*فیض احمد فیض کی نظم پر سیاست __!!* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*
*شعر و شاعری کا انسانی زندگی میں اہم کردار ہے، یہ گونگے کو زبان دیتی ہے، جو کہنا چاہیں اور نہ کہہ سکیں اسے بھی کہنے کی طاقت دیتی ہے؛ بلکہ ظلم کا دفاع کرنے اور اپنے آپ کو حق کی ڈگر پر لگانے میں بھی کارگر ہے، زمانہ جاہلیت میں عرب کے نزدیک شعر و شعراء کی اہمیت پڑھتے تھے، سنتے تھے؛ لیکن زمانہ حال میں اس کی زندہ مثال دیکھنے کو ملی ہے، تحریر عملی صورت میں سامنے ہے، رواں حکومت کے خلاف ہورہے احتجاجات میں اگر ایک طرف انسانی ریلا سڑکوں پر بہہ پڑا ہے، تو دوسری طرف ان کی زبان سے وہ تیر و نشتر نکل رہے ہیں، جس نے انہیں بے چین کردیا ہے، حکومت میں عجب بے قراری پائی جاتی ہے، شعراء کا ایک ایک مصرعہ ان کے سینہ پر سانپ بن کر لوٹتا ہے، اگرچہ حال میں ایسے شعراء کم ہیں، اکثر اپنی لن ترانی میں مدہوش ہیں، خوش الحانی سے پڑھ لینے اور چیخ وپکار کرلینے، نیز محض قافیہ ملالینے کو ہی شعر شاعری سمجھتے ہیں؛ مگر ان کی شاعری سے کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوتا، ان سے جسم و اعصاب پر کوئی شکن نہیں آتی، خون میں ولولہ اور رگوں میں حرکت پیدا نہیں ہوتی، بلکہ انہیں سنتے ہیں، محظوظ ہوتے ہیں اور بھول جاتے ہیں؛ لیکن قدیم شعراء کی گرمی اب بھی انسانوں کے دلوں میں حرارت پیدا کرنے کیلئے کافی ہے، خدا جانے ان کے کلام میں کونسا ایسا عنصر تھا جس نے انہیں بوسیدگی کے لبادہ سے آزاد کرکے دائمی کا خلعت پہنایا ہے، یقیناً ان میں ہر ایک شامل نہیں مگر اکثر و بیشتر کا یہی حال ہے،چنانچہ CAA. NPR. NRC جیسے اہم مدعا کی خلافت اور اس کے خلاف صف بستہ ہوجانے پر لوگوں کو ابھار رہی ہے، ان کے اندر نئی روح اور تازگی پیدا کرتی ہے، اکثر کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات انہیں بڑی سادگی سے گاتے ہین، یا گنگناتے ہیں اور پھر پوری فضاء پر انقلاب کی چادر تن جاتی ہے، لوگو جوش میں نعرے بنلد کرتے ہیں اور ایک سر ہو کر نکل پڑتے ہیں، جھومتے ہیں، اور سب ملکر ایک سر میں نعرہ انقلاب کی صدا لگانے لگتے ہیں.* *بالخصوص فیض احمد فیض کی شاعری نے تو کمال کردیا ہے، بھری سردی میں حرارت پیدا کردی ہے، شمالی و مشرقی ہندوستان میں اس وقت سردی عروج پر ہے، شبنم خوب گرتی ہے، سرد ہوائیں بھی چلتی ہیں، لیکن ان سب کے باوجود احتجاج کرنے والوں کے جذبہ میں کوئی کمی نہیں آتی، وے سب چوبیس گھنٹے بیٹھے رہتے ہیں، گویا انہوں نے سڑکوں کو ہی اپنا گھر لیا ہے، اور خاص طور پر فیض احمد صاحب کی ایک نطم جو انقلابی نظم ہے، وہ خوب پڑھی جاتی ہے، اس نے تو حکومت کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، یہاں تک کہ اس کے الفاظ پر سیاست کی جارہی ہے، اس کے اصل مضمون کو پس پشت ڈال کر اور اس کی انقلابی روح کو مار کر بعض الفاظ جیسے صنم خانہ. اللہ. خدا پر واویلا ہے. غالبا یہ ڈر الفاظ کا نہیں بلکہ اس نظم کے پس منظر کا ہے، ذرا یاد کیجیے__! بات1985 کی ہے جب پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق پر قدامت پسندی کی انتہا کا الزام تھا، اور پاکستان بھر میں فوجی حکومت قائم کر دی گئی تھی۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ جمہوریت دم توڑ رہی تھی اور اظہار رائے کی آزادی پر پہرے لگا دئے گئے تھے۔ عوام کی آزادانہ زندگیوں پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔* *یہاں تک کہ رنگوں پر بھی حکم نامہ آچکا تھا، اور کہا جاتا ہے کالے رنگ کو بین کردیا گیا تھا؛ کیونکہ اسے احتجاج کا سمبل سمجھا جاتا تھا، اور یہ بھی کہ خواتین ساڑی نہیں پہن سکتی تھیں، کیونکہ اسے ہندومت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ دم گھٹنے والے اس ماحول میں لاہور کا اسٹیڈیم ایک شام انقلاب زندآباد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ جمہوریت اور اپنے حقوق کے لئے عوام نے بغاوت کا اعلان کر دیا تھا۔ اس بغاوت اور انقلاب کو اپنی آواز دی تھی پاکستان کی معروف گلوکارہ اقبال بانو نے۔ انہوں نے اسٹیڈیم میں کم از کم 50 ہزار کی موجودگی میں جو نظم سنائی اسے سن کر آج بھی رواں رواں کھڑا ہو جاتا ہے۔ جب یہ نظم پیش کی گئی تھی؛ تو عوام میں اس قدر جوش و جنون سا پیدا ہوگیا تھا، کہ لوگ وہاں سے ہٹنے کو تیار نہ تھے، انتطامیہ نے فورا لائٹ بند کردی تھی؛ تاکہ بھیڑ پر کنٹرول کیا جاسکے، لیکن ساری کوششوں کے باوجود بھی کچھ کام نہ آیا، اور لوگوں کے سینوں سے انقلاب کی آگ نہ بجھائی جا سکی، یہی نظم آج ہندوستان کے نوجوانوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے، اب اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے؛ کہ کیا کچھ ہوگا؟ ابھی دیکھنا ہے کیا ہوگا__؟ آپ بھی اس نظم کو پڑھئے اور راکد خون میں تموج پیدا کرلیجیے اور اپنے حقوق کیلئے کمر بستہ ہوجائیے__!* وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے جو لوحِ ازل میں لکھا ہے جب ظلم و ستم کے کوہ گراں روئی کی طرح اُڑ جائیں گے ہم محکوموں کے پاؤں تلے یہ دھرتی دھڑدھڑدھڑکے گی اور اہلِ حکم کے سر اوپر جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی جب ارضِ خدا کے کعبے سے سب بُت اُٹھوائے جائیں گے ہم اہلِ سفا مردودِ حرم مسند پہ بٹھائے جائیں گے سب تاج اچھالے جائیں گے سب تخت گرائے جائیں گے بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی
*فیض احمد فیض کی نظم پر سیاست __!!* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*
*شعر و شاعری کا انسانی زندگی میں اہم کردار ہے، یہ گونگے کو زبان دیتی ہے، جو کہنا چاہیں اور نہ کہہ سکیں اسے بھی کہنے کی طاقت دیتی ہے؛ بلکہ ظلم کا دفاع کرنے اور اپنے آپ کو حق کی ڈگر پر لگانے میں بھی کارگر ہے، زمانہ جاہلیت میں عرب کے نزدیک شعر و شعراء کی اہمیت پڑھتے تھے، سنتے تھے؛ لیکن زمانہ حال میں اس کی زندہ مثال دیکھنے کو ملی ہے، تحریر عملی صورت میں سامنے ہے، رواں حکومت کے خلاف ہورہے احتجاجات میں اگر ایک طرف انسانی ریلا سڑکوں پر بہہ پڑا ہے، تو دوسری طرف ان کی زبان سے وہ تیر و نشتر نکل رہے ہیں، جس نے انہیں بے چین کردیا ہے، حکومت میں عجب بے قراری پائی جاتی ہے، شعراء کا ایک ایک مصرعہ ان کے سینہ پر سانپ بن کر لوٹتا ہے، اگرچہ حال میں ایسے شعراء کم ہیں، اکثر اپنی لن ترانی میں مدہوش ہیں، خوش الحانی سے پڑھ لینے اور چیخ وپکار کرلینے، نیز محض قافیہ ملالینے کو ہی شعر شاعری سمجھتے ہیں؛ مگر ان کی شاعری سے کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوتا، ان سے جسم و اعصاب پر کوئی شکن نہیں آتی، خون میں ولولہ اور رگوں میں حرکت پیدا نہیں ہوتی، بلکہ انہیں سنتے ہیں، محظوظ ہوتے ہیں اور بھول جاتے ہیں؛ لیکن قدیم شعراء کی گرمی اب بھی انسانوں کے دلوں میں حرارت پیدا کرنے کیلئے کافی ہے، خدا جانے ان کے کلام میں کونسا ایسا عنصر تھا جس نے انہیں بوسیدگی کے لبادہ سے آزاد کرکے دائمی کا خلعت پہنایا ہے، یقیناً ان میں ہر ایک شامل نہیں مگر اکثر و بیشتر کا یہی حال ہے،چنانچہ CAA. NPR. NRC جیسے اہم مدعا کی خلافت اور اس کے خلاف صف بستہ ہوجانے پر لوگوں کو ابھار رہی ہے، ان کے اندر نئی روح اور تازگی پیدا کرتی ہے، اکثر کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات انہیں بڑی سادگی سے گاتے ہین، یا گنگناتے ہیں اور پھر پوری فضاء پر انقلاب کی چادر تن جاتی ہے، لوگو جوش میں نعرے بنلد کرتے ہیں اور ایک سر ہو کر نکل پڑتے ہیں، جھومتے ہیں، اور سب ملکر ایک سر میں نعرہ انقلاب کی صدا لگانے لگتے ہیں.* *بالخصوص فیض احمد فیض کی شاعری نے تو کمال کردیا ہے، بھری سردی میں حرارت پیدا کردی ہے، شمالی و مشرقی ہندوستان میں اس وقت سردی عروج پر ہے، شبنم خوب گرتی ہے، سرد ہوائیں بھی چلتی ہیں، لیکن ان سب کے باوجود احتجاج کرنے والوں کے جذبہ میں کوئی کمی نہیں آتی، وے سب چوبیس گھنٹے بیٹھے رہتے ہیں، گویا انہوں نے سڑکوں کو ہی اپنا گھر لیا ہے، اور خاص طور پر فیض احمد صاحب کی ایک نطم جو انقلابی نظم ہے، وہ خوب پڑھی جاتی ہے، اس نے تو حکومت کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، یہاں تک کہ اس کے الفاظ پر سیاست کی جارہی ہے، اس کے اصل مضمون کو پس پشت ڈال کر اور اس کی انقلابی روح کو مار کر بعض الفاظ جیسے صنم خانہ. اللہ. خدا پر واویلا ہے. غالبا یہ ڈر الفاظ کا نہیں بلکہ اس نظم کے پس منظر کا ہے، ذرا یاد کیجیے__! بات1985 کی ہے جب پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق پر قدامت پسندی کی انتہا کا الزام تھا، اور پاکستان بھر میں فوجی حکومت قائم کر دی گئی تھی۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ جمہوریت دم توڑ رہی تھی اور اظہار رائے کی آزادی پر پہرے لگا دئے گئے تھے۔ عوام کی آزادانہ زندگیوں پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔* *یہاں تک کہ رنگوں پر بھی حکم نامہ آچکا تھا، اور کہا جاتا ہے کالے رنگ کو بین کردیا گیا تھا؛ کیونکہ اسے احتجاج کا سمبل سمجھا جاتا تھا، اور یہ بھی کہ خواتین ساڑی نہیں پہن سکتی تھیں، کیونکہ اسے ہندومت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ دم گھٹنے والے اس ماحول میں لاہور کا اسٹیڈیم ایک شام انقلاب زندآباد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ جمہوریت اور اپنے حقوق کے لئے عوام نے بغاوت کا اعلان کر دیا تھا۔ اس بغاوت اور انقلاب کو اپنی آواز دی تھی پاکستان کی معروف گلوکارہ اقبال بانو نے۔ انہوں نے اسٹیڈیم میں کم از کم 50 ہزار کی موجودگی میں جو نظم سنائی اسے سن کر آج بھی رواں رواں کھڑا ہو جاتا ہے۔ جب یہ نظم پیش کی گئی تھی؛ تو عوام میں اس قدر جوش و جنون سا پیدا ہوگیا تھا، کہ لوگ وہاں سے ہٹنے کو تیار نہ تھے، انتطامیہ نے فورا لائٹ بند کردی تھی؛ تاکہ بھیڑ پر کنٹرول کیا جاسکے، لیکن ساری کوششوں کے باوجود بھی کچھ کام نہ آیا، اور لوگوں کے سینوں سے انقلاب کی آگ نہ بجھائی جا سکی، یہی نظم آج ہندوستان کے نوجوانوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے، اب اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے؛ کہ کیا کچھ ہوگا؟ ابھی دیکھنا ہے کیا ہوگا__؟ آپ بھی اس نظم کو پڑھئے اور راکد خون میں تموج پیدا کرلیجیے اور اپنے حقوق کیلئے کمر بستہ ہوجائیے__!* وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے جو لوحِ ازل میں لکھا ہے جب ظلم و ستم کے کوہ گراں روئی کی طرح اُڑ جائیں گے ہم محکوموں کے پاؤں تلے یہ دھرتی دھڑدھڑدھڑکے گی اور اہلِ حکم کے سر اوپر جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی جب ارضِ خدا کے کعبے سے سب بُت اُٹھوائے جائیں گے ہم اہلِ سفا مردودِ حرم مسند پہ بٹھائے جائیں گے سب تاج اچھالے جائیں گے سب تخت گرائے جائیں گے بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی جو ناظر بھی ہے منظر بھی اٹھّے گا انا الحق کا نعرہ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو اور راج کرے گی خلقِ خدا جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 14/01/2020ہے حاضر بھی جو ناظر بھی ہے منظر بھی اٹھّے گا انا الحق کا نعرہ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو اور راج کرے گی خلقِ خدا جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 14/01/2020ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔