ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل قسط نمبر4

ہندوستان میں  مسلمانوں کا مستقبل

قسط نمبر 4 از ؛ محمد ہارون قاسمی۔ بلند شہر۔یوپی۔انڈیا فون ، 9412658062


متحدہ قومیت کی صداقت

جہاں تک قوم پرست قیادت کے نظریہ متحدہ قومیت (جو در اصل اکبر کے فتنہ دین الہی کا جدید ایڈیشن تھا) کی حقانیت اور صداقت کا تعلق ہے تو اس کی صحت اور صواب کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ وقت کا پورا نظام کفر اس کی پشت پر کھڑا تھا اور انگریز اور ہندو دونوں پوری قوت کے ساتھ اس کی حمایت کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔

یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ؛ لڑاو اور حکومت کرو ؛ انگریز کی مشہور اور پسندیدہ پالیسی تھی ۔۔۔ مگر یہ وقت بھی کیسا رنگ بدلتا ہے کہ اب حیرت انگیز طور پر انگریز اپنی اس دیرینہ پالیسی سے یکسر منحرف اور قومی اتحاد کا علمبردار نظر آتا ہے ۔۔۔ اب وہ ہندو مسلم اتحاد کا نقیب تھا اب وہ متحدہ ہندوستان کا حامی تھا اور اب وہ پوری شدت کے ساتھ مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ملک کے مطالبہ کی مخالفت کر رہا تھا ۔۔۔

دراصل انگریز اور ہندو دونوں نہیں چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو آزادی ملے اور وہ کھلی فضا میں سانس لے سکیں ۔۔ انگریز کی اصل دشمنی ہی مسلمانوں سے تھی وہ جانتا تھا کہ یہی قوم ہے جو اس کے اقتدار کی راہ میں سخت مزاحمت کرتی آرہی ہے اور جس نے ایک لمحہ کےلئے بھی ہندوستان پر اس کو سکون کے ساتھ حکومت کرنے نہیں دی ہے اور جس کی مخاصمت کے سبب بالآخر اس کو ہندوستان چھوڑ نے پر مجبور ہونا پڑا ہے ۔۔۔

انگریز کا منصوبہ ہی یہ تھا کہ آزادی کے نام پر مسلمان کو ہندو کی دائمی غلامی کی ایسی دلدل میں دھکیل دیا جائے جہاں سے نکلنے کا وہ تصور بھی نہ کرسکے ۔۔۔

اور ہندو کی مسلمان سے رقابت اس لئے تھی کہ اس کا اس قوم پر آٹھ سو سال پرانا قرض تھا جس کو اس سے بہرحال وصول کرنا تھا اب اگر مسلمان اپنا الگ ملک حاصل کرلیتے تو ہندو اپنا قرض کس سے وصول کرتا ۔۔۔ اور اس سب سے بڑھ کر یہ کہ انگریز اور ہندو دونوں یہ ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو علیحدہ ملک کی شکل میں کوئی ایسا آزاد خطہ میسر آجائے جہاں وہ نظام مصطفی اور نفاذ شریعت کی بات کرسکیں ۔۔۔

؛؛ ایک دھندلی سی تصویر کا عکس ؛؛

کفر کی طاقتوں کو احساس تھا کہ اگر مسلمان صحیح خطوط پر اپنے لئے کوئی اسلامی ریاست وجود میں لانے میں کامیاب ہوگئے تو بہت ممکن ہے کہ وہ اپنی عظمت رفتہ کے حصول میں بھی کامیاب ہوجائیں اور پھر یہ اسلامی ریاست نہ صرف اس خطہ پر اپنا زبردست تسلط قائم کرسکتی ہے بلکہ وہ پوری دنیا میں اپنا ایک اہم اور قائدانہ رول ادا کرنے کی اہل بھی ثابت ہو سکتی ہے ۔۔۔

لہذا ان کی کوشش تھی کہ کسی طرح بھی مسلمان اپنے اس مشن میں کامیاب نہ ہو سکیں ۔ بد قسمتی سے خود مسلمانوں میں ہی ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو پوری طرح ان کا ہم خیال تھا اور جو پورے خلوص کے ساتھ کوشاں تھا کہ کسی بھی قیمت پر مسلمان اپنا علیحدہ ملک حاصل کرنے میں کامیاب نہو سکیں ۔۔۔۔

دونوں طبقات میں یہ معرکہ آرائی اور کشمکش جاری تھی کہ آسمان پر تقسیم کی حامی باغی جماعت کے حق میں ایک علیحدہ اسلامی ریاست کے قیام کا فیصلہ ہوگیا ۔۔۔ اور غیبی طاقتوں کے ذریعہ متحدہ قومیت کے سرخیل ایک صاحب کشف بزرگ کو اس آسمانی فیصلہ سے الہامی طور پر آگاہ بھی کردیا گیا ۔۔۔ چنانچہ انہوں نے ایک مجلس میں اپنے مریدین اور معتقدین سے اپنے اس الہام کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ۔۔

؛؛ بھئی غیبی طاقتوں کا فیصلہ ہوچکا ہے کہ اب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو بن کر رہیگا ۔۔۔۔

حضرت کے اس الہامی انکشاف پر کچھ جری مریدین کی طرف سے جب یہ سوال کیا گیا کہ حضرت جب غیبی طاقتیں یہ فیصلہ کرچکی ہیں تو ان کے فیصلے کی آپ کیوں مخالفت کر رہے ہیں ؟؟؟؟ تو حضرت نے فرمایا کہ یہ ہمارا اجتہاد ہے جس پر ہم قائم ہیں اور جس کے مطابق ہم اپنی کوششیں جاری رکھیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیسا پوتر اور قابل رشک اجتہاد تھا اور کیسا پاک اور قوی زناری ایمان تھا ان روحانی اور ملکوتی ہستیوں کا جو غیبی طاقتوں سے ٹکرانے کےلئے بھی تیار تھیں مگر اپنے اجتہادی نظریہ پر نظر ثانی کے لئے کسی طرح تیار نہ تھیں ۔۔۔۔۔

مگر مشیت ایزدی کو جو منظور تھا وہ ہونا ہی تھا اور وہ ہوکر رہا ۔۔۔۔۔ اور بالآخر وہ گھڑی آگئی جب پرستاران وطن کی تمام تر مزاحمتوں اور رکاوٹوں کے باوجود مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک بنانے کا زمین پر بھی فیصلہ تسلیم کرلیا گیا ۔۔۔

مگر اب بھی صورت حال کچھ زیادہ قابل اطمینان نہ تھی اور اس مسلم ریاست کا قیام برضا و رغبت نہیں بلکہ سخت شورش اور افراتفری کے حالات میں طوعا وکرھا وجود میں آرہا تھا ۔۔۔ نہ جغرافیائی اعتبار سے تقسیم کا کوئی درست فیصلہ تھا اور نہ مسلمانوں کے لئے انتقال مکانی کی کوئی بہتر سہولت اور کوئی صحیح انتظام تھا ۔۔۔

دوسری طرف عام ہندو ۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کی اپنے علیحدہ ملک کی جدوجہد میں کامیابی کو اپنی ذلت ناک شکست تصور کر رہا تھا جس کے سبب پہلے سے ہی موجود اس کی رقابت مسلم اپنے عروج پر پہنچ گئی اور ہندو اور مسلمان کے درمیان خوفناک خوں ریزی شروع ہوگئی جس میں ایک محطاط اندازے کے مطابق قریب دس لاکھ مسلمانوں کو نہایت سفاکی اور بے دردی کے ساتھ ذبح کردیا گیا ۔۔۔۔

اور یہ ساراخونی تماشہ متحدہ قومیت کے علمبردار گروہ کی آنکھوں کے سامنے ہورہا تھا مگر کیا مجال کہ ان کے ایمان میں ذرہ برابر کوئی تزلزل آجائے ۔۔۔۔۔۔ وہ ابھی بھی پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنے اس موقف پر ڈٹا ہوا تھا کہ ہندو مسلمان ایک قوم ہیں جن کا ایک ساتھ رہنا فرض عین ہے اور جن کا جدا ہونا حرام ہے ۔ جن کا جنم جنم کا ساتھ ہے اور جو الگ الگ کبھی رہ ہی نہیں سکتے ۔۔۔۔۔

انہیں ہنگامی حالات میں کمزور ایمان والے مسلمان پوری ہمت و جرئت کے ساتھ جوق در جوق ہجرت (نقل مکانی) کر رہے تھے اور اگر سنجیدہ مورخین کی بات مانیں تو 90 فیصد سے زیادہ مسلمان اپنی تمام تر بے سروسامانی کے باوجود نقل مکانی پر آمادہ تھے ۔۔۔ مگر داستاں ابھی ختم نہیں ہوئی تھی اور محافطین وطن کا ابھی ایک آخری اور فیصلہ کن وار ہونا باقی تھا ۔۔

اس سخت اور نازک مرحلہ پر ہندووں کے دو نظریاتی گروہ ابھر کر سامنے آئے ۔۔۔۔ جن میں ہندو راشٹر کے لئے کوشاں ایک گروہ وہ تھا جو چاہتا تھا کہ اب جبکہ مسلمانوں کا ایک الگ ملک بن ہی گیا ہے تو اب سارے مسلمانوں کو اپنے ملک میں چلے جانا چاہیئے تاکہ بھارت بسہولت اور بلا کسی رکاوٹ کے ہندو راشٹر بن سکے ۔۔۔

جبکہ دوسرے گروہ کا نظریہ اس سے کچھ مختلف اور زیادہ معنی خیز تھا اس کی سوچ یہ تھی کہ اگر سارے (90 فیصد یا اس سے بھی زیادہ) مسلمان اس نو تشکیل شدہ مملکت میں جمع ہوگئے تو مسلمانوں کی یہ نوزائیدہ مملکت ایک بڑی اسلامی طاقت بن سکتی ہے جو مستقبل میں ہندوستان کے لئے بھی بڑی مشکلات پیدا کرسکتی ہے ۔۔۔

نیز یہ کہ اگر سارے مسلمان وہاں چلے گئے تو پھر ہندووں کی مزدوری اور چاکری کون کرے گا یہاں رکشہ کون چلائے گا موٹر سائیکلوں کا پنچر کون لگائےگا ان کی مرمت کون کرے گا ان کے مکان کون بنائے گا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور پھر اپنی آٹھ سو سالہ غلامی کا حساب کس سے لیا جائےگا اور اس سب سے بڑھ کر یہ کہ جب ہندوستان میں صرف ہندو ہی رہ جائیں گے ( مسلمان بہت تھوڑی تعداد میں۔۔۔ نا کی برابر ہوں گے)تو سخت اندیشہ ہے کہ وہ اپنے نظریاتی تضادات کے سبب ماضی کی طرح پھر سے آپس میں لڑنا شروع کردیں گے ۔۔۔

دھارمک اختلافی نظریات پر لڑیں گے ذات برادری کے نام پر بھڑیں گے اونچ نیچ کی بنیاد پر جنگ کریں گے اور حکومت و اقتدار کی خاطر باہم دست و گریباں ہونگے ۔۔۔ جو ہندو قوم کے مستقبل کےلئے نہایت خطرناک اور تشویشناک امر ہے ۔۔۔۔۔

لہذا ہندوستان میں ہندووں کو متحد رکھنے کےلئے لازما ایک دشمن کی ضرورت ہوگی جو مسلمان سے بہتر کوئی ہو ہی نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔ اس لئے اس کی کوشش تھی کہ ان تمام حساس تقاضوں کو سامنے رکھ کر زیادہ سے زیادہ تعداد میں مسلمانوں کو ہندوستان میں روکنے کی کوشش کیجائے ۔۔۔

ظاہر ہے یہ ایک انتہائی نازک اور حساس موقع پر جبکہ ہندوستان کے مسلمانوں کی تقدیر کا حتمی اور آخری فیصلہ ہونے جارہا تھا ملت اسلامیہ کی وحدت پر خنجر چلا نے کی ایک نہایت خطرناک سازش تھی ۔۔۔ جس کی تکمیل کے لئے پھر اسی متحدہ قومیت کے جھنڈے والے گروہ کی ضرورت تھی اور جس نے ابھی ہمت بھی نہیں ہاری تھی ۔۔۔ چنانچہ وہ اس آخری خدمت کے لئے پھر سے میدان میں آگیا اور اپنی وہبی قوت گفتار سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکا بھڑکا کر ان کی قومی وحدت پر نہایت سخت اور کارگر حملے کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری)

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔