???? ???? *قسط نمبر 2*???? ????
???? *کتاب: علم اور علماءکرام کی عظمت*
*واعظ: * ???????????? *شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجدد زمانہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ خانقاہ امدادیہ اشرفیہ،گلشن اقبال کراچی*
شیخ بنانا کیوں ضروری ہے؟
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اس وقت میرا دو روحانی بیماریوں یعنی غصہ اور بدنظری کے سلسلے میں کچھ عرض کرنے کا ارادہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ حسنِ بیان اور اپنی نصرتِ خاص نصیب فرمائیں اور سننے والوں اور سنانے والے کو اِخلاص نصیب فرمائیں۔ اور اِخلاص سے سننا کیا ہے؟ کہ عمل کی نیت سے سنے، خالی واہ واہ کے لیے نہیں، اور سنانے والا بھی واہ واہ کا طالب نہ ہو بلکہ آہ آہ کا طالب ہو۔ واہ سے کام نہیں بنے گا، آہ سے کام بنے گا۔ اسی لیے حکیم الامت مجدد الملّت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنا تخلص ہی آہ رکھا تھا۔ حضرت کا ایک شعر ہے؎ تمہاری کیا حقیقت تھی میاں آہ ؔ یہ سب امداد کے لطف و کرم تھے حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے تمام علمی و عملی کمالات کی نسبت اپنے شیخ حاجی امداد اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی طرف کی۔ مطلب یہ کہ مجددِ زمانہ، ڈیڑھ ہزار کتابوں کے مصنف، بڑے بڑے علماء کے شیخ نے اپنی نفی کرکے اپنے کمالات کو اپنے شیخ کی طرف منسوب کیا۔ یہی چیز انسان کو عُجب و کبر سے اور اپنے کو بڑا سمجھنے سے محفوظ رکھتی ہے۔ اور جس کا شیخ نہ ہو تو پھر وہ اپنی طرف نسبت کرتا ہے کہ میں نے یہ کیا، میں نے وہ کیا، اور جہاں ’’میں میں‘‘ ہو وہیں انسان ذلیل ہوجاتا ہے۔یہی ’’میں‘‘ والی بیماری شیطان کو تھی جس نے ..اَنَا.. کہا تھا۔ اسی انانیت کو ختم کرنے کے لیے بڑے بڑے علماء نے بھی اﷲ والوں کو اپنا شیخ بنایا اور تاریخ شاہد ہے کہ بڑے بڑے علماء جو علم کے آفتاب اور ماہتاب تھے، ان حضرات نے بھی اپنے نفس کو مٹانے کے لیے اور اپنی تربیت کے لیے مربّی اور شیخ کا انتخاب کیا۔ کوئی شخص مربّہ نہیں بن سکتا جب تک کہ اس کا کوئی مربی نہ ہو۔ آج مسجد و مدرسے سے نکل کر دستارِ فضیلت سر پر باندھ کر فوراً مسجد میں امامت کی جگہ بناتے ہیں اور اس کے بعد مقتدیوں کے مربّی بن جاتے ہیں، حالاں کہ پہلے خود مربّہ نہیں بنے، تو جو شخص پہلے خود مربّہ نہ بنا ہو وہ مربّی کیسے بن سکتا ہے؟ نتیجہ یہ ہے کہ پھر لوگوں کی شکایت کرتے ہیں کہ جی! مولویوں کی عزت نہیں ہے۔ مولوی کی میم پر جب تک پیش رہے گا اس کی عزت نہیں ہوگی یعنی مولوی صاحب جب تک مُولی صاحب رہے گا، مولی گاجر کے بھاؤ بکے گا۔ مولوی کے معنیٰ ہیں مولیٰ والا جیسے لاہوری کےمعنیٰ ہیں لاہور والا، پشاوری کے معنیٰ ہیں پشاور والا، لکھنوی کے معنیٰ ہیں لکھنؤ والا۔ پس جب وہ مولوی اﷲ والوں کی صحبت اختیار کرے گا اور اﷲ اﷲ کر کے مولیٰ والا بن جائے گا توان شاء اﷲ پھر مخلوق کی مجال نہیں ہوگی کہ اس کو ذلیل کرے، اورجو اس کو ذلیل کرے گا اور دھمکی دے گا تو اﷲ تعالیٰ اس کو دھمک دے گا، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کی ایک صفت اَلسَّلَامْ ہے۔علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ نے روح المعانی میں اَلسَّلَامْ کی تفسیر بیان کی ہے: اَلَّذِیْ یُسَلِّمُ عَلٰی اَوْلِیَائِہٖ فَیَسْلَمُوْنَ مِنْ کُلِّ مُخَوِّفٍ1؎ جو اپنے اولیاء کو ہر ڈرانے والے سے سلامت رکھتا ہے۔ اولیاء اﷲ اور علمائے دین کے معاملے میں آج عوام کی جو جرأت ہے کہ مسجد میں گھڑی کی سوئی دیکھتے ہیں، اگر جماعت کے ٹائم سے ایک منٹ اوپر ہوگیا تو امام کے خلاف بولنے لگتے ہیں، گویا ان کے نزدیک امام لوہے کی ٹونٹی ہے کہ جب چاہا کھول دی، جب چاہا بند کردی۔ اگر استنجا کی وجہ سے کچھ تاخیر ہوگئی تو امام صاحب کا پانچ دس منٹ انتظار کرنا چاہیے، لیکن عوام نے امام کو غلام سمجھ رکھا ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک نقل فرماتے ہیں: اَکْرِمُوا الْعُلَمَاءَ فَاِنَّھُمْ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاءِ2؎ علماء کا اکرام کرو کیوں کہ یہ انبیاء کے وارث اور نائب ہیں۔ اور سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد ہے مَنْ لَّمْ یُبَجِّلْ عَالِمِیْنَا فَلَیْسَ مِنَّا3؎ جس نے علماء کی عزت نہیں کی میرا اُس سے کوئی تعلق نہیں۔ 〰〰〰〰〰〰〰〰〰 1؎ روح المعانی:28/ 63،الحشر(23)،دارإحیاءالتراث، بیروت 2؎ کنز العمال: 150/10(28764)،کتاب العلم ،مؤسسۃ الرسالۃ 3؎ کنز العمال: 157/9 (25503)،التعظیم والقیام، مؤسسۃ الرسالۃ،ذکرہ بلفظ بجلوا المشایخ فإن تبجیل المشایخ من إجلال اللہ ، فمن لم یبجلہم فلیس منا 〰〰〰〰〰〰〰〰〰
???? *احقر محمد زکریا اچلپوری عفااللہ تعالی عنہ*
⤵ *جاری ہے*
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔