جناب براء بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سلسلہ نمبر ۵

جناب براء بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سلسلہ نمبر ۵

صور من حیاۃ الصحابہ ؓ
صحابۂ رسول ﷺ کی تڑپا دینے والی زندگیاں
مؤلف: علامہ عبدالرحمن رافت الباشا
مترجم: مولانا اقبال احمد قاسمی
مرتب: عاجز: محمد زکریّا اچلپوری الحسینی
✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿❀✿

 

بکھرے ہوئے بال غبار آلود چہرہ، ہلکے پھلکے دبلے پتلے اور کمزور بدن کے مالک تھے۔ بظاہر ان کی شخصیت میں کوئی کشش نہ تھی۔ دیکھنے والے ان کے اوپر ایک اجٹتی ہوئی نظر ڈال کر اپنی نگاہیں
پھیر لیتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود ان کی شجاعت و جواں مردی کا یہ حال تھا کہ جنگ مغلوبہ میں دشمن کی کثیر تعدادکوقتل کرنے کے علاوہ انہوں نے انفرادی جنگ میں ایک سومشرکین کو موت کےگھاٹ اتارا تھا۔ وہ تلوار کے نہایت شجاع اور جنگ کے وقت آگے بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والے تھے۔ اسی لئے جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مختلف صوبہ جات کے گورنروں کو حکم دیا تھا کہ انہیں لشکر مجاہدین کے کسی دستے کی قیادت پر مامور نہ کیا جائے کیونکہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ اپنے پیش قدمی کی وجہ سے انہیں ہلاکت میں ڈال دیں گے۔
یہ ہیں خادم رسول صلی اللہ علیہ وسلم جناب انس رضی اللہ عنہ کے بھائی جناب براء بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ ان کی جرأت و شجاعت کے کارنامے اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ہم ان کو بیان کرنے لگیں تو سلسلہ بیان دراز اور وقت تنگ ہو جائے۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دلیرانہ کارناموں میں سے صرف ایک کا ذکر کر دیا جائے جو ان کے دوسرے کارناموں پر روشنی ڈالنے کے لئے کافی ہو۔
اس کہانی کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیق اعلی سے جا ملے جب عرب قبائل بڑی تعداد میں دین اسلام کو چھوڑ کر اس میں سے بالکل اس طرح نکل گئے جس طرح وہ فوج درفوج اس میں داخل ہوئے تھے۔ حتی کہ مکہ مدینہ طائف اور ادھر ادھر کے چند قبائل کے سوا جن کے دلوں کو الله تعالی نے ایمان پر جما دیا تھا کوئی اسلام پر باقی نہیں رہ گیا تھا۔
جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان ہلاکت خیز اور تباہ کن فتنوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے اور ان کے استقبال کے لئے بلند اور مضبوط پہاڑ کی طرح ڈٹ گئے ۔ ان فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے انہوں نے مہاجرین و انصار پرمشتمل گیا رہ لشکر ترتیب دیئے اور ان کے لئے گیارہ جھنڈے تیار کرکے ان کے قائدین کے حوالے کرتے ہوئے انہیں جزیرہ عرب کے مختلف علاقوں میں روانہ کیا تا کہ وہ مرتدین کو حق و ہدایت کی راہ پر واپس لائیں اور دین حق سے منحرف ہونے والوں کو بزورشمشیر سیدھے راستے کی طرف پلٹ آنے پر مجبور کر دیں ۔ ان مرتدین میں مسیلمہ بن حبیب کذاب کا قبیلہ بنو حنیفہ کثرت تعداد، جنگی مہارت اور شجاعت و دلیری کے لحاظ سے سب سے زیادہ مضبوط تھا۔ مسیلمہ کی حمایت و تائید کے لئے اس کے اپنے قبیلے اور اس کے حمایتی قبائل کے چالیس ہزار جنگ جو اکٹھا ہوگئے تھے۔ ان کی اکثریت نے مسیلمہ پر ایمان لانے کے بجائے محض قبائلی عصبیت کی بناء پر اس کی پیروی اختیار کی تھی۔ ان میں سے بعض کا یہ کہنا تھا کہ ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ جھوٹا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی ہیں مگر ربیعہ کا کذاب (مسیلمہ) مضر کے صادق (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مقابلے میں ہمارے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔
مسیلمہ نے مسلمانوں کے پہلے لشکر کو جو اس سے لڑنے کے لئے جناب عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابی جہل کی قیادت میں نکلا تھا شکست دے کر الٹے پاؤں واپس ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس کی جگہ جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جناب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں دوسری فوج روانہ کی جس میں انہوں نے انصار ومہاجرین میں سے بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو جمع کر دیا تھا۔ اس فوج کے ہر اول میں جناب براء بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ اور کچھ دوسرے بہادر اور جانباز مسلمان مجاہدین شامل تھے۔
دونوں فوجیں نجد میں یمامہ کے مقام پر ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرائیں اور جنگ شروع ہونے کے تھوڑی ہی دیر بعد مسیلمہ کا پلہ بھاری ہونے لگا زمین مسلمانوں کے پاؤں کے نیچے سے سرکنے لگی اور وہ اپنی جگہ سے ہٹنے لگے۔ یہاں تک کہ مسیلمہ کے حامیوں نے آگے بڑھ کر جناب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے خیمے پر حملہ کر دیا اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور اگر بنوحنیفہ ہی کے ایک شخص (مجاعہ) نے امان نہ دی ہوتی تو انہوں نے ان کی بیوی ( ام حکیم رضی اللہ عنہا ) کو بھی قتل کر دیا ہوتا۔ اس وقت مسلمانوں کو زبردست خطرے کا احساس ہوا۔ انہوں نے بڑی شدت کے ساتھ اس بات کو محسوس کیا کہ اگر وہ مسیلمہ سے شکست کھا جاتے ہیں تو آج کے بعد نہ کوئی اسلام کی حمایت میں کھڑا رہ سکے گا نہ پورے جزیرہ عرب میں اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت ممکن ہوگی۔ یہ احساس ہوتے ہی جناب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
بڑی تیزی کے ساتھ فوج کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کی اس طرف نئے سرے سے صف ترتیب قائم کی کہ مہاجرین کو انصار سے اور آپس میں ملے ہوے قبائل کو ایک دوسرےسے الگ کردیا ہر قبیلہ کے افراد کو انہیں میں سے کسی کی قیادت میں منظم کیا تا کہ جنگ میں ہر ایک فریق کی کارکردگی صحیح صحیح اندازہ ہو سکے اور یہ معلوم ہو جائے کہ مسلمان فوج کس محاذ پر کمزور پڑ رہی ہے
دونوں فوجوں میں ایسی سخت اور خونریز جنگ برپا ہوئی کہ اس سے قبل مسلمانوں کی جنگ کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں گزری تھی ۔ مسیلمہ کی قوم نے اس جنگ میں بہت زیادہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ وہ معرکہ مقابلے کی جگہ میں مضبوط چٹانوں کی طرح ڈٹ گئے اور انہوں نے اپنے مقتولین کی کثرت کی کوئی پروا نہیں کی، نہ اس کی وجہ سے انہوں نے اپنے حوصلے پست ہونے دیئے نہ ان کے قدموں میں لغزش ہوئی، مسلمان مجاہدین نے بھی حیرت انگیز بہادری اور بے مثال جوانمردی
کے مظاہرے کئے اور جرأت و شجاعت کے لئے ایسے ایسے شاندار اور بے مثال کارنامے انجام دیئے کہ اگر ان کو یک جا کر کے مرتب کر دیا جائے تو ایک لا جواب رزمیہ ( وہ ذخیرہ جس میں کسی بہادروں کے جنگی کارناموں کا بیان ہو ) وجود میں آ جائے.
یہ ہیں انصار کے علم بردار جناب ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ وہ اپنے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں، کفن پہنتے ہیں اور زمین میں گڑھا کھود کر اس میں پنڈلیوں تک اتر کر کھڑے ہو جاتے ہیں اپنی جگہ پر جم کر لڑ تے ہیں ۔ اپنے قبیلے کے جھنڈے کی حفاظت کرتے ہیں اور ان سے لڑتے شہید ہو جاتے ہیں اور یہ ہیں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بھائی جناب زید بن خطاب رضی اللہ عنہ جو مسلمانوں کو للکار رہے ہیں لوگو! دشمن پر کاری ضرب لگاؤ اور اس کو مارتے کا ٹتے آگے ہی بڑھتے رہو لوگو! میں اس کے بعد اب اس وقت تک کوئی بات نہیں کروں گا جب تک مسلمہ کو شکست نہ ہو جائے یا میں اللہ کی بارگاہ میں حاضر نہ ہو جاوں تا کہ وہاں اپنی معذرت پیش کر سکوں۔ پھر انہوں نے دشمن پر ایک زبردست حملہ کیا اور برابر لڑتے رہے یہاں تک کہ جام شہادت نوش فرمایا اور یہ ہیں جناب ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے مولی جناب سالم رضی اللہ عنہ مہاجرین کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں ہے ۔ ان کے متعلق مہاجرین کو یہ ایک اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں ان کی طرف سے کسی کمزوری یا پسپائی کا اختیار نہ ہو تو انہوں نے کہا کہ ہم کو خطرہ ہے کہ کہیں آپ کی طرف سے دشمن ہمارے اوپر حملہ نہ کریں تو انہوں، نے جواب دیا کہ
اگر میری طرف سے کسی قسم کی کمزوری کا اظہار ہو اور دشمن میری طرف سے تمہارے اوپر حملہ کرنے کی راہ پالے تو میں بدترین حامل قرآن ٹھہروگا یہ کہہ کر وہ دشمن پر ٹوٹ پڑے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے لیکن جوانمردی اور شجاعت کے یہ سارے کارنامے جناب براء بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دلیری و شجاعت کے آگے ہیچ ہیں۔
جب جناب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جنگ کے شعلوں کو تیزی سے بڑھتے ہوئے دیکھا تو جناب براء ابن مالک رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولے انصاری نوجوان ! دشمن پر حملہ کرو ۔
تو جناب براء بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے قبیلے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
انصار کے لوگو! تم میں سے کوئی شخص مدینہ واپس جانے کی بات نہ سوچیں آج کے بعد تمہارے لئے مدینہ نہیں آج تو صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کی رضا کی طلب ہے اور پھر جنت ہے۔ پھر انہوں نے مشرکین پر حملہ کر دیا اس حملے میں ان کے قبیلے کے لوگوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا وہ صفوں کو چیرتے شمشیر زنی کے جوہر دکھاتے اور دشمنوں کی گردنوں پر اس کی تیزی آزماتے رہے یہاں تک کہ مسیلمہ اور اس کے سپاہیوں کے قدم اکھڑ گئے انہوں نے بھاگ کر اس باغ میں پناہ لی جو اس کے بعد تاریخ میں حدیقۃ الموت کے نام سے مشہور ہوا اس لیے کہ اس روز اس باغ میں بہت کثیر تعداد میں قتل ہوئے اور لاشوں کے ڈھیر لگ گئے تھے۔ حدیقۃ الموت ایک بہت وسیع و عریض باغ تھا اور اس کی فصلیں نہایت بلند و بالا تھیں مسیلمہ اور اس کے ہزاروں ہمنواؤں نے اس میں پناہ لینے کے بعد اس کے دروازے اندر سے بند کر لئے اور اس کی اونچی دیواروں کے پیچھے خود کو محفوظ کرلیا اور اندر سے مسلمانوں پر تیروں کی بارش کرنے لگے اس وقت اسلام کے جانباز اور بہادر فرزند جناب براء بن مالک رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور بولے کہ لوگو! مجھے ڈھال پر بٹھا کر نیزوں کے سہارے اوپر اٹھاؤ اور دروازے کے قریب اندر پھینک دو تاکہ یا تو میں شہادت کا درجہ حاصل کر لو یا تمہارے لیے دروازہ کھول دوں۔ جناب براء بن مالک رضی اللہ عنہ نہایت ہلکے پھلکے اور دبلے پتلے تھے وہ فوراً ڈھول پر بیٹھ گئے اور دسیوں نیزوں نے انہیں اوپر اٹھا لیا اور ان کو حدیقۃ الموت کے اندر مسیلمہ کے ہزاروں
فوجیوں کے درمیان پھینک دیا گیا۔ اندر پہنچتے ہی وہ دشمنوں کے اوپر بجلی بن کر گرے۔ وہ دروازے کے پاس برابر لڑتے رہے اور ان کی گردنیں تلوار سے قلم کرتے رہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے دس آدمیوں کوقتل کر دیا اور دروازہ کھول دیا۔ اس وقت ان کے جسم پر تیروں اورتلواروں
کے اسی سے اوپر زخم تھے۔ مسلمانوں نے دیواروں اور دروازوں کے راستے سے حدیقتہ الموت پر دھاوا بول دیا اور اس میں پناہ لینے والے مرتدین کو اپنی تلواروں کی دھار پر رکھ لیا اور تقریبا بیس ہزارمشرکین کو واصل جہنم کرنے کے بعد مسیلمہ تک پہنچ کر اسے بھی فنا کے گھاٹ اتار دیا۔ جناب براء رضی اللہ عنہ کے زخموں کا علاج کرنے کے لئے ان کو خیمے میں اٹھا کر لایا گیا۔ جناب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ دوا علاج کے سلسلے میں ایک ماہ تک ان کے پاس ٹھہر ے رہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی نے ان کو شفاء کامل سے نوازا اور ان کے ہاتھوں سے مسلمانوں کو شاندار فتح عنایت فرمائی۔
جناب براء بن مالک رضی اللہ عنہ اس دولت شہادت کو پانے کی حسین آرز کو ہمیشہ اپنے سینے سے لگائے رہے اور برابر اس کی جستجو میں پریشان رہے جوحديقة الموت کے روز ان کو حاصل ہوتے ہوتے رہ گئی تھی ۔ وہ اپنے اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے سرفراز ہونے کے لئے یکے بعد دیگرے بہت سے معرکوں میں شریک ہوئے اور ان میں خطرناک ترین مواقع پر پہنچ کرلڑتے رہے۔ حتی کہ وہ وقت آ گیا جب مسلمانوں نے ایران کے مشہورشہر” تستر
کو فتح کرنے کے لئے اس کا محاصرہ کر لیا۔ اہل فارس ایک نہایت مستحکم ومضبوط قلع میں پناہ گیر ہو گئے اور مسلمانوں نے اس کو چاروں طرف سے اپنے محاصرہ میں لے لیا۔ جب محاصرہ کا یہ سلسلہ کافی طویل ہو گیا اور اہل ایران کی پریشانیاں حد سے بڑھ گئیں تو وہ قلعہ کی فصیلوں سے لوہے کی زنجریں لٹکانے لگے جن کے سروں سے فولادی نوک دار کیلیں جڑے ہوئے تھے جن کو آگ میں تپا کر انگاروں کی طرح سرخ کر دیا جاتا ۔ وہ نوکیلے اور دیکھتے ہوئے کیلیں مسلمانوں کے جسموں میں دھنس کر رہ جاتے اور ایرانی اوپر سے زنجیروں کے ذریعہ سے ان کو اپنی طرف کھینچ لیتے تھے۔ ان نوکیلے تپتے ہوئے کیلوں میں پھنس کر مسلمان یا تو موت کے گھاٹ اتر جاتے یا قریب الموت ہو جاتے تھے۔ انہی میں سے ایک کیل جناب براء رضی اللہ عنہ کے بھائی جناب انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے جسم میں دھنس گیا۔ یہ دیکھتے ہی براء بن مالک و قلعے کی دیوار کی طرف لپکے اور جھپٹ کر اس زنجیر کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیا جو ان کے بھائی کو اٹھائے لئے جا رہی تھی وہ اس کو اپنے بھائی کے جسم سے نکالنے کی کوشش کرتے رہے. اس کوشش میں ان کے دونوں ہاتھ بری طرح جل گئے مگر انہوں نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی اور اپنے بھائی کو اس کیل کی گرفت سے چھڑائے بغیر زنجیر کو اپنے ہاتھوں سے نہیں چھوڑا۔ بھائی کو نجات دلانے کے بعد وہ زمین پر گر پڑے۔ اس وقت ان کے ہاتھوں کا سارا گوشت جل چکا تھا اور صرف ہڈیاں باقی رہ گئی تھیں۔
اس غزوہ کے موقع پر جناب براء بن مالک رضی اللہ عنہ نے دعا کی تھی کہ اللہ تعالی ان کونعمت شہادت سے بہرہ ور فرمائے ۔ ان کی یہ دعا بارگاہ رب العزت میں شرف قبولیت سے ہمکنار ہوئی اور ان کی وه دیرینہ تمنا پوری ہوگئی۔ جس کو وہ مدتوں سے اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ وہ میدان جنگ میں شہید ہو کر گرے اور دیدار الہی کی بیش بہا اور قابل رشک نعمت سے سرفراز ہو گئے ۔ الله تعالی جناب براء بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ کے چہرے کو جنت میں شگفتہ اور تروتازہ رکھے اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی کرے، ان سے راضی ہو جائے اور ان کو خوش کر دے۔ آمین

نوٹ:  کسی بھی قسم کی غلطی نظر آئے تو ہمیں ضرور اطلاع کریں۔ 

ناشر: eSabaq.com

eSabaq.in@gmail.com
zakariyyaachalpuri9008@gmail.com

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔