پیغمبرانہ دعوت و تبلیغ کے چند اصول ۲

*پیغمبرانہ دعوت و تبلیغ کے چند اصول* (۲ )

*محمد قمرالزماں ندوی* *مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*

*پیغمبرانہ* دعوت و تبلیغ کا ایک اہم عنصر مخاطب کی شفقت اور مدعو سے بے انتہا لگاو انس اور تعلق ہے ۔ سارے پیغمبر کے یہاں دعوت و تبلیغ میں یہ عنصر بہت غالب رہا۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت و تبلیغ کا داعیہ شفقت محبت اور خیر خواہی و ہمدری کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ اپنی برتری اور افضلیت و حاکمیت جتلانے یا دوسرے کی تحقیر کا ان کے یہاں شائبہ نہیں۔ *قرآن حکیم* میں بیشتر مواقع پر دعوت و تبلیغ کو لفظ *انذار* سے تعبیر فرمایا ہے جس کا لفظی ترجمہ لوگ ڈرانا کرتے ہیں لیکن درحقیقت عربی زبان میں *انذار* اس ڈرانے کو کہتے ہیں جس کا محرک دوسرے پر شفقت ہو جیسے باپ بیٹے کو آگ سے ڈراتا ہے ۔ لیکن اس کے برعکس اگر ایک ظالم و جابر بادشاہ اور حکمراں اپنے کسی محکوم اور ماتحت کو کسی سزا سے ڈرائے تو اس کو انذار نہیں کہا جائے گا ۔ لہذا اس لفظ کے انتخاب سے اسی جانب متوجہ کرنا ہے کہ داعی حق اور مبلغ دین جن کو نصیحت کرتا ہے ان سے نفرت یا ان کی حقارت اس کے دل میں نہیں ہوتی بلکہ اس کا محرک شفقت ہی شفقت ہوتا ہے ، اس کو ہم اس تمثیل سے سمجھاتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی بیمار سے نفرت کرے اور جو طبیب یا ڈاکٹر نفرت کا مرتکب ہو وہ کبھی کامیاب طبیب اور ڈاکٹر نہیں ہوسکتا اسی طرح داعی و مبلغ کو بھی بدتر سے بدتر کافر یا فاسق و فاجر اور بد دین و بے عمل انسان سے بھی نفرت نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس پر ترس اور رحم کھا کر اس پر محنت کرنی چاہیے مدعو کو بھی یہ احساس ہو کہ اس کے تئیں داعی میں درد کسک اور رحم و شفقت حد درجہ موجود ہے اور وہ اس کے حق میں مخلص ہمدرد اور خیر خواہ ہے وہ اس کے نفع اور فائدہ کے لئے ہی یہ ساری محنت کر رہا ہے ۔ *حضرت ابراہیم علیہ السلام* کی دعوت و تبلیغ میں مخاطب کی شفقت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ وہ کس طرح شفقت اور محبت سے پیار اور درد سے اپنے باپ یا چچا آزر کو سمجھا رہے ہیں کفر اور شرک کے بھیانک انجام سے ڈرا رہے ہیں اور توحید کی حقیقت اور رسالت کے مفہوم کو سمجھا رہے ہیں ۔ ایک جگہ اور ایک ہی موقع پر چار بار یا ابت لا تعبد الشیطان یا ابت لا الخ اے میرے ابی اے میرے ابو اے میرے والد کا تکرار کر رہے ہیں ۔ عربی زبان کے ماہر اور رمزشناس ہی سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں یا ابی کے بجائے یا ابتی میں کتنی معنویت اور گہرائی و گیرائ پائ جارہی ہے ۔ *آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم* نے اپنے پیارے اور محسن چچا ابو طالب کے لئے شفقت و محبت کا کون سا طریقہ استعمال نہیں کیا کہ وہ ایمان لے آئیں اور ہمیشہ کے عذاب سے نجات پالیں ۔ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* ایک ایک فرد کے پاس ستر ستر بار جاتے اور ان کو توحید کی دعوت دیتے اور آخرت کی پکڑ اور عذاب سے بچانے کی ہر ممکن تدبیر کرتے اور لوگوں کو پیار و محبت اور شفقت سے سمجھاتے ۔ *پیغمبرانہ دعوت* کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی بات کہنے کے لئے ایسا موقع اور ایسا ماحول تلاش کرتے ہیں جہاں وہ حکمت سے اپنی بات رکھ سکیں تاکہ ان کی دعوت زیادہ موثر ہو *قرآن مجید* میں اللہ تعالی نے *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* کو اور آپ کے واسطے سے پوری امت کو مخاطب کیا ہے کہ اللہ کے راستے کی طرف حکمت اور سوجھ بوجھ سے دعوت دیجئے ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب داعی حق کے دل میں جذبہ لگن اور خلوص و للہیت ہوتی ہے تو پھر اللہ تعالی اس کے قلب پر حکمت کا القا کرتے ہیں اور اس کے لئے حکمت کے دروازے کھول دیتے ہیں ۔ اس وقت داعی و مبلغ کو یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون سی بات کہنے کے لئے کون سا موقع اور محل مناسب ہوگا ۔ دعوت میں حکمت کی اہمیت اس حوالے علماء نے لکھا ہے کہ : *دعوت کا عمل ایک ایسا عمل ہے جو انتہائی سنجیدگی اور خیر خواہی کے جذبہ کے تحت ابھرتا ہے ۔ خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس آدمی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ خدا کے بندوں کے سامنے داعی بن کر کھڑا ہو ۔ وہ دوسروں کو اس لئے پکارتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے اگر میں نے ایسا نہ کیا تو میں قیامت کے دن پکڑا جاؤں گا ۔ اس نفسیات کا قدرتی نتیجہ ہے کہ آدمی کا دعوتی عمل وہ انداز اختیار کر لیتا ہے جس کو حکمت ،موعظت حسنہ اور جدال احسن کہا گیا ہے ۔ حکمت سے مراد دلیل و برہان ہے۔ کوئی دعوتی عمل اسی وقت حقیقی دعوتی عمل ہے جب کہ وہ ایسے دلائل کے ساتھ ہو جس میں مخاطب کے ذھن کی پوری رعایت شامل ہو ۔ مخاطب کے نزدیک ،کسی چیز کے ثابت شدہ چیز ہونے کی جو شرائط ہیں ،ان شرائط کی تکمیل کے ساتھ جو کلام کیا جائے اسی کو یہاں حکمت کا کلام کہا گیا ہے ۔ جس کلام میں مخاطب کی ذھنی و فکری رعایت شامل نہ ہو وہ غیر حکیمانہ کلام ہے ۔ اور ایسا کلام کسی کو داعی کا مرتبہ نہیں دے سکتا* ۔ *پیغمبرانہ دعوت* کے اصول میں سے جہاں حکمت و شفقت ضروی اور لازمی ہے وہیں *موعظہ حسنہ* کا ہونا بھی ضروری ہے *موعظہ حسنہ* پیغمبرانہ دعوت کا ایک اہم اور بنیادی اصول ہے موعظہ حسنہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ دعوت کے لئے انداز بیان اور اسلوب ایسا اختیار کرے جو نرمی ہمدردی اور شفقت و محبت اور دلسوزی کا آئینہ دار ہو ۔ *حضرت موسی علیہ السلام* اور *حضرت ہارون علیہ السلام* کو فرعون کے پاس اللہ تعالی نے بھیجا اور یہ ہدایت فرمائ کہ : *قولا له قولا لینا* تم دونوں اس سے نرم بات کرنا ۔ اندازہ کیجئے کہ کوئ شخص فرعون سے بڑا گمراہ اور بے راہ نہیں ہو سکتا اور *حضرت موسی علیہ السلام* سے بڑا مصلح اور داعی نہیں ہوسکتا جب *موسی علیہ السلام* جیسے داعی کو فرعون جیسے گمراہ سے بھی نرم بات کہنے کا حکم دیا جا رہا ہے تو ہمہ شمہ کی کیا حقیقت اور شمار ہے ۔ دعوتی کلام کی ایجابی خصوصیات یہی دو ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حکمت اور موعظت حسنہ جو لوگ غیر ضروری بحثوں میں الجھتے ہیں یاد رکھئے ان کا مقصد دعوت دینا اور سمجھانا نہیں ہوتا بلکہ صرف لوگوں کو الجھانا ہوتا ہے ۔

*پیغمبرانہ* دعوت کے اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام نے دعوت و تبلیغ کے لئے ہمیشہ مہذب اعلی اور سائشتہ زبان استعمال کیا ،کسی نبی اور رسول کی قوم اور ان کے مخالفین نے کبھی ان پر غیر مہذب اور غیر معیاری و ناسائشتہ زبان کے استعمال کا الزام لگایا ہو اس کا ریکارڈ نہیں ہے ۔ انبیاء کرام علیہم السلام نے کبھی طنز و تعریض اور اور طعن و تشنیع کا انداز نہیں اپنایا ۔ ان کی تردید و تنقید *جادلھم بالتی* ھی احسن کے معیار اور کسوٹی پر ہوتی، اس کے حدود سے متجاوز نہیں ہوتی ۔ ان کے یہاں سخت کلامی نہیں پائ جاتی تھی وہ ہمیشہ سخت سے سخت تنقید اور طعن و تشنیع کے جواب میں بھی محبت اور نرمی سے جواب دیتے بلکہ گالیوں کے جواب میں بھی پھول برساتے تھے ۔ *یہ* حقیت ہے کہ کسی بھی سوال اور اعتراض و نقد کے جواب میں طعن و تشنیع کا انداز مفید کم اور مضر زیادہ ہوتا ہے خواہ سوال و اعتراض کا جواب کتنا مدلل اور مسکت کیوں نہ دیا گیا ہو ۔ *حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رح* *اکبر الہ آبادی* اور *ڈاکٹر علامہ اقبال* کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے اور اس پر محاکمہ اور استدراک کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ اردو زبان میں دو ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اپنی شاعری سے دین کی خدمت کی ہے اور اس سے دینی فکر کی اشاعت کا کام لیا ہے ،ایک *اکبر الہ آبادی مرحوم* ہیں اور دوسرے *ڈاکٹر اقبال مرحوم*، ان دونوں میں سے *اکبر الہ آبادی مرحوم* کے یہاں فکری سلامتی *اقبال مرحوم* کی بہ نسبت کہیں زیادہ ہے ۔ *اکبر مرحوم* کی ٹھیٹھ دینی فکر ہے اور ان کے یہاں حکمت کی فراوانی بھی ہے ،*اقبال مرحوم* کی فکر اگر چہ مجموعی اعتبار سے دینی فکر ہے مگر اس میں اس درجہ سلامتی نہیں، اس کے باوجود یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ *اقبال* کی شاعری جتنی موثر ہوئ اور اس سے جتنا فائدہ پہنچا ،*اکبر مرحوم* کی شاعری اس درجہ موثر نہیں ہوئ ،میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ *اکبر مرحوم* نے اپنے خیالات کے اظہار کے لئے طنز و تعریض کا طریقہ اختیار کیا اور طنز کی خاصیت یہ ہے کہ اس سے ہم خیال لوگ تو لطف اٹھا سکتے ہیں لیکن اس سے کوئ موثر اصلاحی کام نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات مخالفین میں ضد پیدا ہوجاتی ہے ۔ دعوت و تبلیغ کا کام چونکہ انبیاء کرام علیہم السلام کی وراثت ہے اس لئے اس میں طعن و تشنیع غصہ نکالنے طنز کے تیر چلانے استہزا کرنے یا فقرے کس کر چٹخارے لینے کا کوئ موقع محل ہے ہی نہیں اس کام میں تو بقول حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رح نفسانیت کو کچلنا پڑتا ہے اور اس کے لئے دوسروں کی گالیاں کھا کر بھی دعائیں دینے کا حوصلہ چاہیے ۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔