آہ حضرت مولانا برھان الدین سنبھلی رح

*مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے*

*آہ حضرت مولانا برھان الدین سنبھلی رح*

*محمد قمرالزماں ندوی* *مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*

*آج* ( ۱۷/ جنوری ۲۰۲۰ء بروز جمعہ) عصر کی نماز سے فارغ ہوکر جیسے ہی مسجد سے گھر (فیملی کواٹر) پہنچا تو بذریعہ واٹسیپ یہ جانکاہ خبر ملی کہ استاذ محترم *حضرت مولانا برھان الدین صاحب سنبھلی* اس دار فانی سے دار باقی کی طرف کوچ کر گئے ۔ ( انا للہ و انا الیہ راجعون) *جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں*

*بلا شبہ* یہ خبر علمی حلقہ کے لئے اور خاص طور پر ندوی برادران کے لئے افسوس ناک ہے ۔ مولانا سنبھلی رح کا شمار بر صغیر کے صف اول کے لوگوں میں ہوتا تھا، آپ علمی حلقہ اور طبقئہ علماء میں قوت تحریر، وسعت مطالعہ دقت نظر اور سنجیدگئ قلم کے اعتبار سے ایک خاص مقام و رتبہ رکھتے تھے ۔ آپ کا علمی فیض ہندوستان ہی نہیں، عرب تک پہنچا، وہاں کے اہل علم نے بھی آپ کے علمی مقالات سے استفادہ کیا۔ اللہ تعالٰی نے حسن سیرت اور حسن صورت دونوں سے نوازا تھا ۔ علم و عمل کے جامع تھے ۔تفسیر حدیث اور فقہ پر گہری اور عمیق نظر تھی۔ رسوخ فی العلم کی جملہ شرائط آپ کے اندر بدرجہ اتم پائ جاتی تھیں ۔ فکر اسلامی حکمت دین اور اسرار شریعت سے گہری واقفیت تھی، دوران درس بڑے بلیغ اور لطیف علمی نکات بیان کرتے تھے ۔ آپ کے علمی فیض سے ایک بڑی تعداد( کثیر تعداد) نے استفادہ کیا۔ ستر کی دہائی کے بعد کے جتنے بھی ندوی فضلاء ہیں، آپ بلا واسطہ یا بالواسطہ سب کے استاد ہیں ۔ مولانا سنبھلی رح کی پیدائش ۱۹۳۷ء میں سنبھل مراد آباد میں ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم ،حفظ و قرآت بشمول ابتدائی عربی تعلیم سنبھل میں ہوئی ۔ اعلی تعلیم کے لئے دار العلوم دیوبند گئے اور وہاں سے ۱۹۵۷ء میں آپ کی فراغت ہوئ اور بڑے امتیازی نمبرات کے ساتھ سند فراغت حاصل کی،آپ مولانا مدنی رح کے ارشد تلامذہ میں سے تھے ۔ فراغت کے بعد سالہا سال مدرسہ فتح پوری میں تدریس کی خدمت انجام دی ۱۹۷۰ء کے قریب میں حضرت مولانا علی میاں ندوی رح کی دعوت و ترغیب پر آپ دار العلوم ندوة العلماء لکھنئو تشریف لائے اور تدریسی خدمات سے اس طرح وابستہ ہوئے کہ پھر آپ یہیں کے ہوکر رہ گئے ۔ حضرت مولانا علی میاں ندوی رح سے گہرے روابط و تعلقات تھے اور ان کو اپنا محسن، مربی اور استاد سمجھتے تھے ۔ دارالعلوم ندوة العلماء میں آپ نے حدیث و تفسیر اور فقہ کی اونچی کتابوں کی تدریس کا فریضہ انجام دیا۔ آپ کی علمی شان و مقام اور امتیاز کو دیکھ کر آپ کو مجلس تحقیقات شرعیہ کا ناظم بھی بنایا گیا ۔ دوران تدریس ہی رویت ہلال پر آپ کا فاضلانہ رسالہ شائع ہوا ۔ اور اس نے اہل علم و اہل نظر سے داد تحسین حاصل کی ۔ *معاشرتی مسائل دین فطرت کی روشنی میں* یہ کتاب آپ کی شاہکار تصنیف ہے ۔ اسلام کے معاشرتی مسائل میں نکاح و طلاق اور وراثت کے متعلق بعض قوانین کو تجدد پسندوں نے عرصہ سے اعتراضات کا نشانہ بنا رکھا تھا مولانا نے اس کتاب میں ان کے اعتراضات کا جائزہ لیا ہے اور ان کی غلطیوں اور کمزوریوں کو واضح کیا ہے ۔ نکاح کے اسلامی طریقہ کا دوسرے مذاہب سے موازنہ کرکے اس کی برتری و فوقیت ثابت کیا ہے ۔ مولانا سنبھلی رح کی ایک اور اہم کتاب *متاع علم و فکر* ہے جو مولانا سنبھلی رح کی علمی و تحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے ۔ مولانا کی حیات و خدمات پر انشاء اللہ تفصیلی تحریر اولین فرصت میں تحریر کروں گا اور مولانا کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالوں گا، ابھی عجلت میں یہ چند بے ترتیب سی تحریر لکھ دیا ہوں ۔ مولانا مرحوم سے مجھے دو تین سال استفادہ کا موقع ملا ہے ۔ ابو داؤد شریف حجة اللہ البالغہ اور تخصص فی الفقہ میں بعض اور کتابیں پڑھنے کا موقع ملا ہے ۔ مولانا سنبھلی رح متعدد اعلی عہدے اور مقام پر فائز رہے، آپ مسلم پرسنل لا بورڈ کے اساسی ممبر تھے قیام کے وقت ہی سے آپ اس میں شریک رہے اور فعالیت کے ساتھ اس پلیٹ فارم سے آپ نے ملت کی خدمت کی ۔ اسلامک فقہ اکیڈمی کے آپ نائب صدر تھے ۔ مجلس تحقیقات شرعیہ کے بھی آپ ناظم تھے ۔ دار القضا اتر پردیش کے صدر بھی بھی رہے ۔ آپ نے کئی ممالک کے دینی و علمی سفر کئے ، جن میں امریکہ کا ایک طویل سفر بھی ہے ۔ اللہ تعالٰی مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے نیز ندوہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے آمین

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔