مناسب ہے سمیٹو دامن دست دعا عاجز

*مناسب ہے سمیٹو دامن دست دعا عاجز__*

مناسب ہے سمیٹو دامن دست دعا عاجز زباں ہی بے اثر ہے ہاتھ پھیلانے سے کیا ہوگا *زمانہ کا فتنہ جب سر پر آجائے، فرعون اپنی رعونت میں مدمست ہاتھی بن جائے، انسانی حقوق نگل لئے جائیں، جینے کا حق چھین لیا جائے، کمزور اور لاچار سمجھ کر دبا دیا جائے، اکثریت کا دھونس جما کر وجود کو مٹادینے کی بات کی جائے، تاریخ مسمار کر بلکہ کھرچ کھرچ کر آثار تک ختم کردئے جائیں، پوری قوم اور برادری کو نیست و نابود کردینے کی سازشیں کر لی گئی ہوں، شیاطین کی مجلس شوری نے سارے ریزولیوشن پاس کردئے ہوں، بے کسوں کی گردن پر چھری رکھ دی گئی ہو، کسی بھی لمحہ حوادث زمانہ کے سپرد کر کے انہیں کچل دینے کی تمنائیں بلکہ قانونی راستوں سے راہیں ہموار کردی گئی ہوں، چنانچہ بچے، بوڑھے اور عورتیں گھروں سے نکل کر جمہوریت اور انسانیت کی دہائی دے رہے ہوں، بھری سردی میں راتوں کو ٹھٹھر کر اور کانپتے ہوئے احتجاجات کئے جارہے ہوں، پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ اور گنوار ہوں، ہندو ہوں کہ مسلمان ہوں غرض دیس کا ہر طبقہ سڑکوں پر چیخ رہا ہو، واویلا کر رہا ہو، بھوکے، ننگے ہو کر شداد وقت سے بھڑ گئے ہوں، اور ایسا لگتا ہو کہ اپنے آئینی حقوق کیلئے جنگ کی پوزیشن پا چکے ہوں۔* *طلبہ و طالبات نے مورچہ سنبھالا ہو، اپنے امتحانات بھی قربان کردئے ہوں، اپنا کیرئر داو پر لگا دیا ہو، بچوں نے پیلٹ گن سے اپنی آنکھیں گنوادی ہوں، ہاتھ پیڑ توڑ دئے گئے ہوں، سارا نظام معطل ہو، انسان انسانیت کو ترس رہا ہو، گھر گھر میں کشمکش کی کیفیت ہو، جہاں دیکھو یہی بات ہے کہ CAA اور NRC سے ہمارا کیا ہوگا_؟ کیونکر اس عظیم بلا سے باہر نکلیں_؟ یہاں تک کہ جو گوشہ نشینی کو ترجیح دیتے تھے انہوں نے بھی علم اٹھا لیا ہو، مصنوعی ہیروز اور ہیروئنز بھی میدان میں ہوں_ دیس کا کونہ کونہ یہ کہہ رہا ہو کہ گھر سے نکلو_ اپنے حقوق کیلئے باہر آو_ اپنے آئین کیلئے سڑکیں بھر دو_ اپنے مستقبل کیلئے آرام چھوڑ دو_ اپنے وجود کیلئے لڑو_ اور ہر جانب یہ شور و شغب ہوچکا ہو کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں_ جو آج سوئیں تو زمانہ سلا دے گا_ جو آج بیٹھے رہے تو کبھی کھڑے نہ ہو پائیں گے_ جو آج آسائشیں کر لیں تو فقیری ہی مقدر ٹھہرے گی_ جو گھر نہ چھوڑا تو ہمیشہ کیلئے بے گھر ہونا پڑے گا_ جو آج نہ جاگے تو ہمیشہ کیلئے سونا پڑے گا_ جو آج چہار دیواروں میں قید رہے تو ہمیشہ کیلئے ڈیٹینشن کیمپوں میں جہنم کی زندگی میں قید ہونا پڑے گا_* *ذرا سوچئے_! دل تھام کر سوچئے_! اس عالم میں بھی اگر کوئی بے دلی کا مظاہرہ کرتا ہو، آج بھی دعا و استغفار پر بس کرنے کی بات کرتا ہو، محض قنوت نازلہ پڑھ کر اپنے کردار پر اکتفا کر لیتا ہو، تو اسے کیا کہیں گے__! یہ نفیر عام ہے، اور جب گھروں سے نکلنا لازم ہوجائے تو دعا ہی پر بضد رہنا جہالت ہے، نادانی ہے، ان کی عقلوں پر رونا آتا ہے، ان کی سوچ پر سر پیٹنے کو من کرتا ہے، کیا انہیں معلوم نہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۸ غزوات کئے ہیں، ساٹھ سے زائد سریہ کئے گئے، بدر و حنین والا نبی ان کیلئے آئیڈیل کیوں نہیں ہے_؟ خود کو صبر کا پہاڑ بنا کر دشمنوں کے سامنے کھڑا کردینے والا، جاں گسل رن میں جبکہ سبھی پیچھے ہٹ گئے ہوں، اپنے خچر پر نبوت اور شجاعت کا نعرہ بلند کرنے والا، خود کو خون آلود کرکے بھی دشمنوں کی صف چیر دینے والا وہ رسول مکرم کیوں ان کے اسوہ نہیں ہیں_؟ حیات نبوی کے وہی کام کیوں نمونہ لگتے ہیں، جن میں صرف آرام پسندی سے کام لیا جا سکے_؟ شکم سیری میں کوئی دقت نہ ہو_؟ پیروں میں چھالے نہ پڑتے ہوں، اور جسم کی کوئی پر اثر نہ پڑتا ہو_* *غور کیجئے_! دین کا کام صرف ایک جگہ جمع ہوجانا ہی دین کیوں قرار پاگیا ہے، تسبیح خوانی، خانقاہی نظام اور مدارس کو ہی کل دین کیوں سمجھ لیا گیا ہے_؟ اسے کس معنی میں توکل کہتے ہیں، اور عمومی آواز پر بھی کس اعتبار سے مراقبہ کو ترجیح دیتے ہیں_؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے موقع پر ساری تیاریوں کے بعد اور صفوں کو درست کرنے بعد دعا کیلئے ہاتھ اٹھایا تھا_ خندق کھودنے کے بعد اور فوجیوں کو ان کے مقام پر لگا دینے کے بعد مناجات کی تھی، بلکہ یہاں پر تو کئی نمازیں بھی موخر ہوگئی تھیں، آپ سیرت پڑھتے جائیں تو ایسی سینکڑوں مثالیں پاتے جائیں گے_! عقل حیران ہے کہ یہ کس کتاب سے اور کس سنت سے استدلال کرتے ہیں، " صبر اور صلاہ" کی غلط تشریح کرتے ہیں، اس کوئی شبہ نہیں کہ دعا و مناجات مومن کیلئے ہتھیار ہیں؛ لیکن صرف یہی ہتھیار تھے تو حضور کی تلوار ذوالفقار کا کیا کام تھا، وہ ذراع کیوں تھی جسے رہن رکھ کر ایک یہودی سے آٹا ادھار لیا گیا تھا، وہ گھوڑے اور خچر کیوں تھے جس پر بیٹھ کر جنگوں میں شریک ہوتے_؟ خدا جانے یہ کس دنیا کے مسلمان اور کس کتاب کے ماننے والے ہیں_؟ کس نبی کے متبع اور کس رسول کو آئیڈیل کہتے ہیں_؟*

✍ *محمد صابر حسین ندوی* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 20/12/2019

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔