پھر کہیں گے دین کے ٹھیکیدار ہم ہیں

*پھر کہیں گے دین کے ٹھیکیدار ہم ہیں ___!!*

محمد صابر حسین ندوی 

جس نے بتوں سے حکم بغاوت دیا نہیں ہوگا خدا کسی کا وہ میرا خدا نہیں      *خود کو انبیاء کے وارثین کہنے والے خانقاہوں میں قید ہیں، اہل صفہ کی صف میں شامل ہونے والے اپنے جزیروں میں مگن ہیں، دین کی ٹھیکیداری کرنے والے اور اپنے سامنے ہر ایک کو فاسق و فاجر کی کیٹیگری میں رکھنے والے غائب ہیں، جنگ آزادی میں نمایا کردار ادا کرنے والے فاشزم اور فسطائیت کے خلاف محاذ آرائی سے بے بہرہ ہیں، ماضی میں پھندے کو چوم کر اور ظالمانہ گولیوں کی بوچھار میں جام شہادت نوش کرنے والے گم ہیں، اپنے ہاتھ پیر شل کئے پوئے کسی کھوہ میں ضربیں لگارہے ہیں، اور اسی دین کے ماننے والے رسوا ہورہے ہیں، ان کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں، انہیں ہجرت کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے، انہیں جیل خانوں میں بھیجنے کی پلاننگ ہوچکی ہے، کیب کی منظوری کے بعد ان سب کی روح کانپ گئی ہے، انجام سامنے ہے اور لائحمہ ندارد ہے؛ چنانچہ ہر کوئی اپنی استطاعت کے بقدر حکومت کے سامنے ڈٹ گیا ہے، راستے پر کردئے ہیں، چوراہے انسانی سروں سے بھرے ہوئے ہیں*.       *برادران ملک کے ساتھ ملکر پولس کی لاٹھیاں کھارہے ہیں، اپنی جمسوں  اور اپنی روح کو تڑپا رہے ہیں، بھوک پیاس چھوڑ چکے ہیںن تعلیم قربان کر چکے ہیں، یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات بھی میدان میں ہیں، بلکہ وہی پیش پیش ہیں، انہوں نے سرفروشی کی تمنا پال لی ہے، جان قربان کردینے اور ملک کی جمہوریت کو بچانے نیز دین کے حاملین کو عزت دلانے کی کوششوں میں سب کچھ لٹا رہے ہیں، تصویریں اور ویڈیوز دیکھ کر رشک بھی آتا ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے؛ کہ یہی لوگ جب مسجدوں میں جائیں گے تو دین کا پاٹھ پڑھانے والے اور دو رکعات نماز پڑھانے والے اپنی دینداری کی دھونس جمائیں گے، انہیں دین اور اسلام کا نام لیکر ایمان و عقیدہ کی باتیں بتائیں گے اور کہیں گے؛ کہ وہ دین کے چوکیدار ہیں، ان کے رہنما ہیں اور قائد ہیں، اگر ان کی عزت نہ کی جائے تو دین ودنیا میں رسوا ہوجائیں گے، مگر آج وہ دین کے اجارہ دار گمشدگی میں ہیں اور کالجز و یونیورسٹیز کے لوگ ہندوستانی مسلمان اور اسلام کیلئے اپنا سینہ تانے ہوئے ہیں، قیادت کی باگ ڈور ان کے پاس ہے، سیادت اور ملکی سیاست کی حفاظت کے زمہ دار ہیں۔*        پورا ملک جل رہا ہے، ہر شہری جبری قانون کے خلاف کھڑا ہے، ہر کوئی جمہوری انداز میں سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر رہا ہے؛ لیکن ہمارے ملا__ آج بھی اپنے جبہ و دستار کی سفیدی چمکانے میں لگے ہیں، بعضوں کو استثنا کردیا جائے تو وعمومی حال یہ ہے کہ وے سب اپنے خول سے نکلتے ہی نہیں ہیں، اپنے دائرے عمل سے باہر ہی نہیں آتے، جامعہ ملیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے غیور طلبہ و طالبات نے بھی ان سے آگے آنے کی گہار لگائی ہے، انہیں اپنا ماضی یاد کروایا ہے، ملک کے سابق عظیم رہنماؤں کی دہائی دی ہے، جنہوں نے ملک کی آزادی میں مرکزی کردار دا کیا تھا؛ لیکن کیا کہئے_! صرف خموشی ہے، سمندر کا سکوت ہے، جمود ہے، مصلحت کی چادر تنی ہوئی ہے، بلکہ حد تو یہ ہے کہ بے سوجھ بوجھ کے یہ خانقاہی عین شورش کے وقت وظائف پر بس کرنے کی تلقین کر رہے ہیں، جلسے پر جلسے کئے جا رہے ہیں، تو وہیں بی جے پی کے خاص اور ہر محاذ پر ان کی مدد کرنے والے یہاں تک کہ جنیوا میں جا کر کشمیر میں قتل عام کا جواز فراہم کرنے والے بھی جاگے ہیں؛ لیکن اسی حد تک جس حد تک اجازت تھی؛ چنانچہ انہوں نے بل کے قانونی حیثیت پاجانے کے بعد  اپنا چہرہ پرنور کا دیدار کروا ہے، اور وہ "سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے" جیسی کہاوت پر عمل پیرا ہوئے ہیں۔       *اسی طرح بعض مدارس کے طلبہ اگر آگے بھی آئے، تو ان کے اکابرین نے احتجاج کو غیر اسلامی قرار دے کر معاملہ کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی ہے، اور وہ پھر سے اپنے جزیروں میں واپس ہوگئے، خدا خیر کرے _ یہ کس دین کے نمائندے ہیں_؟ یہ تو بنی اسرائیل کا خاصہ تھا کہ انہوں نے حضرت موسی سے کہا تھا: ہم تسبیح خوانی کرتے ہیں اور تم جاکر جنگ کرو_ غور کیجئے تو موجودہ سفید پوشوں کی تصویر اس سے کچھ الگ نہیں۔ آج ملک میں ایک لہر ہے اور ایک انقلاب کی آمد ہے، یاد رکھئے_! اگر ہم نے ان کا ساتھ نہ دیا اور یہ ملک ایک نئی کروٹ لے بیٹھا، تو ہم مستقبل میں مجرم قرار دئے جائیں گے اور اسلام و مسلمان دینداروں سے اعتماد اٹھ جائے گا، ممکن ہے کہ دین کے سہارے لاکھوں کی بھیڑ اکھٹی کرکے تسبیح خوانی اور چلہ کشی کرنے والوں پر خدا تعالی وہی انجام کرے، جو بنی اسرائیل کے اس عبادت خوار کے ساتھ کیا تھا، جو صرف اپنی عبادت میں مسحور تھا اور قوم کی فکر سے عاری تھا۔ بلکہ یہ ہمارا عقیدہ و ایمان ہے کہ ایسوں پر یقینا وہی عذاب آئے گا؛ کہ جب دین خطرے میں تھا اور اس کے ماننے والے ڈیٹینشن کیمپوں میں منتقل ہونے والے تھے اور ارتداد کا طوفان سر پر منڈلا رہا تھا، تو تم خموش تھے، تب صرف خدا کا قہر بولے گا اور سب خموش ہوں گے۔*     Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 14/12/2019

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔