بہوجن سماج کی دقتیں __ سی اے اے اور این آر سی.*

  *بہوجن سماج کی دقتیں __ سی اے اے اور این آر سی.* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*

       *بہوجن سماج نے خود کو ہمیشہ تنہا ہی پایا ہے، چھوا چھوت کے درمیان ان کا استحصال ہی ہوتا رہا ہے، صرف ساڑھے تین فیصد برہمن نے انہیں اپنا غلام بنائے رکھا، وہ تو مسلمانوں کی مہربانی ہے کہ ١٩١١ سے انہوں نے خود کو ایک الگ قوم کے طور پر اعداد و شمار میں گنے جانے کے لائق بنایا، ورنہ اس سے پہلے یہ سب ہندوؤں کی فہرست میں ایک لائن میں لکھ دئے جاتے تھے، یہ سب منوودا، برہمن واد سے دوچار ہیں، فاشسٹ سوچ اور فسطائیت کے مارے ہوئے ہیں، انہیں دلت کہہ کر سماج سے بائیکاٹ کیا گیا، غلیظ بتاکر حقوق انسانی سے بھی محروم کردیئے گئے، دو وقت کی روٹی کیلئے کولہو کے بیل کی طرح کام لیا گیا، مزدوری کے نام پر اسی کو ان کا دھرم قرار دیدی گیا یا پھر سیاست کے مقاصد میں جوں کے توں جوت دئے گئے، ہر ایک نے بس ووٹ بینک سمجھ کر سبز باغ دکھائے اور جہنم میں دھکیل دیا، ان کی تہذیب و فکر ہر چیز مختلف ہونے کے باوجود ان کو ہندو تصور کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے، اور اسی میں ان کی خیر کا لاچ دے زبان بندی کی جاتی رہی ہے، آزادی ہند کے بعد بھی یہاں کی سب سے بڑی آبادی ہونے کے باوجود درکنار کرتے ہوئے ایک سب سے بڑی اقلیت برہمن انہیں آپنے ساتھ شامل کرتی ہے اور اکثریت کا ڈھنڈورا پیٹنے لگتی ہے، CAA. NRC. NPR جیسے مسائل میں ان سب کو ہندو بتا کر اپنی پیٹھ تھتھپاتی ہے.*         *نیز اسی سماج کی اکثریت کا سہارا لیکر ہندو راشٹر کے خواب کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے، جس کے متعلق ان کے سب سے بڑے رہنما اور دیش کے عظیم ترین شخص و قانون دان بابا امبیڈکر نے یہ کہہ دیا تھا؛ کہ ہندوستان کیلئے سب سے خطرناک یہ ہوگا کہ یہ ہندو راشٹر بن جائے، کیونکہ ہندو سوچ سماج کی تقسیم پر مبنی ہے، اس سے سوسائٹی منقسم ہوجائے گی، ہندو سماج میں یکسانیت کا کوئی باب ہے نہیں، چنانچہ انہوں نے اپنے رسائل و اخبار میں مستقل ایسے مضامین لکھے اور تمام ہندوستانی سے یہ درخواست کی کہ ملک کو ہندو راشٹر سے بچانا سب سے زیادہ ضروری ہے، بلکہ انہوں نے اس ہندو سماج اور ان کی تفریقی ذہن سے اس قدر اکتاہٹ محسوس کی کہ خود کو ان سے الگ کرلینے ہی میں خیر پایا، بات یہ ہے کہ وہ ایک عظیم مفکر تھے؛ لیکن ان کی پیدائش ایک چھوٹی ذات شیڈیول کاسٹ میں ہوئی تھی، انہوں نے ہندو اور ہندومت کو قریب سے دیکھا تھا، ان کی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا تھا، اور بہت سے معاملات میں گاندھی جی سے اختلاف رکھتے تھے، اسی لئے مشہور ہے کہ انہوں نے ناگپور میں ١٤/ اکتوبر ١٩٥٦ میں پورے تین لاکھ اسی ہزار افراد کے ساتھ بودھ دھرم کو اپنا لیا تھا، کیونکہ ان کے مطابق یہی وہ دھرم ہے جو شانتی و امن کا پاٹھ پڑھاتا ہے، اس مذہب کی بنیاد کو روحانیت اور یکسانیت پر مانتے تھے، یہ تاریخ کا غیر معمولی واقعہ ہے.*         *بہوجن سماج امبیڈکر کو اپنا گرو مانتے ہیں، چنانچہ برہمن واد کی اس سوچ کے سامنے پھر سے ان کا وجود کھڑا ہوگیا ہے، ناگپور میں ایک طرف سنگھ کی فکر کھڑی ہے تو دوسری طرف وہیں امبیڈکر کے ماننے والے بغاوت کر رہے ہیں، ایک بار پھر سے یہ سوال پیدا ہوگیا ہے؛ کہ کیا ہندوستان سولہ فیصد سے زائد بہوجن سماج کسی ہندو مت میں سما گیا ہے؟ کیا ان کوئی اپنا وجود ہے یا نہیں؟ کیا وہ صرد دوسروں کے خادم بننے ہی کیلئے پیدا کئے گئے ہیں؟ اور یہ سوال بھی دبے پاؤں آٹھ رہے ہیں کہ گاندھی جی اصل ہیں یا پھر بھیم راؤ امبیڈکر؟ غیر تشدد فکر بودھ کے ذریعہ پائی گئی یا پھر مہاتما گاندھی کے ذریعے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اب ملک میں انہیں اس کالے قانون کے ذریعے ختم کرنے یا پھر برہمن وادی میں پھانس کر رکھنے کی سازش ہے؟ یہ معلوم ہے کہ تعلیم کی شرح بہوجن سماج اور مسلمان میں کم وبیش ایک ہی ہے، دونوں طبقوں میں سماجی بیداری نا کے برابر ہے، ایسے NRC کا عذاب کیا ہوگا؟ اس سے سوچ کر بھی حکومت سے نفرت پیدا ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سے قدیم سنگھ سیوک کا ماننا ہے کہ بی جے پی نے سی اے اے کا مسئلہ اٹھا کر اپنے اندر پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی ہے، یہ ان کیلئے خطرناک ہے، چنانچہ اس سماج میں ایک دراڑ محسوس کی جا سکتی ہے، پورے دیس میں بہوجن سماج الگ الگ جگہوں پر جمع ہے، ان کے ارد گرد بہت سے سوالات ہیں، وہ بھی سوچ رہے ہیں کہ یا تو اب خود کو کھڑا کیا جائے یا پھر خود کو ایک بہتے دھارے میں انڈیل کر خموش بیٹھ جایا جائے، اور صدیوں سے پڑی غلامی کی زنجیر پر اکتفا کرلیا جائے، جبکہ دورا راستہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ملکر ایک نئی کوشش کی جائے!!*          *غالباً انہوں نے اس دوسری راہ کو منتخب کیا ہے، اب ملک بھر میں مسلمان اور بہوجن سماج ملکر احتجاج کر رہے ہیں، چندر شیکھر آزاد نے بھی مسلمانوں کی تائید کی ہے، جامع مسجد دہلی میں ان کی موجودگی بہت کچھ کہہ جاتی ہے، مولانا سجاد نعمانی صاحب ندوی دامت برکاتہم نے بھی انہی کے ساتھ ملکر ایک نیا محاذ تیار کیا ہے، آپ غور کیجئے..... ٢٠١١ کی رپورٹ کے مطابق بہوجن سولہ فیصد سے زیادہ ہیں تو مسلمان ١٤ فیصد سے کچھ زائد ہیں، اگر یہ دونوں ایک ہوجائیں تو ملک کی اکثریت بن جاتے ہیں، ایسے میں حکومت کیلئے آسان نہ ہوگا کہ اپنی ضد پر اڑی رہے، سنگھ کے خواب کو پورا کرے، اور ملک کو ہندو احیائیت کا گڑھ بنا جائے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان سے قریب ہوں، انہیں اپنے ہر احتجاج میں پیش پیش رکھیں، انہیں ایسی عزت دیں، بھائی چارگی اور اپنائیت کا احساس کروائیں، جس سے ہندومت نے انہیں محروم رکھا ہے، شودر کی فہرست میں رکھ کر گندگی سے بھی بدتر سلوک کیا، انہیں یہ یقین کرایا جائے کہ مسلمان ہی ان کے ساتھ یکسانیت کا سلوک کر سکتے ہیں، سماج میں برابری کا حق دلا سکتے ہیں، بالخصوص سنگھ اور بابا صاحب کے اختلافات کو بھی بتائیں، اور انہیں یہ بھی باور کرائیں کہ بابا صاحب کو ایک دلت سمجھ کر حقارت کرتے ہوئے کس طرح آئین کو بدلنے کی کوشش ہورہی ہے؛ تاکہ ایک بہوجن سماج کے فرد کی سوچ پر ضرب آئے اور منوسمرتی کا زمانہ لوٹ آئے.*        Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 21/01/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔