*داعی اور قائد و رہبر کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے*
*محمد قمرالزماں ندوی* *مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*
*ہندوستان* کے ایک نئے تعلیمی نظام کے مشہور داعی و مبلغ نے جب اپنی جدوجہد اور کوششوں کا آغاز کیا ۔ اور بدلتے ہندوستان میں ایک نئے نظام تعلیم کو برپا کرنے کی سعی و کوشش کی بلکہ ٹھان لی تو ایک بڑا طبقہ اصحاب علم کا (اور اصحاب ثروت کا بھی جو مسلمانوں کے علمی اور دینی مسائل سے دلچسپی رکھتے تھے اور اس کے لئے دامے درمے مدد کیا کرتے تھے) ان کا مخالف تھا ۔ ان کے بہت سے دینی اور شرعی نظریات یقینا ایسے تھے کہ سو فیصد اس پر نقد اور محاسبہ و محاکمہ کی گنجائش تھی ۔ لیکن وہ اپنے تعلیمی نظام اور نظریہ میں اور اس کو برپا کرنے میں سو فیصد مخلص اور وفا دار تھے ،وہ ہندوستان میں تعلیمی انقلاب کے ذریعہ ہی مسلمانوں کے روشن مستقبل کی امید رکھتے تھے اور یقینا اس پہلو سے انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے جو کام کیا اور اپنے اس نظام تعلیم کے ذریعہ مسلمانوں کے علمی تمدنی اخلاقی اور معاشی معیار کو جس طرح انہوں نے بلند کیا ہندوستان میں کوئ دوسرا سوائے مولانا قاسم نانوتوی رح کے نظر نہیں آتا ۔ *قارئین باتمکین !* میرے اشارے کا مشار الیہ سمجھ گئے ہوں گے ۔ انہوں نے اپنے پروگرام اور تعلیمی مشن کے لئے مالی تعاون کے سلسلہ میں بااثر و اصحاب ثروت اور مخصوص و مانند لوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا ،ایک بڑی ریاست کے نواب صاحب سے (جو اپنے زمانے کے ایک بڑے صاحب نسبت بزرگ اور ولی سے تعلق رکھتے تھے بلکہ ان کے مرید و مسترشد بھے تھے اور اپنے اندر دینی جذبہ رکھتے تھے خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کا حصہ بھی لیتے تھے ) بھی انہوں نے ملاقات کی ،آنے کا مقصد و غرض و غایت اور پروگرام بتایا ،نواب صاحب سے اس عظیم مشن کی تکمیل میں تعاون کی درخواست کی،نواب صاحب ان کے عقائد و نظریات اور ان کے اس جدید نظام تعلیم کے سخت مخالفین میں سے تھے ، اور ان کے نظرئہ تعلیم کو قوم مسلم کے لئے کسی طرح مفید نہیں سمجھتے تھے ۔ نواب صاحب نے سامنے تو کچھ نہیں کہا ،طرح دے گئے اور یہ وعدہ کرکے ان کو رخصت کیا کہ میں بذریعہ ڈاک جو ہوسکے گا ، آپ کی خدمت میں اس مشن کی تکمیل کے لئے روانہ کر دوں گا، چند دنوں بعد ڈاک میں نواب صاحب کی طرف سے ایک صندوقچی ملی ،سمجھے کہ کوئ ہدیہ ارسال کیا گیا ہے لیکن جب کھولا تو اس میں پرانے جوتوں کا ایک جوڑا تھا۔ یہ نواب صاحب کی طرف سے ان پر طنز تھا ،لیکن انہوں نے اس طنز کا کوئ اثر نہیں لیا ، ان کے اس منفی عمل اور اقدام کو بھی مثبت انداز میں لیا ،جوتوں کا وہ جوڑا ساتھیوں مخلصوں اور مشیروں کو جمع کرکے نواب صاحب کے جوتے کا حوالہ دے کر قیمتی داموں میں فروخت کیا بلکہ نیلام کیا اور آپ کے معاونین اور ساتھیوں میں سے کسی نے اس کی قیمت اس زمانے میں دو سو روپئے لگایا ۔ اپنے وقت کے اس عظیم اسکالر اور مفکر نے اس رقم کی رسید کاٹ کر نواب صاحب کو بھیج دی ساتھ ہی شکریہ کا خط لکھا اور اس تعاون اور عطیہ کو اب تک ملنے والا سب سے عظیم عطیہ اور بڑا تعاون بتایا ۔ نواب صاحب ان کے مقصد کے ساتھ اس قدر لگن کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور اس وقت کے پچیس ہزار کی خطیر رقم ان کے اس تعلیمی مشن اور پروگرام کے لئے دیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج وہ ادارہ ہندوستان ہی نہیں بکہ بر صغیر اور دنیا کی ایک عظیم مسلم یونیورسٹی ہے جہاں ہزاروں تشنگان علم اپنی علمی پیاس کو بجھا رہے ہیں ۔ یہ احسان ہے اس محسن قوم و ملت کا جنھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ۔ اور اپنی اس قربانی کا دنیا والوں سے کوئ صلہ نہیں لیا ۔ مشہور ادیب اور مورخ و نقاد *علی طنطاوی مرحوم* نے اپنی ذکریات میں بھی اس واقعہ کو اختصار کے ساتھ لکھا ہے ۔ میں نے متعدد کتابوں اور رسائل و جرائد میں اس واقعہ کو پڑھا ہے پرانی یادداشت پر اس واقعہ کو میں نے میں لکھا ہے ۔ اس لئے ممکن ہے تعبیر اور جملہ کا کچھ فرق ہوجائے لیکن مفہوم و ماحصل کو میں نے پوری دیانت کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے تصویر کا ایک دوسرا رخ دیکھئے کہ اسی ہندوستان کے عظیم عالم اور ایک مشہور سلسلہ کے ایک بڑے بزرگ نے ایک عظیم جامعہ کی بنیاد ڈالی جو قدیم صالح اور جدید نافع کا سنگم ہو لوگوں کو بہت امیدیں وابستہ تھیں اس عظیم جامعہ کے منصوبے اور پلانگ سے اور جب تک وہ بانئی جامعہ زندہ رہے ان کی تڑپ اور بے مثال جد و جہد دیکھنے کے قابل تھی لیکن ان کے انتقال کے بعد جب ان کے نائبین اور جانشینوں میں مقصد کے تئیں وہ شوق ،ٹرپ،لگن اور جذبہ نہیں رہا تعلیم کو ایک مشن نہیں سمجھا اور راہ کے تقاضے پورے نہیں کئے تعلیمی سرگرمیاں دیگر امور اور شعبوں میں منتشر ہوگئیں تو دھیرے دھیرے بہار میں کمی آگئ میں تو یہ نہیں کہوں گا کہ خزاں کا دور شروع ہوگیا لیکن جو اٹھان عروج اور ترقی تھی اور جو خواب تھا بانئی جامعہ کا وہ خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوا ۔ ہندوستان کے اس عظیم سپوت اور معمار سے ہم سب کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے خاص طور پر اس پہلو سے کہ منفی چیزوں سے مثبت نتائج اخذ کریں اور عقل و شعور کو ہمیشہ جذبات پر غالب رکھیں ۔ سرسید مرحوم کے اس واقعہ سے اور ان کی اس حکمت عملی سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ایک داعی کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے اور حالات اور افراد سے شکوہ شکایت کے بجائے حسن تدبیر اور حکمت و دانائی سے کام لینا چاہیے ۔ شر میں بھی خیر کا پہلو نکالنا چاہئے ۔ اپنی فراست و ذہانت اور فہم و ادراک سے سامنے والے کے دل کو جیتنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے ۔ ہماری ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم بہت جلدی مایوس ہوجاتے ہیں ۔ حالات و مسائل کا رونا رونے لگتے ہیں ۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ انسان کمزور اور جلد باز واقع ہوا ہے *و خلق الانسان ضعیفا* وہ دنیا میں ہر کام کا فوری نفع اور نتیجہ دیکھنا چاہتا ہے ۔ اس سلسلہ میں چند باتیں ہمارے ذھن میں رہنی چاہیے ۔ دعوتی عمل میں مایوسی مختلف راہوں سے آتی ہے ۔ انسان سمجھتا ہے کہ میرے تبلیغ میری دعوت کا اثر نہیں ہوا ۔ لوگوں نے ہمارے دینی منصوبے عزائم اور پلانگ کی قدر نہیں کی اور پھر مایوس ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور عمل سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں ۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارا کام تبلیغ اور تذکیر کا ہے ہمارا کام دلوں کے بدلنے اور پھیرنے کا نہیں ہے ۔ *و ما علینا الا البلاغ المبین* ہدایت اور توفیق یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ جب انسان نتائج کو اپنی ذمہ داری سمجھنے لگے تو مایوسی اور شکوہ کا دروازہ کھلنے لگتا ہے ۔ انسانی جذبات میں مد و جزر ایک حقیقت ہے ۔ انسان کبھی ہٹ دھرم ہوتا ہے تو کبھی نرم مزاج ۔ کبھی تعصب اور ذھنی تنگی قبول حق میں رکاوٹ بنتے ہیں تو کبھی معاشی مفادات تو کبھی عزت و سرداری ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قبول حق میں ذرا سی دیر نہ لگی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کشمکش چھ سال میں ختم ہوئی، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے حجابات ہٹنے میں بیس سال لگ گئے ۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کرنے میں تقریبا اکیس سال لئے ۔ یہ حقیت ہے کہ فتح و نصرت اور کامیابی میں دیری سے مایوسی آنے لگتی ہے لیکن ایک داعی اور قائد کو مضبوط ارادے اور یقین کامل کا حامل ہونا چاہیے ۔ اور یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اجتماعی فتح و نصرت کا نزول اس وقت ہوتا ہے جب انسانوں کا ایک معقول گروہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنے مادی ۔ ذھنی اور جسمانی صلاحیتوں کو اللہ کے حکم کے مطابق اللہ کے دین کے غلبہ کے لئے اور قوم و ملت کی تعمیر و ترقی کے لئے کھپانے کا حق ادا کر دیتا ہے ۔
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔