ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب مرحوم کی زندگی کا خلاصہ ✍ *محمد صابر حسین ندوی*
*ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب مرحوم ایک درد مند دل اور جاں سوز جگر کے مالک تھے، آپ کا نام تعبیر ہے زندگی کی دشواریوں، غم کی کہانیوں، ظلم و ستم کی داستانوں اور قدم قدم پر اپنے دل کو پاش پاش کئے جانے سے، محبت کا سر چھیڑ جانے سے، اپنے میں اپنائیت پیدا کرجانے سے، اور اجنبیوں سے دل کا رشتہ_ درد کا رشتہ بنا جانے سے، اور غم یاراں، غم جاناں اور غم روزگار کی حسین داستان سنا جانے سے، آپ نے نہ صرف تلہاڑہ کا خون خرابہ دیکھا، اپنوں کو سرخ جوڑے میں تڑپتا دیکھا، بلکہ زندگی کی باریکیاں بھی پائیں، غم کا سمندر اور خوشیوں کا تالاب بھی پایا، وہ خود میں گم ہو کر جہاں کو سما لینے والے تھے، بھولے بسرے افراد کو زندہ جاوید بنا دینے والے، ان کی آپ بیتی کو جگ بیتی بنا کر سبھی سنانے والے، اپنوں کو یاد کرکے رونے والے اور خوب رلانے والے تھے، وہ قلم سے الفاظ نہیں بلکہ خون جگر ٹپکاتے تھے، ادب کی تہوں میں دل مغموم کی ہرزہ سرائی پر روتے تھے، دھڑکن کی آہ اور محبت کا راگ گاتے تھے، وہ نحیف جسم؛ لیکن پوری دنیا کو اپنی کمزوری میں لپیٹے سوز و ساز کا دھن چھیڑ جاتے تھے، جناب نے خزاں دیکھی، بہار دیکھا، گل گلزار دیکھا، گل ویران بھی دیکھا، عشق کی بازی بھی دیکھی اور شکست کا بازار بھی دیکھا، دنیا کے میلے بھی دیکھے اور تنہائی کی وحشت بھی دیکھی، آہ___ کیا لکھیں کہ آپ کیا تھے اور کیا نہ تھے، یہ تو خود خزینہ درد جناب کلیم عاجز صاحب مرحوم کی ہی زبانی سننا چاہئے؛ کہ ان کی زندگی کا خلاصہ کیا تھا، عرق کیا تھا، اور وہ کیا ہوئے اور کیوں ہوئے_؟ ایک مقام پر رقمطراز ہیں:* *" میں خود اپنی زندگی کے حالات کا تجزیہ کرتا ہوں تو تین طرح کی کیفیات بہت نمایا نظر آتی ہیں:۱_ میرے احساس کی دنیا ایک آبلے کی شکل اختیار کر گئی، ذرا سی ٹھیس سے یہ آبلہ پھوٹ بہتا۔ ۲_ دورسرے مجھے دنیا میں کسی خطرہ کا خوف باقی نہ رہا۔ میرے اردگرد کوئی اور ہی فضا تھی۔ ہر شخص مستقبل سے ہراساں اور اسے ہر ممکن کوشش سے محفوظ بنانے کا ساعی اور آرزو مند_ چاہے محفوظ مستقبل کسی طرح حاصل ہو_ گھر چھوڑنا ہو، وطن چھوڑنا ہو، اپنے پرائے چھوٹ جائیں مگر آئیندہ زندگی ہر اعتبار سے محفوظ اور روشن ہوجائے____ اور میں مستقبل سے بالکل مطمئن____! ایسا معلوم ہو جیسے میرا کوئی مستقبل ہے ہی نہیں۔ میری زندگی میں دو ہی زمانے ہیں۔ میرا ماضی جو مجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیز، محبوب، حسین اور لذیذ ہے، جس کی تمام تلخیاں شیرینی بن گئی ہیں۔ میرا ماضی ایک ایسی شراب ہے جس کے سرور کو کسی ترشی کا خوف نہیں۔ یہ ایک سرور جاوداں ہے اس کی مستی اور سرشاری مجھ سے کبھی الگ نہیں ہوتی۔ دوسرا میرا حال جس میں ساری رنگینی، رعنائی، دلفریبی اور دلکشی لذت اور چاشنی میرے ماضی کے تعلق سے ہے، بس اس کے آگے کچھ نہیں۔ ۳_ تیسری چیز جو میری زندگی میں پیدا ہوئی وہ ایک بے پایاں محبت، ایک اتھاہ پیار۔ اس کائنات میں سانس لینے والی ہر مخلوق سے۔ میں کسی کے چہرے کی افسردگی، کسی کی آنکھوں کے آنسو، کسی کے زلفوں کی برہمی، کسی کے ماتھے کی شکن، کسی کے چال کی خستگی، کسی کے حال کی آشفتگی سکون سے نہیں دیکھ سکتا۔ میرے احساس کے سمندر میں تلاطم پیدا ہوجاتا ہے"۔ (وہ جو شاعری کا سبب ہوا: ۱۵۰_۱۵۱)*
Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 04/12/2019
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔