دارالعلوم دیوبند میں حدیث کے طالب علم کا ایک حیرت انگیز اور عبرت انگیز واقعہ
حضرت علامہ شمس الحق افغانی رحمہ اللہ علیہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ دارالعلوم دیوبند میں حدیث شریف کا ایک طالب علم فوت ھوگیا، جو افغانستان کا رھنے والا تھا، جنازہ پڑھکر دفنایا گیا، اور اسکے ورثاء کو خط بھیجا، فاصلہ لمبا تھا، خط چھ ماہ بعد پہنچا ۔۔ اسکی عزیز و اقارب آگئے ۔۔ دارالعلوم دیوبند کے اس وقت کے مھتمم حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ علیہ سے ملاقات ھوئی، تو ورثاء کہنے لگے ھم میت کو نکال کر واپس افغانستان لے جانا چاھتے ھیں۔ حضرت مھتمم صاحب نے بہت سمجھایا، مگر وہ بضد تھے ۔۔ بات نھیں مان رھے تھے تو مھتمم صاحب نے انکو میرے پاس بھیجا میں نے بھی سمجھایا وہ کہنے لگے: یا تو ھم میت لے جائیں گے یا ھمارا سارا خاندان یہاں منتقل ھوجائے گا ۔۔۔ اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں۔ میں نے کہا جاؤ !!! خدا کے بندو ۔۔۔ تم خدا کا راز ظاھر کروگے ۔۔۔ جب قبر کھودی گئی تو چھ ماہ بعد بھی میت اپنے کفن میں صحیح و سالم پڑی تھی، اور بہت اعلی خوشبو آرھی تھی، میت صندوق میں رکھدی گئی، اور احترام ایک طالب علم ان کے ساتھ بھیج دیا گیا ۔ لاھور کے راستے سے پیشاور جانا تھا ۔۔ پشاور کے ریلوے اسٹیشن پر پولیس اور ایکسائز نے چھاپا مارا، کہا: صندوق میں میت نھیں بلکہ کستوری (مشک) ھے جو سسمگل ھورھی ھے، جب صندوق کو پولیس نے کھولا تو اسمیں حدیث پاک کا طالب علم تھا اور اس سے خوشبو آرھی تھی ۔ اللہ اکبرا کبیرا ۔۔ یہ حال تو حدیث کے طالب علم کا تھا، اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے ! ۔۔۔ اسی دن پیشاور کے ایک نواب کے بیٹے کی لاش انگلینڈ سے ایئرپورٹ پہنچی، جو انگلینڈ میں انگریزی تعلیم حاصل کرنے گیا ھوا تھا اور فوت ھوئے اس کو تیسرا دن تھا، مگر عفونت اور بدبو اتنی تھی کہ رشتے دار بھی چار پائی کے قریب نہیں آتے تھے، نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگوں کو اجرت دیکر چارپائی لے جائی گئی تھی تاکہ اس کو دفنایا جائے ۔۔۔ حضرت علامہ افغانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ لوگوں نے اس واقعہ سے بڑی عبرت حاصل کی تھی ۔۔۔ (بحوالہ: خطبات افغانی ص 432)
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔