باسمہ تعالی
" ایک کھلا خط " دردمندان قوم و ملت اور ارباب فکر و دانش کے نام ---------------------------------------------------------------
از : محمد ہارون قاسمی ، بلند شہر ۔ فون ، 9412658062
حضرات گرامی ۔۔۔۔۔۔۔ آپ جیسے ذی علم ذی شعور اور ملت کا سچا درد رکھنے والے حضرات سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں ہوسکتی کہ آج ملت اسلامیہ اپنی چودہ سو سالہ تاریخ کے بدترین دور سے گذر رہی ہے مسلم ممالک ایک ایک کرکے تباہ ہو رہے ہیں امت مسلمہ پر آگ اور خون کی بارش ہے اور عالم اسلام انتہائی بے بسی کے عالم میں اپنے وجود اور بقاء کی کی جنگ لڑرہاہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔ قافلہ حجاز میں کوئی حسین بھی نہیں ۔۔
خود مادر وطن ہندوستان کے اندر مسلم قوم جو اس ملک کی معمار تھی اور جو صدیوں تک اس ملک کے تخت و تاج اور اس کے خزانوں کی تنہا مالک رہی ہے آج وہ اپنے ہی وطن میں اجنبی بے یارومددگار اور دلتوں اور شودروں سے بدتر زندگی جینے پر مجبور ہے ۔ اور اب تو نوبت اس کے دین و ایمان تک آن پہنچی ہے لیکن ۔۔۔۔۔ کروڑوں کی بھیڑ میں کوئی محمود بھی نظر نہیں آتا ۔
فضا میں ایک غیر معمولی ہنگامہ کے باوجود قومی قیادت پر ایک عجیب سی خاموشی اور پر اسرار سکوت طاری ہے اور ملت کی داد رسی کے لئے کہیں سے کوئی موثر آواز نہیں اٹھ رہی ہے
علماء دین جو ہر شعبہ حیات میں ملت کی کامیاب قیادت کیا کرتے تھے اور جنہوں نے ہر برے وقت میں ملت کی ڈگمگاتی کشتی کو سہارا دیا ہے مگر وہ بھی رضاکارانہ طور پر اپنے منصب سے سبکدوش ہو گئے اور دنیا کو دنیا والوں کے حوالے کر کے اپنے اپنے محدود دائروں میں ملت کی جزوی اصلاحات کی انفرادی خدمات میں مصروف ہوگئے
خانقاہیں جہاں سے تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کے ساتھ ساتھ علم و تعلیم کے چشمے جاری ہوتے تھے جہاں سے دعوت و تبلیغ کے سوتے پھوٹتے تھے جہاں سے جہاد کی تحریکیں اٹھتی تھیں اور جہاں سے بڑے بڑے انقلابات رونما ہو تے تھے مگر آج یہاں بھی فضا بالکل پرسکون ہے آج یہاں کوئی ہلچل نہیں ۔
سیاسی قائدین جو دین و ملت کی خدمت کو اپنی سیاست کا اولین مقصد سمجھتے تھے اور سیاسی قوت کو خدا تعالی کی طرف سے عطا کی گئی قومی امانت تصور کرتے تھے مگر آج ان کے نزدیک سیاست کی اصطلاح ہی تبدیل ہو گئی اور دنیاوی جاہ و منصب شخصی مفادات اور زندگی کی عیش و عشرت کا حصول ہی ان کی سیاسی سرگرمیوں کا مقصد بن گیا ہے ۔
تحریکیں ہیں تنظیمیں ہیں اور دین و ملت کے عنوان پر زبردست سرگرمیاں ہیں لیکن ہر کسی کا اپنا ایجنڈا ہے اپنے مقاصد ہیں اپنے مفادات ہیں ۔ ہر شخص اپنی اپنی انفرادی کارکردگی پر پوری طرح مسرور و مطمئن ہے ہر گروہ ؛ کل حذب بما لدیھم فرحون ؛ کی عملی تصویر بنا ہوا ہے
قوم کی بربادی پر ماتم کرنے والے اور آنسو بہانے والوں کا ایک ہجوم ہے مگر تباہی کی طرف گرتی ہوئی اس قوم کا ہاتھ پکڑ نے والا کوئی نہیں ہے روح عمل سے خالی تحریروں کا ایک سیلاب ہے تقریروں کا ایک طوفان ہے تعمیری نظریہ سے عاری تحریکوں اور تنظیموں کا ایک ہنگامہ ہے ہر شخص نفسیاتی تعلی کا شکار ہے وہ دوسروں کو ملت کے زوال کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے ہر شخص دوسروں کو راہ دکھارہا ہے اور دوسروں کو بتا رہا ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے ۔۔۔ مگر خود میدان عمل میں اتر کر ملت کی شیرازہ بندی کی ضرورت کا اسے کوئی احساس نہیں ہے ۔۔۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ تمام تر دینی و ملی سرگرمیوں کے باوجود ملت ہے کہ ۔ پیہم انحطاط کی کی طرف بڑھتی ہی چلی جارہی ہے ایسے مایوس کن حالات میں آخر یہ بے سہارا اور لاوارث امت کیا کرے اور کہاں جائے ۔۔۔۔۔۔۔محترم ۔۔۔۔۔۔۔۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ آپ اپنے مقام و مرتبہ کو پہچانیں اپنے فرض منصبی اور ذمہ داری کا احساس کریں ۔ اپنی دینی و ملی سرگرمیوں کا سنجیدہ فکر کے ساتھ جائزہ لیں ان کے مایوس کن نتائج پر غور کریں اور اس نکتہ فساد تک پہنچنے کی کوشش کریں جس کے سبب آپ کی اجتماعی کوششیں اور جدوجہد ملت کے حق میں مفید اور موثر ثابت نہیں ہورہی ہیں اس مقام کی نشاندہی کریں جہاں سے یہ قوم راہ بھٹکی ہے اور جہاں اس نے ٹھوکر کھائی ہے اور اپنے اسلاف کی سیرت کی روشنی میں اس راہ کو تلاش کرنے کی کوشش کریں جس پر آپ کی منزل واقع ہے ۔۔ خدا تعالی نے آپ کو فکر و فہم کی قوت اور علم و بصیرت کا نور عطا کیا ہے ملت کا درد آپ کے سینے میں ہے آپ کوئی معمولی انسان نہیں ہیں آپ ملت کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں اس قوم کی تقدیر آپ سے جڑی ہوئی ہے اور جس دن آپ نے ملت کی تقدیر پر لگی ہوئی گرہ کو کولنے کا تہیہ کرلیا اس دن اس قوم پر چھائے ہوئے تباہی و بربادی کے یہ سیاہ بادل خود بخود چھٹنے شروع ہو جائیں گے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پر آشوب دور میں بھی آپ نے ملت کی بڑی اعلی اور گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جن کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔۔۔ لیکن مردان کار کی ذمہداریاں تو کبھی پوری نہیں ہوتیں لہذا کام ابھی باقی ہے اور بہت کچھ باقی ہے ملت کا سفینہ گردش میں ہے امت پر بہت برا وقت ہے اور مستقبل اور بھی زیادہ پرتاریک اور پر ہیبت نظر آرہا ہے اس تباہ حال قوم کو آپ کے سہارے کی ضرورت ہے لہذا اٹھئے اور اس خدا کے لئے اٹھئے جس نے آپ کو اس کا اہل بنایاہے کہ آپ قوم کے لئے کچھ کرسکتے ہیں اور بہت کچھ کرسکتے ہیں ۔ اور اگر آج آپ جیسے زندہ دل اور زندہ ضمیر لوگ اس قوم کو بچانے کے لیے آگے نہ آئے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجائے اور وقت کا طوفان ہمارے باقی ماندہ اور رہے سہے ملی اثاثہ کو بھی بہاکر لے جائے اور ہماری آنے والی نسلیں بھول جائیں کہ کبھی ہمارے آبا و اجداد مسلمان بھی ہوا کرتے تھے بڑی بڑی طاقتور قومیں جب اپنے فرض سے غافل ہوئیں تو صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور ایسی مٹیں کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہا ۔
یقین کیجئے اگر وقت رہتے آپ جیسے بااثر اور درد مند دل رکھنے والے حضرات نے کوئی موثر قدم نہ اٹھایا تو وہ وقت دور نہیں جب آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کی تہذیب و ثقافت کے ہر اس نقش و نشان کو مٹایا جائیگا جس پر بحیثیت مسلمان آپ فخر کرسکتے ہیں اور آپ کچھ نہ کرسکیں گے آپ کی نظروں کے سامنے آپ کے دین و ایمان کی دولت کو نوچا جائےگا اور آپ آنسو بھی نہ بہا سکینگے آپ کی صفوں سے وہ سپاہی اٹھیں گے جنہیں آپ کے خلاف صف آراء کیا جائےگا جو دشمنوں کی صفوں میں شامل ہوکر آپ پر تیر چلائیں گے آپ اپنوں کے ہاتھوں اپنے سینوں پر تیر کھائیں گے اور آہ بھی نہ بھر سکینگے اگر آپ سر پر منڈلارہے خطرات سے یوں ہی چشم پوشی کرتے رہے اگر آپ قوم کے اجتماعی مسائل سے یوں ہی غفلت برت تے رہے تو یہ انجام یقینی ہے ۔۔۔۔ اس اعصاب شکن اور خوفناک انقلاب کا عمل شروع ہوچکا ہے اور اب فکر وعمل کے لئے بہت کم وقت باقی ہے ۔ اور اگر آپ اس مصنوعی خوش گمانی میں مبتلا ہیں کہ یہ محض وہم ہے قیاس ہے ایسا کچھ نہیں ہوگا تو ایسا ہوگا نہیں بلکہ ایسا ہوچکا ہے بخارا اور ثمر قند کی روح فرسا تاریخ اسپین کا عبرت ناک زوال اور خود ہندوستان کے اندر مسلم سلطنت کا خاتمہ اس کی زندہ شہادتیں ہیں مایوسی کفر ہے ۔ بزدلی نفاق ہے ۔ اور خاموشی موت کی نشانی ہے ۔۔ کسی نہ کسی کو تو اٹھنا ہوگا اور کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا ۔۔ آج یا پھر مزید تباہی کے بعد کل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔=========================================== ایک گزارش = ہماری یہ ناقص سی عرضداشت جن حضرات تک پہنچے وہ اس کے مقصد اور اس کی معنویت پر سنجیدگی سے غور کریں اور اس کو اپنا ملی فریضہ سمجھ کر ہر اس شخص تک پہنچانے کی زحمت کریں جو اس کا اہل ہے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اس کو عملی سطح پر معنی خیز بنانے کے لئے جو کچھ بھی کرسکتے ہیں وہ کرنے کی کوشش کریں یا پھر اس راہ کے کسی سرفروش مسافر کی پشت پناہی کریں ۔ کہ ایک مسلمان کے لئے یہ قطعا زیبا نہیں کہ وہ خدا تعالی کی عطا کردہ صلاحیتوں کے باوجود نہ خود کچھ کرے اور نہ کسی کرنے والے کا ساتھ دینے پر آمادہ ہو ۔۔۔ ہمیں آپ کے رد عمل کا انتظار رہیگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔