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی ،بد عنوانی ،یہ سب اسی درخت کے پھل ہیں اور انھوں نے پوری زندگی کو عذاب بنا دیا ہے ۔ بہت انتظار کے بعد اپنی بے سروسامانی، تنہائی و بے اثری کا پورا علم و احساس ہونے کے باوجود ہم نے میدان میں آنے اور بلا تفریق مذھب و ملت ،اس ملک کے رہنے والوں کے دلوں پر دستک دینے کا فیصلہ کیا کہ جب کسی محلہ و گاؤں میں آگ لگتی ہے، تو کوئی اپنی کمزوری اور بے نوائی کو نہیں دیکھتاـ  گونگے بھی چلا اٹھتے اور اپاہج بھی دوڑ پڑتے ہیں "ـ*   زمانے کی نزاکت اور خرابیاں آپ کے سامنے تھیں ـ  معاشرے کی گرتی ہوئی قدریں ہر صاحب فکر و نظر کو بے قرار کیے ہوئے تھیں ـ انسانیت دم توڑ رہی تھی ـ وفاؤں کا خون ہو رہا تھا ـ  جفائیں عروج پر اور برسرپیکار ،ظلم و ستم، عصیان و تمرد کی گرم بازاری تھی ـ مظلموں کی آہیں تھیں ـ تخت و تاج اور نخوت و غرور کے شیدائیوں کے دہلیز تک نہ پہنچی تھی، لہذا ضرورت تھی کہ  ایک مرد آہن سامنے آئے اور اس کا مداوا کرے ـ  عملی اقدام کے ذریعے آنے والوں کے لیے ایسی کہر آلود فضا میں حوصلہ کا کام دے جائے ـ  اللہ تعالی نے اس نازک اور ذمے داری والے کام کے لیے آپ کو توفیق ارزانی دی اور آپ نے سماج کی ڈوبتی ہوئی نبض کو زندگی کی حرارت عطا کرنے کے لیے جدوجہد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا :    *"نہ صرف ہندوستان؛ بلکہ اس موجودہ دور اور عالم انسانی کی ایک اہم ضرورت ہے کہ اغراض و تعصبات، قوم پرستی اور اور سیاسی مقاصد سے بالکل آزاد اور بے تعلق ہوکر عام انسانوں کے سامنے وہ حقیقتیں رکھی جائیں جن پر انسانیت کی نجات اور سلامتی موقوف ہے،اور جن کو نظر انداز کرکے ہمارا یہ پورا تمدن اور پوری انسانی سوسائٹی اس وقت سخت خطرہ سے دوچار ہے اور موت و زیست کی کشمکش میں گرفتار ہے"* ۔ 7/6جون 1998ء کو پونے کے ایک جلسے میں آپ نے خطاب فرمایا تھا ـ  حضرت مولانا رح نے اس مجمع کو خطاب کرتے ہوئے ملک کی گرتی ہوئی ساکھ اور معاشرہ کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر اپنے سوز دروں کو ان الفاظ میں پیش فرمایا :    *" میرے بھائیو! ایک باپ کو جتنا غم اپنے بیٹے کی بیماری پر ہوتا ہے ،سچ تو یہ ہے کہ اپنے پڑوسی کے بیمار ہونے پر اتنا ہی غم اپنے گاؤں میں بسنے والے کسی بیمار فرد پر،اتنا ہی غم اپنے ملک کے کسی بھائی کے بیمار پڑ جانے پر ہونا چاہیے ـ  یاد رکھیے ! تاریخ اس بات پر گواہ ہے ــــ  بلکہ میں بھی تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے کہتا ہوں ــــ کہ جب بھی یہ حسین جذبہ کسی حساس دل کے اندر پیدا ہوا اس نے ساری سوسائٹی کو بدل ڈالاـ ماحول اور معاشرے میں اصلاح کا زبردست کام کیاـ اپنا بھی نام روشن کیاـ  گھر اور خاندان کا نام روشن کیاـ اپنے ملک کا نام روشن کیا ۔ لیکن یاد رکھیے!  یہ کام انھی خوش قسمت افراد کے ہاتھوں انجام پایا جن کا دماغ عصبیت سے خالی ہوتا ہے ـ جو انسانیت کی بقا و تحفظ کی خاطر جان عزیز کی بازی لگا دیتے ہیں؛ لیکن انسانیت پر آنچ آنے نہیں دیتے ہیں ۔ لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ آج معاملہ خلاف فطرت ہے ـ  انسان ،انسان سے وحشت کھائے، انسان انسان سے ڈرے  یہ بڑے تعجب کی بات ہے ۔ انسان شیروں سے ڈرے ،انسان پھاڑ کر کھا جانے والے درندوں سے ڈرے؛ لیکن انسان انسان سے ڈرے ؟ یہ بڑے تعجب اور خسارے؛ بلکہ انسانی بقا و تحفظ کے خلاف بات ہے" ـ*      مولانا رح کا یہ مشن، پیام انسانیت کی ایک تحریک بن گئی؛ مگر اس تحریک کو تنظیم کی شکل نہیں دی گئی - اور الحمد للہ مولانا  کے جانشین ،خلف اور اس میدان کے تربیت یافتہ حضرات اس کام کو بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں اور اس کے مفید اور متوقع اثرات  نظر آرہے ہیں -     ہندوستان؛ بلکہ بلکہ دنیا کے موجودہ حالات و تناظر میں دیگر دینی اور دعوتی سرگرمیوں اور تبلیغی حرکت و محنت کے ساتھ ساتھ سخت؛  بلکہ اشد ضرورت ہے کہ اصحاب علم ونظر ماہرین دعوت و تبلیغ کا ایک منتخب اور انٹلیکچول طبقہ بڑی ذہانت اور تمام تر احتیاط کے ساتھ اس کام میں جڑ جائیں اور مولانا رح کے تربیت یافتہ حضرات کی نگرانی میں پیام انسانیت کا کام پوری دنیا میں پھیلا دیں - اس کام کو بغیر نگرانی کےکرنا بھی آسان نہیں ہے - اس لیے: *پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ* کے فلسفہ کو سامنے رکھنا پڑے گا -     الغرض مولانا علی میاں ندوی رح نے *تحریک پیام انسانیت* کی داغ بیل ڈال کر ایک نہایت اہم اور ضروری کام کا آغاز کیا تھا  ـ آج کے حالات میں پیام انسانیت کا کام دعوت ہی کا کام سمجھنا چاہیے؛  کیونکہ برداران وطن اور مخالفیں اسلام کےذہنوں سے اسلام اور مسلمانوں کے تئیں شکوک و شبہات کو دور کرنا بھی وقت کا اہم اور بنیادی تقاضا اور ضرورت ہے  ـ    مولانا مرحوم کی شروع کی ہوئی تحریک پیام انسانیت وقت  کی آواز تھی ـ  اس مشن کی آج اور زیادہ ضرورت ہے؛ کیوں کہ حالات پہلے سے زیادہ خراب اور نازک ہیں ۔ غیر مسلموں میں اسلام کا تعارف کا کام ابھی صفر ہے ـ  ہم گاؤں گاؤں جاکر انسانیت کے پیغام کو عام کریں ـ

   آئیے!  ہم سب اس کے لیے کمر کس لیں اور ہر طرح سے مولانا مرحوم کے اس مشن کو ــ جو اصل میں انبیائی  مشن ہے ــ پوری دنیا میں پھیلا دیں ۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔