*کیا ایندورائیڈ فون اور سوشیل میڈیا نے ہماری حقیقی زندگی کا مزہ چھین لیا ہے*
*از قلم✍???? عبدالرحیم اعظمی*
برسوں تک میرا بھی یہی ماننا تھا کہ انسان جب خالی ریے تو کیا کرے اس لئے موبائل اور سوشل سوشل میڈیا پر ہی وقت گزاری کرے لیکن جوں جوں وقت گذرتا گیا میرا یہ نظریہ بھی بدلتا گیا فارغ رہنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انسان ہمہ وقت موبائل میں ہی ڈوبا رہے میں نے اپنی زندگی کا وہ دور بھی گذارا ہے جب 24 میں سے 18 گھنٹے موبائل میں فیسبک انسٹاگرام اور ٹویٹر پر وقت گذاری کر کے خود کو بڑا تیس مار خاں سمجھتا تھا رات میں بستر پر جانے کے بعد جب تک دو گھنٹہ تین گھنٹہ موبائل نہ چلا لیتا یوں محسوس ہوتا کہ جیسے آج کچھ کیا ہی نہیں ہے اہل خانہ خصوصا والدہ محترمہ کی جانب سے ڈانٹ ڈنپٹ ہوتی تو مجھے بہت برا لگتا کہ کیا ہر دم لیچھے پڑے رہتے ہیں لیکن اب مجھے اپنی اس کمی کا احساس ہوا میں یعنی اٹھارہ گھنٹے موبائل پر وقت گذاری کرنے والا انسان اب چوبیس گھنٹوں میں سے بمشکل دو یا تین گھنٹے اپنے موبائل کو دیتا ہے وہ بھی وقت گزاری کیلئے نہیں بلکہ اشد ضرورت کی بناء پر پہلے میں نے ٹویٹر چلانا چھوڑا پھر فیسبک۔ ٹیلیگرام ۔ سنیپ چیٹ کرکٹ گیم فوٹو ایڈیٹرس اور اس طرح کے دیگر واہیات ایپس کو اپنے موبائل فون سے باہر کا راستہ دکھایا میں یہاں پر کچھ خاص باتیں فیسبک کے تئیں ضرور کرنا چاہونگا کیونکہ اچھے خاصے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ تو آج کے زمانے میں ایک لازمی شے ہے خصوصا اس انسان کیلئے جو اینڈورائیڈ فون کا استعمال کرتا ہو اگر آپ بھی ایسا مانتے ہیں تو یہ آپ کی بھول ہے فیسبک سوائے ضیاع وقت کے کچھ بھی نہیں آپ کی ایک پوسٹ لائیک کمنٹ سے آج تک نہ تو کچھ ہوا ہے نہ ہوگا کچھ کرجانے کی آرزو ہے تو عملی میدان میں آئیں اور زمینی حقائق سے وابستہ لوگوں کا ساتھ دین فیسبک پر پوسٹ اور لائیک کمینٹس کر کے میری طرح طرم خاں بننا چھوڑ دیں اور فیسبک پر مولانا پیر فقیر زوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم کا بیان ضرور سنیں جو میرے پاس موجود ہے اپنے موبائل میں گیم وغیرہ بالکل نہ رکھیں اور خصوصا اپنے چھوٹے بچوں کیلئے تو اسے بالکل ناسور ہی سمجھیں ان کو ہر طرح کا لاڈ پیار دیں لیکن خدارا اس لعنت سے بچا کر رکھیں اپنا قیمتی وقت اپنے اہل خانہ خصوصا اپنے مشفق ماں باپ کی خدمت میں بیٹھنے میں لگائیں یہ وہ نعمتیں ہیں جن کی قدر تب محسوس ہوتی ہے جب یہ آپ سے چھن جاتی ہیں اگر اپ کے ماں ??اپ باحیات ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ ان کے آس پاس ہیں تو ان کے پاس بیٹھیں اور اس درمیان موبائل کو خود سے دور رکھیں ان سے اپنے دل کی کہیں اور ان کے دل کی سنیں دانستہ طور پر ان کی زباں سے اپنی تعریف کروائین ان کے ساتھ ایسا حسن سلوک کریں کہ لمحہ لمحہ لحظہ لحظہ ان کے دل سے آپ کہلئے دعائیں ہی نکلتی رہیں اگر ماں باپ کو آپ سے کچھ تکلیف ہے تو اس کو سنیں اور اسے دور کرنے کی کوشش کریں اگر آپ کو میری تحریر پڑھنے کے بعد یہ لگ رہا ہو کہ فیسبک کی دنیا کو چھوڑنا یا خصوصا موبائل کی لت سے دور ہٹ کر ماں باپ اور اہل خانہ کو وقت دینا ایک بار گراں ہے تو آپ سے بڑا بدنصیب کوئی بھی نہیں ہے اور آپ غلط فہمی کا شکار ہیں میں بھی مدتوں تک یہی سوچتا تھا کہ ان سب عادتوں سے نجات پانا تقریبا محال ہے لیکن میں دعائیں کرتا رہتا تھا جن دعائوں کی بناء پر اور خصوصا ماں باپ کی دعائوں کے صدقہ طفیل اللہ رب العزت نے مجھے ہمت اور حوصلہ دیا اور مین تقریبا تقریبا اس غلط فہمی سے باہر آگیا اب میں راستے میں ہوں بس میں ہوں ٹرین میں ہوں بلا ضرورت میں موبائل استعمال نہیں کرتا جب سونے کیلیے اپنے بستر پر جاتا ہوں تو مجھے اپنے موبائل کی تلاش یا اس کی فکر بالکل بھی نہیں رہتی واٹسپ پر بلا فضوول کی چیٹنگ کرنا چھوڑ دیا بس مجھے آنے والے میسیجیز میرے کام سے جرے رہتے ہیں اور انہیں کا جواب بھی دیتا ہوں آپ بھی عمل کرئے اور اس کا لطف دیکھئے مجھے مضامین اور مراسلے لکھنے کا نہ تو شوق ہے نہ ہی سلیقہ لیکن اگر یہ میری ٹوٹی پھوٹی کاوش سے کسی کو فائدہ ہو جائے تو یہ میری سعادت ہوگی یہی سوچ کر لکھ دیا بس یہی دعا ہے کہ خدا مجھے اس عمل پر ثبات عطا فرمائے اور آپ میں سے جو حضرات بھی اس لت کا شکار ہیں ان کو اس سے نجات عطا فرمائے آمین
*تحریر عبدالرحیم اعظمی*
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔