*میرے سینہ میں اب بھی بغاوت کی خلش زندہ ہے _!!* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*
آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے میرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے آج بھی ظلم کے ناپاک رواجوں کے خلاف میرے سینہ میں بغاوت کی خلش زندہ ہے *ایک عرصہ سے ہندوستانی افق پر مسلمانوں کا تارہ گردش میں نظر آتا تھا، صبح طلوع ہو بھی تو اس کی کرنیں مسلمانوں کے گھروں تک بمشکل پہونچتی تھیں، وہ ایک کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود جمہوریت میں بے حیثیت اور بے معنی ہوگئے تھے، ان کی آوازیں کٹ گئی تھی، ان کے حوصلے کہیں مرجھا گئے تھے، وہ جسم وجان کے اعتبار سے گرچہ زندہ تھے؛ لیکن ان کی روح مرتی ہوئی نظر آتی تھی، ان پر ہر موسم یکساں تھا، کیا خزاں اور کیا بہار_ کہا ساون اور کیا سوکھا_ پھولوں کی خوشبو اور غلاظتوں کی بدبو بھی ان کے قوت شامہ کو محسوس نہ ہوتی تھی، چشم فلک نے ابھی قریب ہی میں نہ جانے کیسی دیدہ ریز تصویریں دیکھی ہیں، خود آسمان بھی ان کی اس لاچاری پر رویا ہوگا، ماضی کا ہر تنکا ان کی بے کسی پر خون کے آنسو ٹپکاتا ہوگا، تشدد کے وہ شکار یوں ہوتے تھے جیسے جانوروں کے جھنڈ نے گھیر لیا ہے، بھیڑیوں نے دبوچ لیا ہے، وہ پیروں کے بل لوٹنے سے بھی قاصر تھے؛ چہ جائے کہ وہ دفاع کرتے، اقدام تو خیر بہت دور کی بات تھی_ اور صحیح معنوں میں کہا جائے تو تاتار کا ظلم اور مسلمانوں کی بے بسی گویا تاریخ دوبارہ دہرا رہی تھی، قتل کا بھی وہی طرز اپنایا جاتا تھا جو کبھی اس بر بر قوم نے اپنایا تھا* *چنانچہ معصوم مسلمان اپنی جان کی بھیک مانگتا، وہ روتا، بلکتا؛ لیکن وہ درندے خون آلود کرجاتے، اس کی سانسیں توڑ دیتے، زندگی سے اس کا رشتہ ختم ہوجاتا، اور پھر ایک خموشی سی چھا جاتی، کوئی احتجاج نہیں، کوئی شنوائی نہیں، بلکہ بہت سے اسے جواز بھی فراہم کرتے اور بزدلی کی اعلی سے اعلی مثال پیش کرتے، یہی وجہ ہے کہ خود حکومت نے اس کی سرپرستی کی ہے، جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ عدالت عظمی کے ذریعہ ان سے موب لنچنگ کے خکاف قانون بنانے کو کہا گیا؛ لیکن انہوں نے سرے سے انکار کردیا_ اور دبے الفاظ میں نیز کئی دفعہ کھلے عام وہ ہجومی دہشت گردی کو توانا کرتے رہے، بلکہ راجیہ سبھا میں جیا بچن نے ایک مسئلہ پر بات کرتے ہوئے لنچ کرنے کی بات کہ دی تھی_ غرض یہ کہ ہر محاذ اور ہر موڑ پر یہی محسوس ہوتا رہا؛ کہ اب مسلمانوں کا خاتمہ ہے، ہندو اکثریت انہیں نوالہ تر سمجھ کر نگل جائے گی، تقریبا آٹھ سو سالہ اسلام دشمنی کی سزا دیدی جائے گی، جس سے وہ لوگ متاثر ہوں گے جنہوں نے کبھی مسلمانوں کے دور حکومت کی ہوا تک نہ کھائی_ وہ اپنی قسمت پر رونے لگے تھے، شکوہ و شکایت کا عالم برپا تھا، دہشت، ڈر اور خوف کی زندگی ہی ان کے مقدر ہوکر رہ گئی تھی، سانسیں لیں تو انہیں چھیننے والے سر پر کھڑے ہوتے تھے، گردن اب گئی تب گئی کا سا حال ہونے لگا تھا_* *گھٹ گھٹ کر جیتی مسلم آبادی کا درد اس وقت اور بڑھ گیا تھا، جب CAA کے ذریعے انہیں ملک بدر کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا، NRC کے ذریعہ انہیں دوسرے درجہ کا شہری ثابت کرنے کوشش کی گئی، اور پارلیمنٹ میں خود امت شاہ نے اسے قبول کیا؛ لیکن کہنے والے نے صحیح کہا ہے کہ " ڈر اگر حد سے زیادہ ہوجائے، تو ڈر کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے" یا یوں سمجھ لیجئے کہ جب موت سامنے آجائے اور خود کا وجود خطرے میں پڑ جائے تو کمزور و ناتواں بھی اپنی پوزیشن بدل لیتا ہے، وہ دفاعی کیفیت سے ہٹ کر اقدامی صورت حال میں آجاتا ہے، آپ نے دیکھا ہوگا_! بلی کمزور جانور ہے، اسے گھر میں بند کر کے ڈرائیے، مارئیے بھگائیے، وہ صرف اپنا دفاع کرتی رہے گی؛ لیکن اگر اسے یہ احساس ہوجائے کہ اب اس کی جان پر بن آئی ہے تو وہ مرتے مرتے بھی دبوچ جاتی ہے، اپنے ناخنوں کے نشانات چھوڑ جاتی ہے، اور اکثر اپنی جان بچا جاتی ہے، اسی طرح جب انسان بہت زیادہ رو لے تو اس کے انسو خشک ہوجاتے ہیں، ایسے میں جو آنکھوں کا پانی مار چکا ہو، دل کا خوف نکالنا چکا ہو وہ سب سے زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے، سب سے زیادہ جری اور بے باک ہوجاتا ہے۔* *آج پوری فسطائی طاقت اسی بے خوف اور نڈر قوم سے بھڑ گئی ہے، ملک کے ہر حصہ میں ان کی صدائیں گونج رہی ہیں، ہندوں میں براہمن سماج کے ستائے ہوئے اور مسلمانوں میں ہر طبقہ سے سڑکیں پر ہیں، انہوں نے اپنے اندر موجود اس چنگاری کو پالیا ہے، جس کی وجہ سے کبھی ایوان کو ہلا دیا تھا، ہندوستان کو سونے کی چڑیا بنا کر ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک بنا دیا تھا، جس کے زور سے انگلش حکومت کی بخیہ ادھیڑ کر رکھ دی تھی، اور ایک طویل جد و جہد کے بعد ملک کی حفاظت کا سامان کیا تھا، آج پھر وہ ملک کی سالمیت کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، جمہوریت کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا ہے، ہندو مسلم اتحاد کے ساتھ ملک کا ہر قدم بڑھتا جاتا ہے، بغل میں دبی آگ سلگ چکی ہے، دماغ روشن ہیں، ظالم کے خلاف تاباں ہیں، انسانیت کے ساتھ کھڑے ہیں، کیا عورتیں اور کیا بچے_ کیا ہندو اور کیا مسلم_ محمود و موہن کا فرق مٹ گیا ہے، بندہ اور بندہ نواز ایک ہوگئے ہیں، درد و آہ کو مٹانے اور شکستہ دلوں کا مداوا بن کر سامنے آئے ہیں، حکومت کے ستائے ہوئے ہر گروہ کیلئے ایک مسیحا بن کر روبرو ہوئے ہیں_ امیدوں کی کرن طلوع ہورہی ہے_ وہ دیکھو ___ اک نئی صبح ہو رہی ہے۔* . Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 31/12/2019
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔