ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل قسط نمبر ۳

 ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل  قسط 3 از ؛ محمد ہارون قاسمی بلند شہر ۔ یوپی ۔ انڈیا فون ، 9412658062

؛؛ مسلم قوم ابھی زندہ تھی ؛؛

دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ مسلم قوم کا ابھی پوری طرح دم نہیں نکلا تھا وہ زندہ تھی اور زندہ رہنا چاہتی تھی ابھی اس میں ایمانی حرارت اور قومی غیرت موجود تھی وہ مسلمان بنکر جینا اور مسلمان بنکر مرنا چاہتی تھی وہ ہندوستان کی سرزمین پر اسلامی تہذیب و تمدن کو زندہ اور تابندہ دیکھنا چاہتی تھی وہ کسی ہندو قیادت کی اطاعت و اتباع پر رضامند نہ تھی اس کا ضمیر اپنے مسلم قائدین کے اختراعی(ہندو کی محکومیت کے) فلسفہ کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھا ۔۔۔

اس کا سیدھا سیدھا دعوی تھا کہ ملک ہمارا تھا ملک پر اقتدار ہمارا تھا انگریز نے ملک ہم سے چھینا تھا اقتدار ہم سے گیا تھا ہم نے اپنے ملک کی آزادی کے لئے سخت ترین جدوجہد کی ہے ایک طویل عرصہ تک شدید جنگ لڑی ہے بے شمار قربانیاں دی ہیں ۔۔۔ لہذا ملک ہمیں ملنا چاہئیے ملک کا اقتدار ہمارے ہاتھوں میں ہونا چاہئیے اور کم از کم اسی درجہ میں یہاں اسلامی نظام نافذ ہونا چاہئیے جیسا کہ وہ ماضی میں رائج تھا ۔۔۔

لیکن مسلمانوں کی فرسودہ اور زنگ خوردہ قیادت ذہنی اعتبار سے اس کے لئے تیار نہ تھی وہ فکری اعتبار سے پہلے ہی شکست کھاچکی تھی اور ملک پر اقتدار کی دعوی داری سے پہلے ہی دست بردار ہوچکی تھی اس کو اب ہندوستان کی سرزمین پر نفاذ شریعت کی بات کرنا پسند نہ تھا وہ ہندو کی محکومیت اور غلامی پر پوری طرح رضا مند اور مطمئن تھی ۔۔۔

اس نے دانستہ طور پر اپنی قوم کو اس مقام پر لاکر کھڑا کردیا تھا جہاں ہندوستان کی سرزمین پر مسلمانوں کے اقتدار کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہا تھا ۔۔۔

پوری قوم ایک عجیب کشمکش میں مبتلا تھی مسلمان ایک شکست خوردہ فوج کی طرح سخت افسردگی اور مایوسی کا شکار تھے اپنے ملک کے لئے ان کی تمام تر زرین خدمات اور قربانیاں رائیگاں جاچکی تھیں وہ خود کو اپنے رہبروں کے ہاتھوں ٹھگا ہوا اور لٹا ہوا محسوس کر رہے تھے ان کی سمجھ ہی میں نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ کریں تو کیا کریں ۔۔۔

یہ مایوسی کی کیفیت ابھی طاری تھی کہ فضا میں ایک عجیب سی ہلچل محسوس ہوئی اور اسی سراسیمگی کے عالم میں چند باغی رندوں اور چند پراسرار بندوں پر مشتمل ایک مختصر سی جماعت پردہ غیب سے نمودار ہوگئی ۔۔۔ جن میں مولانا اشرف علی تھانوی علامہ شبیر احمد عثمانی بیرسٹر محمد علی جناح مولانا ابوالاعلی مودودی اور علامہ محمد اقبال جیسی آفاقی و عبقری شخصیات شامل تھیں ۔۔۔ ان جنونی سرفروشوں نے ہندو قیادت کی حاکمانہ حیثیت کو قبول کرنے سے انکار کردیا ۔۔۔ اور صاف لفظوں میں اعلان کردیا کہ انہیں خدا کی حاکمیت کے سوا کسی کی حاکمیت قبول نہیں انہیں خدا کی غلامی کے سوا کسی کی غلامی منظور نہیں ۔۔۔

لیکن اس مختصر گروہ کے لئے یہ معرکہ آسان نہ تھا اسے تین محاذوں پر جنگ کا سامنا تھا ۔۔۔ انگریز سے معرکہ آرائی بدستور جاری تھی لیکن اب اس کو ہندو اکثریتی طبقہ کی ایک نئی اور سخت مزاحمت کا بھی سامنا تھا ۔۔۔ اور اس سب سے بڑھ کر یہ کہ ملت کے قائدین وقت کے عارفین اور علماء ربانیین پوری طرح کیل کانٹے سے لیس ہوکر اس جماعت کی سرکوبی کے لئے میدان میں برسر پیکار تھے ۔۔۔

اس جماعت کا نظریہ تھا کہ ملک جس راہ پر آزادی کی طرف جارہا ہے وہ صرف ہندووں کے لئے آزادی ہے جبکہ مسلمانوں کے لئے تو وہ انگریز کی غلامی سے بھی بدتر غلامی ہے ۔۔۔ کیونکہ ملک کی آزادی کا مطلب ہی یہ تھا کہ اس کا اقتدار ایک بیرونی غیر مسلم قوم کے ہاتھوں سے نکل کر ایک مقامی غیر مسلم قوم کے ہاتھوں میں جارہا تھا یعنی ہندوستان کا اقتدار ایک باطل سے دوسرے باطل کی طرف منتقل ہورہا تھا اور مسلمانان ہند کی غلامی ایک طاغوت کے ہاتھوں سے نکل کر دوسرے طاغوت کے ہاتھوں میں جارہی تھی ۔۔۔

دوسری چیز یہ تھی کہ مسلم دور اقتدار میں اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود کسی نہ کسی درجہ میں اسلامی نظام قائم تھا لہذا مسلمانوں کی خواہش تھی کہ دوبارہ پھر سے ملک میں اسلامی نظام نافذ ہو مگر ملک کی باگ ڈور ہندو کے ہاتھوں میں جانے کے بعد اس کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہ جارہا تھا ۔۔۔

لہذا اس باغی گروہ نے پوری قوت کے ساتھ مسلمانان ہند کے لئے ایک علیحدہ ایسے خطہ کا مطالبہ کردیا جہاں وہ کھلی فضا میں سانس لے سکیں جس پر صرف مسلمانوں کا اقتدار ہو اور جہاں اسلامی نظام کے نفاذ کا امکان موجود ہو ۔۔۔

جہاں ایک مسلمان کو بحیثیت مسلمان گھٹن محسوس نہ ہو جہاں گائے کے تقدس کے عنوان پر کسی مسلمان کو ذبح نہ کیا جائے جہاں بھارت ماتا کی جئے نہ بولنی پڑے جہاں وندے ماترم کہنے کےلئے مجبور نہ کیا جائے جہاں جئے شری رام اور جئے ہنومان کے نعرے نہ لگانے پڑیں جہاں کسی بابری مسجد کی شہادت نہ ہو جہاں گجرات کی کوئی خونی ہولی نہ کھیلی جائے جہاں دو وقت کی روٹی کے لئے ایمان نہ بیچنا پڑے جہاں کسی کرسی اور عہدہ کےلئے ضمیر کا سودا نہ کرنا پڑے جہاں سیاست کے بتخانے میں رکھے ہوئے لات و ہبل کی بندگی پر مجبور نہ ہونا پڑے ۔۔۔ جہاں خدا کے علاوہ کسی حاکمیت نہو اور جہاں خدا کے سوا کسی کی غلامی نہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن مسلمانوں کی محب وطن قیادت کے نزدیک مسلمانوں کے لئے یہ علیحدہ ریاست کا مطالبہ کسی الحاد سے کم نہیں تھا یہ قیادت تلملا اٹھی اس کے نزدیک وطن کا ٹوٹنا کفر تھا ۔۔۔ اس کا نظریہ تھا کہ ایمان باقی رہے نہ رہے اسلام کا وجود رہے نہ رہے اسلامی تہذیب زندہ رہے نہ رہے لیکن وطن سلامت رہے کہ یہی اس کے نزدیک آخرت میں نجات اور جنت میں داخلہ کے لئے کافی ہے ۔۔۔۔۔

جبکہ دوسرے منحرف گروہ کو اس وطن پرست قیادت کا یہ فلسفہ کسی طرح قابل قبول نہ تھا ۔۔۔ اس کی دلیل تھی کہ ؛؛ ساری روئے زمین ایک ملک ہے جس کا مالک اللہ رب العالمین ہے اور اس ملک کی ہزاروں بار تقسیم ہوچکی ہے انسان نے اس کو ہزاروں حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے لہذا اگر اس کی ایک اور تقسیم ہوجائے گی تو کونسی قیامت آجائے گی ؛؛ اس کا مزید کہنا تھا کہ ؛؛ اس بت کے ٹوٹنے پر روئے وہ جو اس کو معبود سمجھتا ہو اس کے ٹوٹنے پر تڑپے وہ جو اس کی پوجا کرتا ہو ہمارے نزدیک اس سوال کے کوئی معنی نہیں کہ ملک ایک رہے یا دس حصوں میں تقسیم ہوجائے ۔۔۔ ہمارے نزدیک تو چند مربع میل کا وہ رقبہ سارے ہندوستان سے زیادہ قیمتی ہے جہاں خدا کے علاوہ انسان پر کسی کی حکمرانی نہ ہو اور اس خطہ زمین کا ہر ذرہ خاک ہمارے نزدیک قیصر و کسری کی ہزار سلطنتوں سے بہتر ہے ؛؛

اس جماعت کے سامنے یہ سوال بھی اٹھا کہ جس علیحدہ اسلامی ملک کا آپ مطالبہ کررہے ہیں کیا فی الواقع وہاں اسلام کا نظام نافذ ہوسکے گا ؟؟؟

تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ جیسا دعوی کیا جارہا ہے جو مقصد بیان کیا جارہا ہے اور جس کے لئے ایک الگ ملک کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں اگر بمشیت الہی وہاں نفس الامر میں ویسا ہی نظام قائم ہوگیا تو ہم اس پر خدا کی بارگاہ میں سجدہ شکر ادا کرینگے اور اس پر دل و جان سے فدا ہوں گے ۔۔۔ اور اگر خدانخواستہ وہاں ویسا نظام نافذ نہ ہو سکا تو ہم انشاءاللہ اس کے نفاذ کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے جس کا امکان بہرحال اس علیحدہ ریاست میں یقینا موجود ہوگا ۔۔۔ جبکہ متحدہ جمہوری ہندوستان میں اس کا سرے سے کوئی امکان ہی باقی نہیں رہے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری)

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔