بس یہی ہے کہ کچھ نہیں ہے

      *بس یہی ہے کہ کچھ نہیں ہے___!!!!* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*

      *فضائیں گردش کریں، سمندر سے بھانپ بنائیں، بوجھل ہوکر سفر کریں، سائبان بن جائیں، ہوائیں سرسراتی جائیں، مٹکتی اور اٹکھیلیاں کرتی جائیں، اور پھر برسنے کو قریب ہیں، جھم جھم آسمان سے گرنے کو بیتاب ہیں، رس رس کر اور دھاریاں بنا کر روئے فلک سے روئے ارض کو چومنے والی ہیں، پیاسی زمین کی پیاس بجھنے کو ہے، سوکھے پڑے کھیت لہلہانے کو ہیں، کسانوں میں ہلچل ہے، بنجر کو سبزہ کی للک ہے، پھر یکا یک طوفان آتا ہے، بجلیاں گرجتی ہیں، انتظار کی شدت ہے، نگاہیں اٹھی ہوئی ہیں، دل لٹکا ہوا ہے، اور لگتا ہے کچھ تو ہے؛ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ کچھ نہیں ہے_ بادل اب نڈھال ہے، بہار آکر رہ گئی، خزاں دور ہوتے ہوتے رہ گئی، انقلاب ہوکر رہ گیا، شور برپا ہو کر رہ گیا، دل بجھ گئے، جگر کٹ گئے، اعضاء شل ہوگئے، خیال زخم خوردہ ہوگئے، فکریں ٹوٹ گئیں، اور پورا کا پورا جسم حواس باختہ ہوگیا، اب کیا رہ گیا__؟*       بس آنکھوں سے موتی کا جھڑنا اور دل کا خون یادیں بن کر ٹپکنا، غموں کی بستی، پچھلی باتیں، عہد رفتہ کے قصے، وہ بہار کے رنگ، خوشیوں کا آغاز، وہ گل اور گل گلزار، ٹہنیاں روتی ہیں، راہیں غمگین ہیں، جو دیکھے ہے ترس کھائے ہے، جو سنے ہے سنتا جائے ہے، دامن تر کرتا جائے ہے، خود بھی روئے ہے اور دوسروں کو بھی رلائے ہے، اف__ کیا تھا اور کیا ہوگیا_؟ کے فقرے گنگنائے ہے، کسے جواب دیں، کیا جواب دیں؟ محبت کی شہنائی بجتے بجتے رک گئی ہو، شمع روشن ہوتے ہوتے بجھ گئی ہو اور داستان دل بکھر گیا ہو تو کوئی کیا کہے گا_؟ دنیا کی ویرانی ہی اگر مقدر رہ گئی ہو_ تقدیر کا کھوٹا سکہ ہی نصیب کا حصہ ہو گیا، دل کا دل سے دور ہوجانا ہی نصیبہ ٹھہرا ہو_ اور یونہی وحشت اور خوفناکی مین جینے کا مقدر پاگیا ہو تو اب کیا کیجئے_؟ مرتا کیا نہ کرتا_ مرتے جائے اور جیتے جائیے_ زندگی کی غلطی اب زندگی ہے تو پھر زندگی کہاں ہے، اک مصالحت اور کمپرومائز کے سوا کیا بنا_؟ نگاہیں اٹھتی ہیں پتھرا جاتی ہیں، مسکراہٹیں لب چھو کر گزر جاتی ہیں؛ لیکن مسکان کی اجازت نہیں ملتی_؟ زندگی ہی جب طعنہ بن جائے اور زخم کا خزانہ بن جائے، تو کیا درد اور پھر کیا دوا__!!!*      *دنیا میں سب کچھ ہے لیکن سچ پوچھو تو کچھ نہیں_ بے دل انسان کیلئے دنیا صرف تماشہ ہے، انسان اک کٹھپتلی ہے، جس کی ڈور اس کے پاس ہے ہی نہیں، شیکسپیئر کی تھیوری کیا غلط ہے کہ دنیا ایک اسٹیج ہے جہاں پر انسان ڈرامہ کرتا ہے، روتا ہے، گاتا ہے، ہنستا ہے، مسکراتا ہے؛ لیکن ان سب کی ڈور کسی اور کے پاس ہے، وہی اس کا خالق ہے، وہ اپنے حساب ہر تصویر کو فٹ کرتا ہے، ہر کردار کو بنتا ہے، کبھی کبھی یونہی جبری زندگی منجمد، ساکت و ساکن لگتی ہے، جو ہوتا ہے اس سے کوئی تعلق نہیں، جس سے تعلق ہے اس سے کوئی واسطہ نہیں، دل میں خون ہے، گوشت کا محض ایک حصہ ہے، چنانچہ اس میں درد دل فقدان ہے، جگر پارہ پارہ ہو رہا ہے، چھلنی چھلنی ہورہا ہے؛ لیکن کوئی مداوا نہیں۔ قصہ زندگی شاید اتنی ہی ہے کہ اپنی ایک خاص مدت پوری کیجئے! قید حیات میں رہئے اور پھر اس قید خانہ سے ایک وقت مقررہ پر آزادی پا جائیے، اگر انسان کے دل میں یہ بس جائے کہ دنیا ایک جیل خانہ ہے، تو یقینا یہ دل کی ویرانی اور بیگانگی بھی جاتی رہے گی، جو آپ کے پاس ہے وہ خدا کا ہے، جو نہیں ہے وہ کبھی آپ کا تھا ہی نہیں، غموں کا گھونٹ سرمایہ حیات ہے اور خوشیوں کے پل زندگی کا ایک منافقانہ چہرا ہے، امیدیں وابستہ نہ رکھئے! بات بات پر تسلی سے خود کو بہلائیے_! حقیقت کا سامنا کیجئے_! زندگی سہل ہوتی جائے گی، اور دل سے صرف دل کا کام لیجئے زندگی نرم ہوجائے گی۔*

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔