ماحول کی بصیرت اور حالات کے منظر نامے پر گہری نظر اور اس کے مزاج سے واقفیت بہت بڑی نعمت ہے یہ سب کو حاصل نہیں ہوتی ہے۔
حرف کی شناخت بہت آسان ہے مگر اس کے معانی کے ساتھ ساتھ پس منظر وپیش منظر کا ادراک بہت مشکل۔ یہی وہ سرمایہ ہے'جس کے ذریعے انسان وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتا ہے اور حالات کے تیور بھانپ کر مستقبل کی نتیجہ خیز منصوبہ بندی کرتاہے اس کے برعکس وہ اذہان و قلوب جو بصیرت کی روشنی سے محروم رہتے ہیں ان کی نگاہیں کتابوں کی عبارتوں اور الفاظ و حروف کی ظاہری سطح سے آگے نہیں جا پاتیں،ان کی فکر اس قدر منجمد اور شعور اتنا محدود ہوتا ہے کہ وقت اور حالات کے تقاضے ان کی سنگینی،ان کا ماحول،تمام تر ہولناکیوں کے باوجود ان کی نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں، وہ اسلام اور اسلامی تعلیمات اور اسلامی نظام کو اپنی محدود فکر کے پیمانے پر رکھتے ہیں،اسی معیار پر سوچتے ہیں اور اسی میزان پر اسے تولتے ہیں'اور پھر اسی منجمد کسوٹی پر ایک آفاقی اور عالم گیر نظام کو محدود ماحول اور محدود فکر میں محصور کر نے کا فیصلہ صادر کردیتے ہیں، جہاں جدید آلات کی طرف نظر اٹھانا جرم،حالات کے تقاضے پر عمل کے لئے ان کی مزعومہ تعلیمات خاموش،اور جدید اسباب ووسائل کی طرف توجہ دین کے خلاف قرار پاتی ہے' یہ افکار و نظریات جہاں بجائے خود اسلامی روح کے خلاف ہیں'وہیں دنیا کے سامنے اس روایتی مذہب کا تصور دیتے ہیں جو زندگی کی رفتار کا ساتھ دینے سے عاجز ہے' اگر غور کیا جائے تو ملک کے سلگتے حالات کے تناظر میں مسلم بچیوں کی عصری تعلیم کے حوالے سے کئی روز سے جاری بحث و نظر میں جو پابندیوں کا آوازہ گونجا ہے'اپنے اداروں کی کمیوں سے بالکلیہ صرف نظر کرکے تمام برائیاں اور اس کے امکانات کو عصری درسگاہوں کے حوالے کیا گیا ہے اسی نظریات کا شاخسانہ ہے۔یہ فکر علم کے بے جا خمار کی وجہ سے اپنی ذات اپنے ماحول سے آگے بدلتے حالات کے منظر نامے پر نظر کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتی ہے،کچھ لوگ تو دین کے نام پر اس طرح دوسرے طبقہ پر کیچڑ اچھالتے ہیں اور ملت کی تعمیر کے لئے اگر کوئی لائحہ عمل پیش کرتاہے ،تعلیم کی اہمیت کی بات کرتا ہے،اھون البلیتین کی روشنی میں ارتقاء کی راہ دکھاتا ہے تو تقوی کی تلوار لیکر اس طرح مخالفت پر اتر آتے ہیں جیسے ابھی ابھی ان پر وحی نازل ہوئی ہے، درحقیقت یہ شعور سے بالکل عاری ہوتے ہیں،بصیرت اور حالات کی آگاہی نام کو انھیں چھو کر نہیں گذری،اسلام کے مزاج ا ور اس کی روح سے قطعاً ناآشنا ہیں'،دین کے نام پر بے سوچے سمجھے فیصلہ صادر کرنے والے ایسے ہی لوگ جب ان کا ذاتی معاملہ کہیں سنگینی میں آجاتا ہے تو تقوی کی ساری چوکڑیاں پس پشت چلی جاتی ہیں'،انھیں قوم کی فلاح اور اس کی کشتی کو ساحل مراد پر لگانے سے کوئی سروکار نہیں ہے یہ اپنی ایک الگ جنت میں رہتے ہیں جہاں حالات کے تئیں سنجیدہ افکار کا کہیں گذر نہیں ہے،وہ لوگ جنہیں اس کا بھی شعور نہیں ہے کہ مخلوط اور غیر مخلوط کا اطلاق مدارس پر ہوتاہے یا یونیورسٹیز پر،وہ بھی خود مفکر سے کم نہیں سمجھتے ہیں،یہ الگ بات ہے کہ صحیح فکر سے ان کا کوئی علاقہ نہیں ہے ایسے لوگوں کے بارے میں اس کے سوا کیا کہا جاسکتا کہ۔ خدا انہیں کسی طوفاں سے آشنا کردے، کہ ان کی بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں، اقبال سے معذرت کے ساتھ،،
شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔