*عورتوں کی نماز مسجد میں أفضل ہے یا گھر میں؟*
عبدالواحد مظفرنگری
اسلامی شریعت میں عورتوں کے ذمہ عیدین کی اور اسی طرح جمعہ کی نماز شرعاً واجب نہیں ہے، اسی طرح فقہاء حنفیہؒ نے عورتوں کو جمعہ، عیدین اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں آنے اور گھر سے نکلنے کو مکروہ تحریمی کہاہے، فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے کہ : و الفتویٰ الیوم علی الکراہۃ فی کل الصلوۃ لظھور الفساد کذا فی الکافی (۱؍۹۳) یعنی اس زمانہ میں فتویٰ اس پر ہے کہ عورتوں کا تمام نمازوں میں جانا مکروہ ہے کیونکہ ظہور فساد کا زمانہ ہے۔ حضرت مفتی کفایت اللہ صاحبؒ جو مفتی اعظم ہند تھے تحریر فرماتے ہیں کہ ان تمام عبارتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عورتوں کو نماز پنجگانہ، عیدین اور جمعہ کی جماعتوں میں جانا مکروہ تحریمی ہے اور گھروں سے ان کے نکلنے میں ہی فتنہ ہے اور یہ ممانعت حضرت عمرؓ، حضرت عائشہؓ، عروہ بن زبیرؓ، قاسمؒ، یحیٰ بن سعید الانصاریؒ، امام مالکؒ، امام ابو یوسف وغیرہم سے منقول ہے اور ائمہ حنفیہ کا بالاتفاق یہی مذہب ہے جیسا کہ عینی اور بدائع الصنائع کی عبارتوں سے واضح ہے۔ (کفایت المفتی: ۵؍۳۹۴) اہل سنت و الجماعت کے چاروں اماموں کے نزدیک عورتوں کو مسجد میں نماز کے لئے آنا ممنوع ہے، الفقہ علی مذاہب الاربعہ نامی کتاب (۱؍۳۸۴) میں امام مالک کے مذہب کے متعلق لکھا ہے کہ : فان کانت شابۃ وخیف من حضورھا لافتنان بھا فی طریقھا او فی المسجد فانہ یحرم علیہا الحضور دفعا للفساد۔ شافعیہ کے لئے لکھا ہے کہ : یکرہ للمرأۃ حضور الجماعۃ مطلقا فی الجمعۃ و غیرھا۔ الخ حضرت عائشہؓ سے بخاری شریف میں روایت ہے کہ: لو ادرک رسول اللہ ﷺ ما احدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل: یعنی عورتوں کی یہ حرکات جو انہوں نے اختیار کی ہے، رسول اللہ ﷺ ملاحظہ فرماتے تو انہیں مسجدوں میں آنے سے روک دیتے۔علامہ عینی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:قلت ھذا الکلام عن عائشۃ بعد زمن یسیر جدا بعد النبی ﷺ و اما الیوم فنعوذ باللہ من ذلک فلا یرخص فی خروجھن مطلقا للعید وغیرہ اھ،عینی شرح بخاری میں لکھتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کا یہ ارشاد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک کے بہت تھوڑے دنوں بعد کا ہے اور آج کل تو خدا کی پناہ، پس مطلقاً عورتوں کو عید اور غیر عید میں مسجد جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ام حمیدؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہو، حالانکہ تمہاری وہ نماز جو اندرونی کوٹھری میں ہو وہ دالان کی نماز سے بہتر ہے اور دالان کی نماز صحن کی نماز سے بہتر ہے اور گھر کے صحن کی نماز محلہ کی مسجد کی نماز سے بہتر ہے اور محلہ کی مسجد کی نماز میری مسجد (مسجد نبوی ﷺ) کی نماز سے بہتر ہے۔ (رواہ احمد وابن حبان کذا فی کنز العمال) مسجد نبوی ﷺ میں مردوں کو ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ملتا ہے، اس فضیلت کے باوجود عورت کا اپنے گھر میں نماز پڑھنے کو افضل بتایاگیا ہے، اس سے واضح طور پر یہ بات ثابت ہو گئی کہ عورت جس قدر اپنے پر دے اور تستر کی جگہ سے دورجاتی ہے اسی قدر ثواب کم ہوتا ہے، عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع اور ناپسند کرنے والے صرف عمرؓ ہوتے تو ان کا یہ عمل بھی سنت خلفاء راشدین کی وجہ سے ہمارے لئے قابل عمل تھا، چہ جائیکہ جمہور صحابہ حضرت عائشہ، حضرت ابن مسعودؓ، حضرت سفیان ثوری، عبد اللہ بن مبارک اورابراہیم نخعی (رحمہم اللہ) وغیرہ سب اس مسئلہ میں متفق ہیں ۔ مذکورہ بالا تصریح کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ عورتیں حسب معمول اپنے گھر میں ہی نماز پڑھتی رہیں ، مسجد میں اور جماعت میں شریک ہونے کا خیال چھوڑ دیں ، یہی ان کے لئےافضل و بہتر ہے اور اسی میں اطاعت بھی ہے، چرچ اور دوسری جگہوں پر عورتیں عبادت اور پوجا وغیرہ کے لئے جاتی ہیں تو آئے دن ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے، ہم اخباروں میں پڑھتے رہتے ہیں ، اس لئے مسجد کے منتظمین کو بھی چاہئے کہ مستورات کے لئے وضو سمیت ادائیگی نماز کے لئے با پردہ انتظام کر کے فتنہ کے دروازوں کو نہ کھولیں ، اس کی جگہ مردوں کو زیادہ سے زیادہ مسجد میں اور عورتوں کو زیادہ سے زیادہ گھر میں نماز پڑھنے کا پابند بنائیں۔ بعض مدعیان عمل بالحدیث لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی اجازت کے مقابلہ میں صحابہ کی ممانعت قابل قبول نہیں ، کیونکہ حدیث مرفوع کے مقابلہ میں صحابہ کا قول حجت نہیں ہو سکتا، لیکن یہ ایک دھوکہ یا غلط فہمی ہے، تفصیل کے لئے دیکھو: کفایت المفتی: ۵؍۱۳۰، اسی کتاب میں صفحہ: ۴۱۴ پر لکھتے ہیں کہ: پس کس قدر افسوس ہے ان لوگوں کے حال پر جو عورتوں کو مسجد میں بلاتے اور جماعتوں میں آنے کی ترغیب دیتے ہیں ، وہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم اور آپ کی مرضی و منشاء کے خلاف انہیں تعلیم دیتے ہیں اور غضب یہ ہے کہ اسے سنت بتاتے ہیں اور اپنے اس فعل کو احیائے سنت سمجھتے ہیں ۔ اگر عورتوں کے لئے جماعتوں میں حاضر ہونا سنت ہوتا تو آنحضرت ﷺ اپنی مسجد کی نماز سے مسجد محلہ کی نماز کو اور مسجد محلہ کی نماز سے گھر کی نماز کو افضل کیوں فرماتے؟ کیونکہ اس صورت میں گھروں میں تنہا نماز پڑھنا عورتوں کے لئے ترک سنت ہوتا تو کیا ترک سنت میں ثواب زیادہ تھا اور سنت پر عمل کرنے میں کم؟ اور کیا رسول اللہ ﷺ عورتوں کو گھر میں نماز پڑھنے کی ترغیب دے کر گویا ترک سنت کی ترغیب دیتے تھے، شاید یہ لوگ اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ سے زیادہ بزرگ اور اپنی مسجدوں کو مسجد نبوی ﷺ سے زیادہ افضل سمجھتے ہیں، اس لئے ان جاہلوں اور فریب کاروں کے دھوکے میں نہ آئیں اور شریعت کے مطابق عمل پیرا ہو! فقط و اللہ تعالی اعلم
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔