سلسلہ نمبر ۸
جناب ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ
صور من حیاۃ الصحابہ ؓ
صحابۂ رسول ﷺ کی تڑپا دینے والی زندگیاں
مؤلف: علامہ عبدالرحمن رافت الباشا
مترجم: مولانا اقبال احمد قاسمی
مرتب: عاجز: محمد زکریّا اچلپوری الحسینی
جناب ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ
اس جلیل القدر صحابی کا اسم گرامی خالد بن زید ابن کلیب تھا ان کی کنیت ابو ایوب تھی اور ان کا تعلق انصار کے قبیلے بنو نجار سے تھا۔ ہم مسلمانوں میں سے کون ہے جو جناب ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے ناواقف ہو۔ اللہ تعالی نے سارے مسلمانوں کے مکانات کو چھوڑ کر ان کے مکان کو اس وقت اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے لئے منتخب فرما کر جب وہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے ان کے ذکر کو سارے عالم میں مشہور اور ان کے مقام کو ساری مخلوق میں بلند کردیا اور تنہا ہی ایک بات ان کے فخر کے لئے کافی ہے۔ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کے جناب ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے گھر میں نزول اجلال فرمانے کی داستان بڑی دلکش اور شیریں داستان ہے جس کا ذکر کانوں کو ہر بار ایک نئی اور عجیب لذت سے آشنا کر جاتا ہے۔
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچےتو اس کے باشندوں نے ادب واحترام اور عقیدت ومحبت سے بھرے ہوئے دل و نگاہ کوفرش راہ کردیا، انہوں نے اپنے دلوں کے دروازے کھول دیئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی گہرائیوں میں اتر جائیں، انہوں نے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اندر پوری عزت و توقیر کے ساتھ جلوہ فرما ہوں۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے چند روز مدینے کی قریبی بستی قباء میں گزارے
اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں ایک مسجد تعمیر کی وہ پہلی مسجد تھی (یعنی مسجد قبا) جس کی بنیاد تقوے پر رکھی گئی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر نکلے اور یثرب کے تمام بڑے بڑے سردار اس کے راستے میں کھڑے ہو گئے۔ ان میں سے ہر ایک کے دل میں ہی حسین آرزو کروٹیں لے رہی تھی کے وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر میں قیام کرنے پر آمادہ کرنے کا شرف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے ۔ تمام سرداران یثرب باری باری اونٹنی کے آگے کھڑے ہو جاتے اور اس کا راستہ روک کر عرض کرتے
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ہمارے یہاں قیام فرمائیں۔ ہم اپنی قوت ساز و سامان اور کثیر افراد کے ذریعے آپ کی پوری پوری حفاظت کریں گے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کو جواب دیتے کہ اسے چھوڑ دو یہ الله تعالی کی طرف سے مامور ہے،
اونٹنی اپنی متعین منزل کی طرف بڑھتی رہی اور پرشوق نگاہیں آرزو مند قلوب کے ہجوم میں اس کا تعاقب کرتی رہیں جب وہ کسی مکان کے سامنے پہنچ کر اس سے آگے نکل جاتی تو اس کے مکینوں پر گم و ملال طاری ہو جاتا ۔ ان کے اوپر مایوسی و نا امیدی مسلط ہو جاتی اور ان کے بعد والوں کے دلوں میں امید کی شمع جگمگا اٹھتی تھی، اونٹنی اسی طرح ایک ایک کر کے مختلف گھروں کے سامنے سے گزرتی رہی اور لوگ اپنی محرومی پرغم والم کی تصویر بنے اس خوش بخت کو جاننے کے شوق میں جس کے حصے میں دائمی نعمت آنے والی تھی اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے۔حتی کہ اونٹنی جناب ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان کے سامنے خالی پڑے ہوئے میدان میں پہنچ کر بیٹھ گئی لیکن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اس کی پشت سے اتر کر نیچے تشریف نہیں لائے۔ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد وہ ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھی اور آگے چل پڑی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نکیل ڈھیلی چھوڑ دی۔ چند قدم چل کر اونٹنی مڑی اور واپس آ کر دوبارہ اسی جگہ بیٹھ گئی جہاں پہلی بار تھی۔ یہ دیکھ کر جناب ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا دل خوشی سے لبریز ہو گیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرنے کے لئے تیزی کے ساتھ لپکے۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سامان اٹھا لیا اور اسے خوشی خوشی اپنے گھر میں اس طرح لائے جیسے دنیا کا سارا خزانہ ان کے ہاتھ آگیا ہو۔ (١)
جناب ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا مکان دومنزلہ تھا۔ انہوں نے بالائی منزل کو اہل خانہ کے
ساز و سامان سے خالی کرا دیا تا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرمانے کے لئے اپنی خواب گاہ میں تشریف لے جا چکے تو جناب ابو ایوب رضی اللہ عنہ اور ان کی اہلیہ بالائی منزل میں چلے گئے لیکن جیسے ہی انہوں نے دروازہ بند کیا فورا ان کے دل میں خیال آیا اور اپنی اہلیہ سے مخاطب ہوئے:
تمہارا بھلا ہو ہم نے کیا کیا؟ کیا یہ بات مناسب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اور ہم ان سے اوپر رہیں؟ کیا یہ بات ہم کو زیب دیتی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر چلیں؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور وحی الہی کے درمیان حائل ہونا ہمارے لئے زیباہے؟ آہ! اس صورت میں تو ہم تباہ و برباد ہو جائیں گے ۔
اس وقت دونوں میاں بیوی سخت حیرانی و پشیمانی سے دوچار تھے اور ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں؟ وہ دونوں رات بھر بے چین رہے۔ آخر کار ان کو اس وقت تھوڑا سا سکون میسر آیا جب وہ بالا خانے کے اس گوشے میں سمٹ گئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر واقع نہیں تھا وہ دونوں و ہیں گوشہ گیر ہو گئے۔ اگر چلتے تو بیج میں چلنے کے بجائے کنارے کنارے چلتے تھے، صبح کو جناب ابوایوب رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ آج رات میں نے اور ام ایوب نے آنکھوں میں کاٹی ہے۔ (مطلب ساری رات بے چینی میں جاگتے رہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ پوچھی تو عرض کیا:
اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! رات بھر ہم کو یہ احساس بے چین کئے رہا کہ ہم جس مکان کی بالائی منزل میں ہیں، آپ اس کے نیچے تشریف فرما ہیں اور جب ہم چلے اور حرکت کرتے ہیں تو دھول اور گردوغبار آپ کے اوپر گر کر آپ کے لئے اذیت کا سبب بنتی ہے مزید یہ کہ ہم آپ کے اور وحی الہی کے درمیان حائل ہورہے ہیں۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوتسلی دیتے ہوئے فرمایا:
ابوایوب! اس کی فکر اور پرواہ مت کرو‘ چونکہ بکثرت لوگ میرے پاس ملنے کے لئے آتے رہتے ہیں اس لئے نیچے ہی رہنا میرے لئے زیادہ مناسب اور آرام دہ ہے۔“
جناب ابوایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر سرتسلیم خم کردیا اور بالائی منزل میں قیام پذیر رہا۔ یہاں تک کہ ایک سرد رات کو ہمارا پانی کا گھڑا ٹوٹ گیا اور اس کا پانی اوپری منزل کے فرش پر پھیل گیا۔ ہم دونوں میاں بیوی اس کے پھیلے ہوئے پانی کو جذب کرنے کی طرف متوجہ ہوئے ۔ اس وقت ہمارے پاس صرف ایک ہی کمبل تھا جس کو ہم لحاف کے طور پر استعمال کرتے تھے اس خوف سے کہ کہیں یہ پانی نیچے ٹپک کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے باعث پریشانی نہ بن جائے، ہم نے اسی کمبل میں پانی کو جذب کر لیا۔ پھر صبح کے وقت میں نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں آپ سے اوپر رہوں اور آپ مجھ سے نیچے رہیں ۔ پھر میں نے رات کو پیش آنے والا گھڑے کا واقعہ آپ کو سنادیا اور آپ سے بالائی منزل میں منتقل ہو جانے کی درخواست کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری یہ درخواست منظور فرمالی اور اوپر کی منزل پر منتقل ہو گئے اور میں ام ایوب کے ساتھ نیچے آ گیا۔ ( ۲)
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جناب ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے مکان میں تقریبا سات مہینے تک قیام پذیر رہے یہاں تک کہ جب اس زمین میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی جس میں اونٹنی بیٹھی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان حجروں میں منتقل ہو گئے جو مسجد کے اردگرد آپ کے اور آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہ کے لئے بنائے گئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جناب ابوایوب رضی اللہ عنہ کے پڑوس میں رہنے لگے۔ کتنے اچھے اور شریف پڑوسی تھے جو ان دونوں کومیسر آئے تھے۔
جناب ابوایوب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے ایسی محبت تھی جس نے باہمی تکلفات کے سارے پردے درمیان سے اٹھا دیے تھے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر کو اپناہی گھر سمجھتے تھے۔
جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ گرمی کی ایک سخت دو پہر میں گھر سے نکل کر مسجد کی طرف آئے ۔ جناب عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھ کر پوچھا کہ ابوبکر! آپ اس وقت گھر سے کیوں نکلے ہیں؟‘‘
جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
بھوک کی شدت اور بے چینی کی وجہ سے۔
جناب عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:
اللہ کی قسم میرے گھر سے نکلنے کا سبب بھی یہی ہے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے حجرے سے تشریف لائے اور ان دونوں حضرات سے دریافت کیا: آپ دونوں اس وقت کس غرض سے اپنے اپنے گھروں سے باہر نکلے ہیں؟
دونوں نے جوابا عرض کیا:
الله کی قسم! ہم سب اس بھوک سے بے چین ہو کر نکلے ہیں جس کو ہم اپنے اندر شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔
اس ہستی کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں نے بھی اس سے پریشان ہو کر گھر سے قدم نکالا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اٹھئے ! میرے ساتھ چلئے ۔‘‘ اور تینوں حضرات جناب ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے یہاں پہنچے۔ جناب ابو ایوب رضی اللہ عنہ ان کا معمول تھا کہ وہ روزانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانے کی کوئی نہ کوئی چیز بچا کر رکھتے تھے اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی وجہ سے تاخیر کرتے اور وقت مقررہ پر تشریف نہ لاتے تو وہ کھانا گھر والوں کو کھلا دیتے۔ جب یہ لوگ دروازے پر پہنچے تو ام ایوب رضی اللہ عنہ گھر سے نکل کر ان کے پاس پہنچیں اور بولیں:”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی تشریف آوری ہماری عزت افزائی کا باعث ہے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ”ابوایوب کہاں ہیں؟“
جناب ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سن لی ۔ وہ قریب ہی اپنے کھجوروں کے باغ میں کام کر رہے تھے۔ وہ یہ کہتے ہوئے تیزی سے لپکے یا رسول اللہ! یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی تشریف آوری بے وقت کیسے ہوئی؟ آپ تو اس وقت کبھی تشریف نہیں لاتے تھے ۔‘‘نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوایوب تم ٹھیک کہتے ہو“
پھر جناب ابوایوب رضی اللہ عنہ باغ میں گئے اور اس میں سے کھجوروں کا ایک گچھا کاٹ لائے جس میں کچھ کچی اور کچھ پکی ہر قسم کی کھجور لگی ہوئی تھیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کرفرمایا:
"اسے کاٹنے کی کیا ضرورت تھی۔ کیوں نہیں تم نے اس میں سے صرف پکی ہوئی کھجوریں ہی توڑلئے؟
انہوں نے کہا کہ میں نے مناسب سمجھا کہ آپ اس میں سے تر رطب اور بسرہرقسم کی کھجور اپنی پسند کے مطابق تناول فرمائیں۔ اس کے علاوہ میں آپ کے لئے ایک بکری بھی ذبح کروں گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ذبح کرنا ہے تو دودھاری بکری مت ذبح کرنا۔“
پھر جناب ابوایوب رضی اللہ عنہ نے بکری کا ایک سالہ بچہ لیا اور اسے ذبح کر دیا۔ پھر انہوں نے اپنی اہلیہ سے کہا: ایوب کی ماں! آٹا گوندھ کر ہمارے لئے روٹیاں پکا لو۔ تم بہت عمدہ روٹیاں پکانا جانتی ہو۔
اس کے بعد انہوں نے آدھا گوشت پکایا اور آدھے کو بھون لیا۔ جب کھانا پک کر تیار ہو گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں کے سامنے رکھ دیا گیا۔ (۳) تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے
گوشت میں سے ایک ٹکڑا لیا اور اس کو روٹی میں رکھ کر فرمایا: ” ابوایوب ! یہ جلدی سے فاطمہ کو دے آؤ. اس کو کئی دنوں سے ایسا کھانا نہیں ملا۔
پھر جب سب لوگ کھا کر آسودہ ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”روٹی، گوشت کچی اور پکی کھجور‘‘ یہ کہتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشک آلود ہو گئیں ۔ پھر ارشادفرمایا:
قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہی وہ نعمت ہے جس کے متعلق قیامت کے روز تم سے سوال کیا جائے گا۔ جب تم کو اس قسم کی نعمت ملے اور تم اسے کھانے کے لئے اپنے ہاتھ میں لوتو کہو "بسم اللہ” اور جب آسودہ ہو جاؤ تو کہو: "الحمد لله الذی اشبعنا وأنعم علينا فافضل”
اللہ کا شکر ہے جس نے ہم کو آسودگی بخشی ہم کو انعام سے نوازا اور ہمارے اوپر مہربانی کی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور چلتے چلتے جناب ابوایوب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کل ہمارے پاس آنا۔“(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب کوئی شخص آپ کے ساتھ احسان کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو پسند کرتے تھے کہ اس کے احسان کا بدلہ چکا دیں) جناب ابو ایوب رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات نہیں سن سکے تو جناب عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ
ابوایوب! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرما رہے ہیں کہ کل تم میرے پاس آنا‘ جناب ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم میرے سر اور آنکھوں پر“
جب دوسرے دن جناب ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک لونڈی (جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتی تھی) یہ کہتے ہوئے عنایت فرمائی :ابوایوب اس کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا۔ یہ جب تک ہمارے یہاں رہی ہے ہم نے اس میں سوائے خیر کے کچھ نہیں دیکھا۔“ وہ لونڈی کو لئے ہوئے گھر لوٹے۔ جب ام ایوب رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو بولیں: ابوایوب! یہ لونڈی کس کی ہے؟
ہماری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عنایت فرمائی ہے۔ یہ سن کر ام ایوب رضی اللہ عنہا نے کہا کتنا عظیم ہے عطا کرنے والا اور کتنا عمدہ ہے یہ عطیہ“
جناب ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے دوبارہ کہا:
”اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو اس کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔
ہم اس کے ساتھ کون سا رویہ اختیار کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر پورا پورا عمل کرسکیں
انہوں نے سوچتے ہوئے کہا:
اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل کرنے کی اس سے بہتر دوسری کوئی صورت نہیں ہو سکتی کہ اس کو آزاد کر دیں۔ انہوں نے حل پیش کر دیا۔
آپ کوصحیح راہ سوجھی۔ آپ کو درست بات کی توفیق ملی ۔‘‘ام ایوب رضی اللہ عنہا نے ان کی تائید کی اور جناب ابوایوب رضی اللہ عنہ نے لونڈی کو آزاد کر دیا۔
یہ جناب ابوایوب رضی اللہ عنہ کی عام اور روز مرہ کی زندگی کی چند جھلکیاں تھیں ۔ اگر آپ کو ان کی مجاہدانہ اور سرفروشانہ زندگی کی کچھ جھلکیاں دیکھنے کا موقع ملے تو یقینا آپ حیرت اور آنکھوں سے آنسوں سے دو چار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی ایک غازی اور مجاہد کی طرح گزاری۔ کہا جاتا ہے کہ وہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر دور معاویہ رضی اللہ عنہ تک کسی غزوے سے پیچھے نہیں رہے جو مسلمانوں کو پیش آیا سوائے اس کے کہ وہ کسی دوسرے محاذ پر برسر پیکار ہوں۔
وہ غزوہ جناب ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا آخری غزوة تھا۔ جب جناب معاویہ ابن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے اپنے زمانہ خلافت میں اپنے بیٹے یزید کی قیادت میں قسطنطنیہ کی فتح کے لئے فوج بھیجی تھی۔ جناب ابوایوب رضی اللہ عنہ اس وقت کافی عمر رسیدہ تھے اس وقت ان کی عمر اسی (۸۰) سال کے قریب تھی لیکن یہ کبر سنی ان کو یزید کی فوج میں شامل ہونے اور معرکہ کارزار میں ایک مجاہد کی حیثیت میں داخل ہونے سے نہ روک سکی، وہ فوج میں ایک عام سپاہی کی طرح شریک ہوئے لیکن دشمن کے ساتھ جنگ چھڑے ابھی کچھ زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ ان کے اوپر بیماری کا ایسا شدید حملہ ہوا جس نے ان کو شرکتِ جنگ سے معذور کر دیا ان کی شدید علالت کی خبر پا کر قائد سپاه اسلامی یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کے لئے آیا اور ان سے دریافت کیا:
ابوایوب ؓ ! آپ کی کوئی خواہش ہے؟
جناب ابوایوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
غازیان اسلام کو میرا سلام کہنا اور ان سے کہنا کہ ابوایوب کی وصیت ہے کہ دشمن کی سرحد میں اندر تک گھس جاؤ اور مجھے اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاؤ اور میری لاش کوقسطنطنیہ کی فصیلوں کے نیچے دفن کر دو۔ یہ کہتے کہتے میزبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری ہچکی لی اور طائر روح قفس عنصری سے آزاد ہو گئے ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
مجاہدین نے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری خواہش اور وصیت کا پورا پورا احترام کیا۔ انہوں نے دشمن پر پے در پے اور شدید حملے کئے اور اسے دھکیلتے ہوئے فصیلِ شہر تک پہنچ گئے، وہ جناب ابوایوب رضی اللہ عنہ کی لاش مبارک کو ساتھ اٹھائے ہوئے تھے۔ وہاں ان کی وصیت کے مطابق قبر تیار کی گئی اور اس میں ان کو دفن کیا گیا
” زمیں کھا گئی آسمان کیسے کیسے”
انہوں نے اس کے سوا اور کسی صورت کو پسند نہیں کیا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے میدان جنگ میں گھوڑے کی پیٹھ پر ان کو موت آئے ۔ حالانکہ ان کی عمر اس وقت اسی سال کے قریب تھی، الله تعالی جناب ابوایوب رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے اور ان سے راضی ہو۔ آمین یارب العالمین
✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿
(۱) و زاد المعاد ٢: ۵۵ بہ حوالہ الرحیق المختوم صفحہ ۲۴۱ سیرت ابن ہشام صفحہ ٢٤٧ و ٢٤٨ صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار حدیث ۳۹۱۱ میں ہے کہ جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے اپنا سامان ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان کے سامنے اتارا۔ ( کیونکہ اونٹنی وہاں بیٹھ گئی تھی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے آدمیوں میں سے کسی کا گھر یہاں سے زیادہ قریب ہے؟ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ
نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا دروازہ ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا جاؤ اور ہمارے لیٹنے کا انتظام کر وابوایوب انصاری نے کہا آپ دونوں اللہ کی برکت سے اٹھئے (اور چلئے)‘یہ سن کر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے مکان میں چلے گئے ۔“
(۲)جناب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر کے نچلے حصے سے اوپر کے حصہ میں ٹھہرانے کے بارے میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی فکر مندی اور پانی کا گھڑاٹوٹنے کا کچھ واقعہ سیرت ابن ہشام صفحہ ۲۴۹ میں مذکور ہے۔
(۳)صحیح مسلم کتاب الاشر بہ باب جواز استتباعہ میں یہ واقع مختصرأ موجود ہے۔
نوٹ: کسی بھی قسم کی غلطی نظر آئے تو ہمیں ضرور اطلاع کریں۔
ناشر: eSabaq.com
eSabaq.in@gmail.com
zakariyyaachalpuri9008@gmail.com
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔