دنیا کو دو باتیں بتانا ضروری ہیں

دنیا کو دو باتیں بتانا ضروری ہیں_!!

✍ محمد صابرحسین ندوی

*دنیا مادیت کی طرف سرپٹ دوڑی جارہی ہے، آزادی رائے، سیکولرزم اور یکسانیت کے پس پردہ اپنا کھیل کھیلے جارہی ہے، خود فراموشی اور خدا فراموشی کا مرض لگ گیا ہے، مذہب بیزار ہو کر مذہب کی توہین بھی ان کے تماشہ کا حصہ ہے، رب کائنات کے ساتھ اس کے پیامبر صلوات اللہ علیہم بھی نشانے پر ہیں، تعلیم کے نام پر تشدد، تعصب اور اخلاقی اقدار و روایات کی بے توقیری ان کا مشغلہ ہوگیا ہے، خاص طور پر دین اسلام کے تعلق سے دیرینہ دشمنی کا کھلا مظاہرہ ہوتا یے، ایوان سجتے ہیں، بیان بازیاں ہوتی ہیں، سازشیں رچی جاتی ہیں اور اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور نبی مکرم محمدﷺ کو رسوا کرنے کی انتھک کوشش کی جاتی ہے، مستشرقین کا وجود خیر کے پہلو میں شر نکالنے کا ہی رہا ہے، یہ مستقل فکر ہے، ایسے ادارے قائم ہیں جو باقاعدہ تحقیقی طور پر اسلام مخالف نقاط اور نکات نکال کر سرے بازار اچھالنے کی تمنا کئے رہتے ہیں، آج دنیا کی بڑی بڑی تنظیمیں اور حکومتیں اپنے ایجنڈے میں سیرت طیبہ سے کھلواڑ کو سر فہرست رکھتی ہیں، اور اسلام و مسلمان کی ہتک ریزی کو اولیت دیتے ہیں، ۲۱/نومبر ۲۰۱۹ ناروے میں قرآن کریم کے جلانے کا واقعہ بھی اسی کا چربہ ہے۔ دراصل مسلمانوں نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ انہوں نے اپنے ہونے کا احساس ختم کروادیا، حکومتوں سے بے دخل ہونے کے بعد وہ غار و خانقاہ اور چھوٹے چھوٹے مصنوعی جزیروں میں قید ہوگئے، اور ان ہی کو آباد کرنے پر اکتفا کر بیٹھے، سیاست و قیادت اور اسلام مخالف سازشوں کی پرتیں کھولنے اور ان کا دو ٹوک جواب دینے سے قاصر رہے، وقت وقت پر اٹھتی تنظیموں اور شخصیتوں نے دہشتگردی کا ٹیگ پایا، اور مزید شدت بڑھتی چلی گئی، اب حال یہ ہے کہ لڑ کھڑاتے قدموں پر اگر اٹھنے اور سنبھلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، تو خود ان کے ہمسایہ دشمن بن جاتے ہیں، اور شکم پرستی خدا پرستی پر غالب آجاتی ہے۔* *یاد رکھئے! دنیا میں جینے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے وجود کا احساس کروایا جائے، مصالحت و حکمت سر آنکھوں پر؛ لیکن ایمانی غیرت و حمیت کی بات آجائے تو سربکف ہو کر میدان عمل میں سرخرو ہونے کی نیت سے خم ٹھونک کر کود پڑیں، بالخصوص دو باتوں میں کسی بھی مصالح اور کسی بھی حکمت کو آڑے نہ آنے دیں، ایک قرآن کریم کی پامالی اور دوسرے نبی کریمﷺ کی حرمت و عزت_ ناروے کے قصے میں غازی عمر الیاسی کی ایمانی جرات اور رندانہ کیفیت دیکھ کر اور تن تنہا شخص کا قرآن نذر آتش کئے جانے پر پوری طاقت کے ساتھ بھڑ جانے کو دیکھ کر شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب مد ظلہ نے یہی بات لکھی ہے، اسے پڑھ کر سبق لینا چاہئے، آپ کہتے ہیں: " تحمل بردباری اور حکمت اچھی صفات ہیں، بشرطیکہ وہ مداہنت تک نہ پہونچیں، نیز دنیا کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ دو چیزیں ایسی ہیں، جن کی حرمت کے بارے میں ہر مسلمان کا ہونا لازم ہے، ایک قرآن کریم اور دوسرے رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس_ اللہ تعالی اس نوجوان پر اپنی رحمتوں کا سایہ فرمائے، جس نے دنیا کو یہ بتا کر فرض کفایی ادا کیا، کاش اس کے ساتھ میں بھی ہوتا اور اپنا بڑھاپا اس نوجوان پر قربان کردیتا۔۔۔۔۔۔۔!"۔ واقعی یہی اصل بات یے، آج مسلمانوں کی خستہ اور شکستہ حالی کا کہیں نہ کہیں یہ راز ہے کہ اس نے اپنے لازمی جذبات کو بھی حکمت کی چادر میں لپیٹ دیا، خدا خیر کرے کہ ترکی اور پاکستان جیسے ممالک نے اقوام متحدہ میں اس کی نمائندگی کی یے؛ لیکن دنیا کی اکثریت خموش ہے، برصغیر اور ان میں ملک عزیز کی صورت حال اس محرومی کے نتائج کا عکس ہیں، جو اب اپنے وجود کو ترس رہے ہیں، مارے مارے پھر رہے ہیں، ملک سے اخراج ہونے کو ہے اور دین سے دامن تر ہے، کاش مسلمان سمجھتے کہ ہمیشہ دفاعی پوزیشن انسان کو گڑھے میں گرا دیتی ہے، وقت کا جوان اپنی عبارت خود لکھتا ہے، جو مخالف سمت میں تیرنا نہ جانے وہ ڈوب جاتا ہے۔*

Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 24/11/2019

مذہب اسلام کا بے باک ترجمان مینارِ اسلامی????

www.mislami.com 

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔