*دعاء امن و عافیت کا قلعہ ہے*
*محمد قمرالزماں ندوی* *مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*
*اس* وقت مسلمان جن مشکلات و مسائل سے گزر رہے ہیں اور جو ناگفتہ بہ حالات ان پر آئے ہیں وہ انتہائی تکلیف دہ اور ایک طرح سے مایوس کن اور حوصلہ شکن ہیں ۔ لیکن مسلمانوں پر ہی ایسے حالات آتے ہیں اور انہیں کی سب سے زیادہ آزمائش ہوتی ہے ۔ قرآن مجید میں اس حقیقت کو بار بار دہرایا گیا ہے ۔ ایمان والوں پر یہ امتحانات، آزمائشیں اور حالات اس لئے زیادہ آتے ہیں کہ اللہ تعالی اس کے پس پردہ ان کے مقام و رتبہ کو بڑھانا چاہتے ہیں اور ان کو محبوب بنانا چاہتے ہیں ۔ اسی لئے حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ باور کرایا اور اس حقیقت کو ذھن نشین کرایا کہ *الدنیا سجن المومن و جنة الکافر* دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے مثل جنت ہے ۔ اگر مومن پر مشکل حالات آئیں اور انہیں آزمائشوں اور پریشانیوں کا سامنا ہو تو ایسے موقع پر قرآن و سنت سے ہمیں جو رہنمائی ملتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم دو محاذ پر تدبیر و کوشش کریں ایک ظاہری تدبیر جن میں ہم اسباب و وسائل کے اعتبار دشمنوں کو منھ ٹوڑ جواب دیں اور ساتھ ہی قانون و انصاف کے ذریعہ ہم اپنے حقوق کی لڑائی لڑیں ،اور یہ حقیقت اس ملک میں ہماری نظر میں رہے کہ قومیں کسی کے مارنے سے نہیں مرتیں بلکہ اپنی اخلاقی موت سے مرتی ہیں ہمیں مسلمانوں کو ایسی موت سے سے بچانا ہے اس ملک میں مسلمانوں کا وجود اللہ کے فضل و کرم کے بعد ان کے قوت و بازو پر موقوف ہے مسلمانوں نے اس ملک کو ہمیشہ سے اپنے خون و پسینہ سے سینچا ہے اور اپنے خون سے باقی رکھنا ہے ۔ ایک طرف جہاں اس حقیقت کو ہمیں سامنے رکھنا ہے تو وہیں دوسری طرف یہ ضروری ہے کہ ہم اللہ سے اپنا مضبوط تعلق اور رشتہ قائم کریں ذکر و دعا کو اپنا وظیفہ بنائیں ۔ دشمن اور باطل فریق سے سامنا کرتے وقت ڈٹ کر مقابلہ کرنے ذکر و دعا کا اہتمام کرنے اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرنے اختلاف و انتشار سے بچنے اور صبر کرنے کی تلقین قرآن مجید میں کی گئی ہے ۔ *ذکر* کا ایک اہم حصہ نماز اور دعا ہے ۔ نماز اور صبر، اللہ سے نصرت و مدد مانگنے کا بہترین وسیلہ اور ذریعہ ہے جب کے دعا حالات و مشکلات کو بدلنے کا بہترین ذریعہ و آلہ ہے ۔ دعا سے تقدیر معلق تک بدل جاتی ہے اور اللہ تعالی اس کے ذریعہ ناممکنات کو ممکنات میں بدل دیتے ہیں۔ حدیث میں اس جانب ایک واقعہ سے اشارہ کیا گیا ہے کہ ایک موقع پر تین شخص نے رات گزارنے کے لئے ایک غار میں پناہ لیا اتفاق ایسا ہوا کہ ایک وزنی پتھر لھڑک کر غار کے منھ پر آگیا اور تمام کوششوں کے باوجود وہ لوگ اس پتھر کو صبح غار کے منھ سے ہٹا نہیں سکے لیکن جب انہوں نے ماضی میں اخلاص سے کئے ہوئے اپنے نیک اعمال کا واسطہ دے کر اللہ سے گڑ گڑا کردعا کی تو وہ لوگ اس مصبیت سے نجات پاگئے اس موقع پر ہم مسلمانوں کو ظاہری اسباب کی طرف بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور دعاء و مناجات اور ذکر و اذکار کی طرف متوجہ ہونے کی بھی مکمل ضرورت ہے اپنے نیک اعمال کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کی خاص ضرورت ہے ۔ *دعا* کی حقیقت و اہمیت اور اس کی تاثیر کیا ہے اس کی اہمیت ہماری ہماری نگاہوں میں ہونی چاہیے ۔ *دعا* عبادت کا مغز جوہر اور خلاصہ ہے۔ دعا عین عبادت ہے،دعا امن و عافیت کا قلعہ اور دشمنوں کے نرغے سے نکلنے اور بچنے کا بہترین ذریعہ بھی ہے ۔ عبادت کی حقیقت چونکہ اللہ کے حضور میں خضوع تذلل اور اپنی بندگی و محتاجی کا مظاہرہ ہے اور دعا کا جزو و کل اور اول و آخر بھی اور ظاہر و باطن یہی ہے اس لئے دعا اس اعتبار سے یقینا عبادت کا مغز اور بنیاد ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : *لیس شئی اکرم علی اللہ من الدعاء* کہ اللہ کی یہاں کوئ چیز اور عمل دعا سے عزیز نہیں ہے ۔ ( ترمذی/ سنن ابن ماجہ) اللہ تعالی سے اگر بندہ طلب نہیں کرتا ۔ اس کے حضور ہاتھ نہیں پھیلاتا ،اس کے سامنے دست سوال نہیں دراز کرتا ہے تو اللہ تعالی ناراض ہوتے ہیں ۔ چنانچہ ترمذی شریف کی روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : *من لم یسائل اللہ یغضب علیہ* جو اللہ سے نہ مانگے اس پر اللہ ناراض ہوتا ہے ۔ اللہ تعالٰی اپنے بندے کی دعا کو قبول کرتا ہے ۔ وہ جب اللہ کو پکارتا ہے تو وہ اس کی پکار کو ضرور سنتا ہے ۔ اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو تاکید کرتا ہے کہ تم مجھے پکارو میں تمہاری سنو گا تمہاری دعا کو قبول کروں گا ۔ (وقال ربکم ادعونی استجب لکم) علماء نے لکھا ہے کہ وہ دعاء لوٹائ نہیں جاتی جس میں بندہ اپنی ہستی اور ذات کو انڈیل دیتا ہے جس کا تحمل آسمان و زمین بھی نہ کرسکیں ۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب دعا محض زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک شخص کے پھٹنے کی آواز ہوتی ہے اس وقت خدائ رحمتیں جوش میں ہوتی ہیں اور بندے پر ٹوٹ پڑتی ہیں ۔ قادر مطلق اپنے عاجز مطلق کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے ۔ آج ایمان والوں کو اپنی دعاؤں میں یہی کیفیت، عاجزی اور سوز پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ شاعر نے بالکل درست کہا ہے :
*جو نہ عرش کو ہلا دے وہ صدا صدا نہیں ہے* *جو بدل نے نصیبہ وہ دعا دعا نہیں ہے* ۔
*دعا* عبدیت کا جوہر اور خاص مظہر ہے ۔ اللہ تعالٰی دعا کرتے وقت (بشرطیکہ حقیقی دعا ہو ) بندے کا دل ظاہر و باطن میں ڈوبا ہوتا ہے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال و اوصاف میں غالب ترین وصف اور حال دعا کا ہے اور امت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ روحانی دولتوں کے جو عظیم خزانے ملے ہیں ان میں سب سے پیش قیمت خزانہ ان دعاؤں کا ہے جو مختلف اوقات میں اللہ تعالی سے خود آپ نے کیں یا امت کو ان کی تلقین فرمائ۔
*آئیے !* ہم سب موجودہ حالات میں اپنی ذات اور ہستی کو خدا کے حضور عاجزی و انکساری کے ساتھ انڈیل کر یہ دعا کریں بار الہا ! ہم سب کو ایسی توفیق عطا فرما کہ ہمارا جینا اور مرنا خالص تیرے لئے ہو،ہماری ساری آرزوئیں، خواہشیں تمنائیں اور ارادے تیری مرضی کے تابع ہوجائیں ۔ رب العزت ہمیں خود دار اور غیرت مند بنا غیرت ایسی عطا فرما کہ شرک و کفر کے ادنی شائبے کو ہم برداشت اور گوارا نہ کرسکیں ۔ تیرے پیارے نبی کی سنت اور اسوہ ہماری زندگی کی پہچان اور علامت بن جائے ۔ تیرے نبی کی زندگی ان کا اسوہ ہماری زندگیوں کا موضوع فکر ہی نہیں معیار عمل بھی بن جائے ۔ سنت کے مقابلے میں بدعت سے اور شرعی عمل اور رسم و رواج سے نفرت پیدا ہوجائے ۔ بدعت کو دیکھ کر ہمارے اندر اسے ختم کر دینے ،مٹا دینے کا سچا جذبہ اور حوصلہ پیدا ہو اور بدعت اور جاہلانہ رسم و رواج سے سخت کرب و اضطراب اور بے چینی محسوس کریں ۔ خدا وندے قدوس! ہم سب میں اخلاص و للہیت پیدا فرما ۔ ہماری نیتوں میں خلوص و صداقت پیدا فرما۔ کہ ہم کوئی بھی نیک کام اور صالح عمل تیرے سوا نہ تو کسی سے قدر شناسی اور اجر و ستائش کی امید و تمنا رکھیں اور نہ کسی سے خوف کریں ۔ تیرے ذکر سے ہمارے قلوب حلاوت و اطمنان محسوس کریں ۔ رب العالمین! جب ہم قیامت میں تیرے حضور پیش ہوں تو اس پیشانی پر تیری غلامی چاکری اور بندگی کے سوا اور کسی در اور آستانے کے غبار کا ایک ذرہ بھی لگا نہ ہو ۔ بار الہا ! پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ اور عزت و سر بلندی نصیب فرما۔ اور غداروں سے منافقوں سے ملت اسلامیہ کو نجات دے اور ملت کا سربراہ اور حاکم ان کو بنا جو تیرے دین و شریعت کو سربلند کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں جن کی زندگی کا مقصد یہ ہو کہ میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی
یا اللہ! تیری عبادت و بندگی اور اطاعت و فرمانبرداری یہ سب ہم صرف تیرے لئے خالص رہنے دیں اس میں کسی اور کی غلامی و محکومیت شامل نہ ہونے پائے کسی اور کی حکمرانی شریک نہ ہونے پائے ۔ جو تجھ سے ہمارا عبد اور معبود کا رشتہ ہے اس میں ہے وہ دنیا میں کسی سے نہ ہونے پائے ۔ ہم صرف تیری چشم کرم کے امیدوار تیرے در کے محتاج اور تیرے آستانے کے فقیر اور تیرے کوچے کے بھکاری ہیں ۔ ہم سب یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم تیرے سوا ہر کسی کی بندگی اور معبودیت سے بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔ عبادت و پرستش اور بندگی کے لائق صرف تیری ذات ہے ۔ تیری خدائ میں ربوبیت میں، معبودیت میں اور قدرت و اختیار میں کوئ شریک و سہیم نہیں ۔ تیرے حکم اور فیصلے کے آگے کسی کو مجال اور جرآت نہیں ۔ تیرے ہی اختیار میں عزت و ذلت ہے ۔ دنیا کا سارا نظام اور سارا کارخانہ تیرے حکم سے چل رہا ہے ۔ خدایا ! ہم پر ظالم حکمراں مسلط نہ فرما ۔ ایسی حکومت سے ہماری حفاظت فرما جو ہم پر ترس نہ کھائے ۔ ہم پر رحم نہ کرے ۔ ہماری عزت و آبرو کا خیال نہ رکھے ۔ اللہ ہم سب کے لئے سفر اور حضر سب آسان فرما ۔ ہجومِی تشدد اور حملہ سے ہم سب کی حفاظت فرما ۔ ان ظالموں کو ایمان کی دولت نصیب فرما ۔ ان کو ہدایت فرما ۔اگر ان کی قسمت میں ہدایت نہیں ہے تو اے خدا تو اس سے خود نپٹ لے ۔ اے اللہ! اس ملک کی آزادی میں ہم سب آگے رہے ہماری قربانیاں سب سے زیادہ رہیں آج ہمیں کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے کہا جارہا ہے ۔ ہماری شہریت کو ختم کرنے کے لئے قانون بنا کر اس کو پاس کیا گیا ہے ۔ ہم کو یہاں سے نکالنے کی پوری کوشش اور پلانگ ہوچکی ہے اس موقع پر بار الہا ہم مسلمان جو کوشش کر رہے ہیں اس میں کامیابی عطا فرما دشمن کا ذلیل اور ناکام بنا یا اللہ جو ہم سے شہریت کا سرٹیفکٹ اور سند مانگ رہے ہیں یا اللہ انہیں بحیثیت کردے انہیں کے وجود کو ختم کردے ۔ یا پھر انہیں ایمان و یقین اور ہدایت کے ساتھ رہنے کی توفیق عطا فرما ۔ اے اللہ بحیثیت مسلمان ہم پر جو فرض ہے جو ہماری ذمہ داریاں ہیں ان کو صحیح طور پر انجام دینے کی توفیق عطا فرما ۔ اے اللہ مستقبل میں ہمارے خلاف دشمنوں کے اور بھی خطرناک منصوبے ہیں اس سے ہم سب کی حفاظت فرما ۔ دشمنوں کی سازشوں اور منصوبوں سے حفاظت فرما۔ اے وہ ذات کہ تیرے جلالت و کبریائی سے نبی و رسول لرزاں و ترساں رہتے تھے ۔ ہمہ سب تجھ سے رحمت و مغفرت کی بھیک مانگتے ہیں تیرے عفو و کرم اور رحمت کے طالب ہیں حال میں بھی مستقبل میں بھی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ آمین یا رب العالمین
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔