بابری مسجد کے ساتھ نا انصافی

بابری مسجد کے ساتھ نا انصافی

✍ *محمد صابر حسین ندوی*

*ممکن ہے کہ بابری مسجد تاریخ کی سب سے مظلوم مسجد قرار دی جائے گی، اپنوں کی بے اعتنائی اور غیروں کی ستم گری پر نشان عبرت سمجھی جائے گی، اسے ہمیشہ یاد کیا جائے گا اور امت کے سوتے ضمیروں پر چوٹ لگائی جائے گی، اس کے ذریعہ مسلمانوں کی بے بصیرتی اور نادانی کے ساتھ اکثریت کا اقلیت پر ظلم اور جمہوریت کی شکل میں بیٹھے بھیڑیوں کی تصویریں پیش کی جائیں گی، اسے مٹادیا گیا، مسمار کردیا گیا، رات کے اندھیرے اور دن کے اجالے میں اس کی اینٹ اکھاڑ لے گئے، بھگوا رنگ کے علمبرداروں نے مقدس مقام کا بھی خیال نہ کیا، اس کی تقدیس کو نوچ لیا، اس کی تعظیم و حرمت پر جھپٹ پڑے، اور یکا یک انسانی تاریخ کا سب سے بڑا جرم کر بیٹھے، دنیا میں سینکڑوں ڈکٹیٹر ہوئے، جنون کے مارے اور طاقت و قوت کے نشہ میں چور بادشاہ بھی ہوئے؛ لیکن ان سے عبادت گاہوں کا تقدس پامال نہ کیا جاتا تھا، اگر تاریخ سے بعض مثالیں ہٹادی جائیں یا پھر سیاسی مفاد کو پرے کردیا جائے، تو امن و صلح اور انسانیت و جمہوریت کے نام پر کبھی بھی خانہ خدا کو یا کسی بھی صنم خانے کو نہ چھیڑا گیا؛ مگر ۶/دسمبر ۱۹۹۲ء میں ہندوستانی معاشرت کا وہ کالا دن آیا جب اپنوں نے ہی پیٹھ پر چھرا مار دیا، ایک دیومالائی کیریکٹر کے نام پر حقیقت کو مٹا بیٹھے، حکومت خاموش رہی، سسٹم اندھا بنا رہا__ فوج اور پولس، عدالت اور سارا نظام راکد رہا؛ اور گیروا رنگ کے باولے، مجنون قسم کے افراد اور انسانیت کیلئے باعث شرمندہ انسان نما جانوروں نے بیت الہی کو روند ڈالا_ کدالیں چل رہی تھیں، پھاوڑے مارے جارہے تھے، بھگوا جھنڈا لہرایا جارہا تھا، مسجد کا اوپری حصہ اور نچلا حصہ بھی زخم پر زخم برداشت کئے جارہا تھا؛ لیکن ساری دنیا تماشائی بنی دیکھتی رہی، بلکہ لطف لیتی رہی، چٹخارے مارتی رہی اور خود کو سیکولزم کے پردہ میں چھپاتی رہی۔* *اس کی آگ نے پورے ہندوستان کو متاثر کیا، ہندو مسلم فسادات ہوئے؛ بلکہ بہت سی جگہوں پر مسلم کش کاروائی کی گئی، جب معاملہ ٹھہرا تو پھر کورٹ اور کچہری کی زینت بنا، لوگوں نے نچلی عدالت سے لیکر عدالت عظمی تک گہار لگائی، مسلمانوں نے سپریم کورٹ کی عزت کرتے ہوئے ہر فیصلہ ماننے اور ملک میں امن بحال رکھنے کی باتین کہیں؛ لیکن کیسے ممکن ہے کہ فکری تضاد عدل میں آڑے نہ آئے، زعفرانی حکومت کی ہوائیں صبا کا لطف دیں، باد صرصر سے باد نسیم کے جھونکے محسوس کئے جائیں_! چنانچہ زور آور کا زور چلا اور فیصلہ یہی ہوا کہ ظالم ہی منصف ٹھہرایا گیا، مندر وہیں بنے گا اور رام جنم بھومی کی صدائیں لگانے والے، حکومت کے قانون کی بخیہ ادھیڑ نے والے ہی حقدار پا گئے، اور مسلمانوں کو پانچ ایکڑ زمین دے کر رخصت کردیا_ گویا سیب آپ کا ہے لیکن سیب پر دعویداری کسی اور کی ہے، اس لئے آپ سیب سے دسبردار ہوجائیے اور امرود کھا لیجئے_ !! اب ریویو پٹیشن ڈالی گئی ہے_ خیر کرئیے جو بھی کر سکتے ہیں، حجت تمام کر دیجئے؛ لیکن بنجر زمین سے پانی کی امید کر سکتے ہیں، مگر زعفرانیت سے ہمدری کی توقع نہ پالئے، وہ کوئی فرد نہیں بلکہ ایک فکر ہے، جو شرست بن گئی ہے، جسے کوئی نہیں بدل سکتا_ یقینا یہ ناانصافی تاریخ کے صفحات پر محفوظ رہے گی، مسلمانوں کا دل کٹ جائے، وہ مرجائیں؛ لیکن مسجد کی یادیں نہ مریں گی، نسلیں اس ظلم کو یاد رکھیں گ، یہ نشانی ہوگی کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر کتنا گندا کھیل کھیلا جارہا ہے، اور ہر لمحہ یہ پتہ دے گی کہ باطل نظام آخر باطل ہے، اور حق صرف اسلام ہی ہے، جہاں دشمنی و عناد میں بھی انصاف کرنے کا حکم ہے۔*

Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 06/12/2019

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔