بے اعتدالیوں پر نوٹس لینا ضروری ہے *محمد قمرالزماں ندوی* *مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*
*نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم* کی زندگی ایمان والوں کے لئے سو فیصد اسوہ، نمونہ اور آدئیل ہے بلکہ پوری انسانیت کے لئے رول ماڈل ہے۔ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* کی سیرت اور زندگی میں اس پہلو سے بھی بھر پور رہنمائی ملتی ہے کہ جب بھی *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے اپنے ساتھیوں میں یعنی صحابہ کرام کی زندگی اور طرز عمل میں کبھی غلو یا افراط و تفریط یا بے اعتدالی محسوس کیا تو فورا اس پر تنبیہ فرمائ ،اعتدال اور میانہ روی کی تعلیم دی اور حکمت و محبت کے ساتھ ان کو سمجایا ۔ ایک موقع پر ایک دیہاتی صحابی حضرت خلاد بن رافع رضی اللہ عنہ مسجد پہنچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ساتھ محو گفتگو تھے، خلاد بن رافع بعد میں آئے تھے نماز ہوچکی تھی انہوں نے اپنی نماز جلدی جلدی پڑھنی شروع کی اور قومہ ، جلسہ اور اعتدال و طمانیت کا خیال نہیں رکھا، نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے اور سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس طرح (یعنی تعدیل ارکان سے خالی بغیر خشوع و خضوع کے ساتھ) نماز پڑھتے دیکھ لیا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ *قم فصل فانک لم تصل* ۔ یعنی جاو اور جاکر دوبارہ نماز پڑھو ،،کیوں کہ تم نے تعدیل ارکان کی رعایت کے ساتھ نماز نہیں پڑھی، چنانچہ وہ گئے اور انہوں نے دوبارہ نماز پڑھی، لیکن اس مرتبہ بھی کچھ کمی رہ گئ ،اس لئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز کے لئے واپس بھیجا ،مگر اس بار بھی وہ منشاء نبوت کے مطابق نماز نہ ادا کرسکے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ کہا *ارجع فصل فانک لم تصل* تو انہوں نے عرض کیا *والذی بعثک بالحق مااحسن غیرہ فعلمنی* ،اس ذات کی قسم جس نے آپکو نبی برحق بنا کر بھیجا ،اس سے اچھی طرح اور کیا مجھ سے ادا ہوسکتا ہے؟ براہ کرم آپ ہی مجھے سکھلا دیجئے اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز سکھائ اور اچھی طرح قومہ،جلسہ اور طمانیت و اعتدال وغیرہ کے متعلق وضاحت فرمائ ۔ اس حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے امام ابو یوسف رح نے یہ مسئلہ اخذ کیا کہ بغیر تعدیل ارکان ،جلسہ ،قومہ اور طمانیت کے نماز صحیح نہیں ہوتی ۔ لیکن ان کے برعکس امام ابو حنیفہ رح اور امام محمد رح کا مسلک یہ کہ نماز تو ہوگئ تھی کیوں کہ رکوع اور سجدہ پایا گیا اس لئے کہ لغت کے اعتبار سے رکوع انحناء یعنی جھکنے کا نام ہے اور سجدہ انخفاض یعنی پست ہو جانے کا نام ہے ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خلاد بن رافع رضی اللہ عنہ کی نماز کو بار بار اس لئے دھروایا تاکہ کسی صحابی کے بارے میں یہ ریکارڈ محفوظ نہ ہوسکے کہ ان کی نماز اعتدال وقار اور طمانیت سے خالی بھی رہی تھی، یہ امت کا سب سے کریم اور وی آئ پی طبقہ تھا ان کو رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کا پروانہ مل چکا تھا وہ لوگ آنے والی نسلوں کے لئے نمونہ اور آدئیل تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ادنی فروگذاشت اور بھول و چوک اور غفلت پر گرفت کرلی ۔ ہدایہ کہ شارحین نے اس مقام پر یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت خلاد دور دراز اور دیہات سے آئے تھے اور دیدار نبوی کے لئے مشتاق و بے چین تھے اس لئے انہوں نے تعدیل ارکان پر خاص توجہ دئے بغیر نماز پڑھ لی اور فورا خدمت اقدس میں حاضر ہوگئے، جس پر آپ نے یہ سمجھ کر ان سے دوبارہ نماز پڑھوائ کہ اللہ کا مقام و مرتبہ اور توحید کا رتبہ اور درجہ مجھ سے یعنی رسالت سے بہت ہی بلند و بالا ہے ۔ جائیے پہلے آپ اپنے رب سے اطمنان کے ساتھ مناجات کیجئے پھر آکر مجھ سے ملاقات کیجئے ۔ اس واقعہ سے اندازہ گایا جاسکتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر حساس اور متفکر رہتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم خود بھی دین و شریعت میں بے اعتدالی اور قرآن و حدیث کا غلط معنی اور مفہوم کو برداشت نہیں کرتے تھے اور فورا اصلاح کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا جب آخری وقت آیا تو انتقال سے پہلے انہوں نے گھر والوں سے خواہش ظاہر کی کہ ان کو نئے کپڑے اور جوڑے پہنایا جائے ان کی اس عجیب و غریب خواہش پر گھر والوں نے اس کی وجہ اور سبب دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ حدیث میں آتا ہے کہ جو جس کپڑے میں وفات پاتا ہے قیامت کے دن اسی کپڑے میں وہ اٹھایا جائے گا اس لئے میں بھی چاہتا ہوں کہ قیامت کے دن نئے کپڑے میں اٹھایا جاوں ۔ وہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے براہ راست استفادہ کرنے والے ایک صحابی موجود تھے وہ فورا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور حقیقت حال بیان کر دیا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ انہوں نے حدیث کا مطلب غلط سمجھا ہے ۔ جاو بتا دو کہ یہاں لباس سے مراد اعمال و افعال ہیں ۔ یعنی جن کے جیسے اعمال ہوں گے انہیں اعمال کے ساتھ ان کو اٹھایا جائے گا ۔ اس طرح ایک بڑی غلط فہمی کا ازالہ ہوا اور حدیث کا صحیح مفہوم سے ان کو واقفیت ہوئ ۔ *ہمارے* اسلاف کا بھی ہمیشہ یہی روش اور طریقہ رہا کہ دین کی تعبیر اور تفہیم میں جن سے بھی کوتاہی ہوئی یا اس کی تعبیر اور مفہوم میں خواہ مخواہ جدت اور ندرت پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو اس بے اعتدالی پر نقد کیا گیا، نوٹس لی گئ اور استدارک و محاکمہ کیا گیا اس سلسلہ میں ہم *مولانا مناظر احسن گیلانی رح* کی ایک تحریر و اقتباس کو پیش کریں گے جس میں انہوں *مولانا عبید اللہ سندھی* کی بعض تسامحات و تفردات اور نظریات پر نقد کیا ہے اور جن میں بقول ان کے توازن کی بڑی کمی تھی اور جو بڑی غلط فہمیوں اور مغالطوں کا باعث ہوسکتے تھے ۔ *حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی رح* کا شمار ہندوستان کے انتہائی موقر ،معتبر ممتاز اور عبقری علماء میں ہوتا ہے ۔ علامہ سید سلیمان ندوی رح ان کو *سلطان القلم* کہا کرتے تھے ۔ *مولانا گیلانی رح* کی تحریروں میں جہاں ایک طرف وسعت و توسع تھا وہیں مولانا رح عقائد و نصوص اور حدود دین اور حدود شریعت کے سلسلے میں انتہائی حساس اور غیرت مند تھے دین اور شریعت کے سلسلے میں ادنی بے اعتدالی ،غلط اجتھاد اور آزاد خیالی کو برداشت نہیں کرتے تھے اور یہ فیض تھا دار العلوم دیوبند کا اور دینی تعلیم اور مخلص و باکمال اساتذہ کی تعلیم و تربیت کا، مولانا مرحوم *علامہ اقبال مرحوم* کے اس شعر کے مصداق تھے کہ
*کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق* *میں زہر ھلاھل کو کبھی کہہ نہ سکا قند*
*حضرت مولانا علی میاں ندوی رح* نے *مولانا گیلانی رح* کی جرآت، حق گوئ و بے باکی اور صاف گوئ کے بارے میں *پرانے چراغ جلد اول* میں جو کچھ لکھا ہے اس میں آج کے داعیان دین مبلغین اسلام اور دین و مذہب کےخادموں اور ذمہ داروں کے لئے قیمتی اور بیش بہا درس و نصیحت،عبرت و موعظت اور پیغام عمل ہے بلکہ ایک تازیانئہ عبرت ہے ۔ *حضرت مولانا علی میاں ندوی رح* لکھتے ہیں :
*لیکن مولانا گیلانی رحمة الله عليه کا یہ توسع اور ان کی تمام تر عصریت و حکمت ،تحریر و تعبیر اور استدلال ہی میں تھی،عقائد و نصوص اور حدود دین کے بارے میں وہ اتنے ہی متصلب و متشدد اور ویسے ہی غیور و حساس واقع ہوئے تھے۔ جیسے ان کے اساتذہ و شیوخ کرام اور علمائے حق ،جب کبھی وہ تحریف دین کی کوئ کوشش یا دین کی ترجمانی میں کوئ بے اعتدالی یا آزاد خیالی یا غلط اجتھاد دیکھتے تو برداشت نہ کرسکتے ،مولانا سندھی( عبید اللہ) مرحوم جب ہندوستان واپس آئے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان مرحوم نے بعض ایسے خیالات اور افکار کا اظہار کرنا شروع کیا جن میں توازن کی بڑی کمی تھی،اور جو بڑی غلط فہمیوں اور مغالطوں کا باعث ہو سکتے تھے ان کے کسی مضمون میں قرآن و حدیث و فقہ سے متعلق بعض ایسے نطریات و ۰۰ تحقیقات ۰۰ تھے ،جو جمہور اہل اسلام کے عقیدہ سے مختلف تھے ،یا ان کی تعبیر میں کوتاہی تھی ،مولانا (گیلانی) نے مدرسی و جماعتی عصبیت سے بالکل بے نیاز و بالا تر ہوکر اس مقالہ کی تردید میں ایک پر زور مقالہ لکھا ،بعض اہل علم معاصرین مولانا عبیداللہ صاحب مرحوم سے ذاتی واقفیت کی بنا پر ان کو شدید مخالفت کا مستحق نہیں سمجھتے تھے ،انھوں نے مولانا کی طرف سے کچھ صفائ پیش کی اور اپنے ذاتی معلومات کی بنا پر ان کے ساتھ نرمی اور حسن ظن کی تلقین کی، مولانا نے اس موقع پر اپنے موقف کی حمایت اور مولانا سندھی مرحوم سے اظہار اختلاف اور ان کے افکار و آراء کی کھلی تنقید و تردید کو دین کی حمایت کا تقاضا سمجھا ، مندرجہ ذیل اقتباس سے ان کے دینی جذبہ اور تصلب فی الدین کا اندازہ کیا جاسکتا ہے* ۔ *میرا تو مقصود ہی اس سے ۰۰ حدی را تیز ترمی خواں چو ذوق نغمہ کم یابی۰۰ہے یہی بتانا چاہتا تھا کہ خواہ وہ ہماری جماعت ہی کا آدمی کیوں نہ ہو،لوگوں میں اس کی بڑائ جس حد تک مسلم ہو لیکن حق کا قدم جب درمیان میں آئے گا تو پھر کسی کا کچھ لحاظ نہیں کیا جائے گا خواہ وہ کوئ ہو ۰۰ ولو ان فاطمة بنت محمد اعاذنا اللہ تعالی سرقت لقطعت یدھا۔۔ ہمارے دین کا امتیازی نشان ہے،سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا مرنے سے پہلے العیاذ باللہ میں اس کا قائل ہوجاوں گا کہ ابو حنیفہ رح کی فقہ عجمیوں کے قانون سے متاثر ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سر زمین عرب کے لئے خاص تاریخی دور کی اصلاح کی حد تک محدود ہے،قرآنی قوانین کی حیثیت صرف مثالی باتوں کی ہے ،بخاری و مسلم، انجیل و توراة جیسی محرف کتابوں کی ہم وزن ہیں، العیاذ باللہ کیا میں اپنی خودی کے اعتماد کو خدا اعتمادی سمھجنے لگوں،قبل اس کے کہ میرے اندر خدانخواستہ اس قسم کے خیالات کی صداقت واضح ہو، اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس دنیا سے اٹھا لے* (پرانے چراغ جلد اول صفحہ ۸۶/۸۷) *دین* اور شریعت کے معاملہ میں ایک مومن کو اتنا متحمس ،غیرت مند اور حساس ہونا چاہیے لیکن اس کی رعایت بھی ضروری ہے کہ ہمارا نقد ہمارا محاکمہ اور استدارک حکمت و موعظت اور جدال احسن کے ساتھ ہو ۔کسی جماعتی یا ادارتی عصبیت کا اور نفسانیت کا اس میں دخل نہیں ہو۔
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔