*گاندھی جی ہمیشہ زندہ ہوتے رہیں گے___!!!* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*
*موہن داس کرم چند گاندھی (۱۸۶۹_۱۹۴۸) اس ملک کی پہچان ہیں، ایک علامت، symbol اور نشانی ہیں، اسی لئے ہر کوئی ان کا استعمال کرتا ہے، جو مخالف ہیں ان کی زبان پر بھی گاندھی ہیں، جو حمایتی ہے وہ بھی گاندھی جی کی بولی بولتا ہے، جو کمیونسٹ ہے وہ بھی گاندھی کا سہارا لیتا ہے، احتجاج کرو تو گاندھی_ ملک سے باہر جاو تو گاندھی_!! بی جے پی اور گاندھی کا کیا تعلق ہے_؟ اس سے سلسلہ میں کوئی بات پوشیدہ نہیں؛ لیکن جب مودی جی بھی بیرون ممالک سفر پر جاتے ہیں تو گاندھی ہی کا نام لیتے ہیں، کوئی بیان ایسا نہیں، جہاں گاندھی کا تذکرہ نہ کیا گیا ہو؛ بلکہ اگر کوئی غیر ملکی مہمان بھی آتا ہے تو اسے گجرات میں واقع گاندھی جی کے گھر لے جاتے ہیں، چرکھا ہدیہ کرتے ہیں، نیز کھادی کے کپڑے خود بھی پہنتے ہیں اور مہمان کو بھی بھینٹ دیتے ہیں_ ہم یہ بھول ہی نہیں سکتے کہ یہ دیس گاندھی کی تعلیم پر بنا ہوا ہے؛ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اسی کو بھلانے کی کوشش کی جارہی ہے، اب گاندھی کا نام لیکر گاندھی کو مٹانے کی سازش ہے، ویر ساوارکر کی حقیقت سب کو معلوم ہے، انہیں ویر (بہادر) کا خطاب خود ایک دھوکہ ہے، جو بین ثبوتوں سے ثابت ہے، مگر اس بارے میں کوئی کچھ نہیں کہتا، گوڈسے کو پوجا جاتا ہے، ہیڈگوار بھی دیش پریمی سمجھے جاتے ہیں، اور گرو گوالکر کو تو راشٹریہ پتا کا درجہ دیدیا گیا ہے، مگر پھر بھی گاندھی وقت وقت پر زندہ ہوتے ہیں اور ان سب پر گرد ڈال جاتے ہیں۔* *یاد کیجئے__! اس ملک نے گاندھی کے بعد کیا دیکھا، جواہر لال نہرو جیسے قد آور نیتا_ اندرا گاندھی کا ڈکٹیٹرشپ_ سنجے گاندھی کا جنون_ مورار جی دیسائی اور چرن سنگھ کی عالی خدمات_ راجیو گاندھی کا مسٹر کلین_ ایچ ڈی دیو گوڑا، مورار جی دیسائی اور اٹل بہاری واجپائی کا شائننگ انڈیا_ منموہن سنگھ کی معاشی خدمات اور کرپشن_ اور پھر نریندر مودی کا ڈیجیٹل انڈیا_ ان سب میں آپ نے گاندھی جی کو کہاں پایا، ویسے وہ ہر موڑ پر موجود رہے، کوئی سیاست ان سے خالی نہ ہوئی؛ لیکن یہ بھی بھول نہیں سکتے کہ سیاست نئ گاندھی جی کی یادوں اور تعلیمات کا استحصال کیا ہے، اور ان کی شخصیت کو محو کرنے کی کوشش کی ہے، چنانچہ نوجوانوں میں گاندھی جی کو زندہ رکھنے کا مستقل کام نہ کیا گیا_ تعلیم کے نام پر غیر تشدد کا سلوگن، کالجز اور یونیورسٹیز میں گاندھی جینتی کے سوا اور کچھ نہیں، اکثر لوگوں کو گاندھی جی کا پورا نام بھی نہیں معلوم، ابھی CAA کی مخالفت میں یہ بات آئی؛ کہ گاندھی جی اس کی حمایت میں تھے، جنہوں نے سنا وہ خموش ہوگئے؛ لیکن وہ جانتے تو بتاتے کہ گاندھی جی بلا کسی مذہب کی تفریق کے حمایتی تھے، انہوں نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ ہندوستان میں غیر ملکی مسلمانوں کے کا استقبال نہیں۔* *شکر و امتنان کی بات یہ ہے کہ آزادی ہند کے بعد کچھ واقعات ایسے ہوئے ہیں، جنہوں نے گاندھی کو نوجوانوں میں زندہ کیا ہے، سب سے پہلے یہ کارنامہ کرنے والے راجو ہیرانی ہیں، جنہوں نے ۲۰۰۳ میں "منا بھائی ایم بی بی ایس" جیسی فلم بنا کر گاندھی کو نوجوانوں تک پہونچایا، اور ایک نئی پہچان " گاندھی گری" کے طور پر دی۔ اکیسویں صدی کی نئی نسل نے جانا کہ کتابوں سے باہر گاندھی جی کیسے تھے، عدم تشدد کس طرح کام کرتا ہے، اور بغیر اسلحہ کے بھی جنگ لڑی جا سکتی ہے، اس کے بعد انا ہزارے کا ۲۰۱۱ میں اہم ترین وہ آندولن یاد کیجئے_! جس کے بعد ہر ایک زبان پر گاندھی جی کا نام تھا؛ بلکہ بہت سے لوگ تو اناہزارے کو دوسرا گاندھی کہنے لگے تھے، انہوں نے لوک پال بل (جس کے مطابق ملک کا وزیراعظم بھی تحقیق کے دائرے میں آسکتا تھا) لا کر اور غیر تشدد فارمولے کے ساتھ پرامن احتجاج کر کے پورے ملک کو کرپشن کے خلاف کھڑا کردیا تھا، یہ بات الگ ہے کہ وہ خود فاشزم کی راہ پر تھے اور انہوں نے صرف گاندھی جی کا مکھوٹا لگا رکھا تھا، مگر اس سے کسے انکار ہوگا کہ ملک کو پھر سے گاندھی کی یاد دلا دی اور انہیں لوگوں کے دلوں میں زندہ کر گئے۔* *اس کے بعد حالیہ میں CAA.NRC.NPR کی مخالفت میں ہر کوئی گاندھی جی کو یاد کر رہا ہے، شاہین باغ دہلی اور کولکتہ سے لیکر ممبئی اور حیدرآباد_ بھوپال_ بنگلور_ کیرلا تک ہر جگہ پر گاندھی کی تصویر ہے، ان کی باتیں ہیں اور ان کی راہ پر چلنے کی تلقین ہے، عجیب بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی CAA کو گاندھی کا نام لیکر ہی پھیلا رہی ہے، اور عوام کے درمیان جارہی ہے، شکر اس بات کا ہے کہ ان تحریکوں نے گاندھی جی کا اتنا زندہ کردیا ہے؛ کہ سبھی سمجھ چکے ہیں اور یہ جان چکے ہیں؛ کہ اس طرح کا کالا قانون گاندھی جی کی زندگی کا عکس ہوہی نہیں سکتا، جس گاندھی نے ۱۹۲۶ میں ایک ہندو گرو سوامی شردھا نند کے قاتل عبدالراشد کا بچاو کیا تھا اور یہ کہہ دیا تھا؛ کہ ایک کے قاتل ہونے کی وجہ سے پوری کمیونٹی کو برا نہیں کہا جا سکتا، وہ بھلا کیسے پورے ملک سے ایک کمیونٹی کو باہر نکالنا چاہیں گے، تاریخ میں یہ بھی درج ہے کہ ۱۹۴۶ میں کلکتہ کے اندر ہندو مسلم فسادات کے موقع پر گاندھی جی وہیں جا کر بیٹھ گئے تھے اور جشن آزادی کے موقع پر آپ نے دہلی آنا بھی گوار نہ کیا تھا، وہ کڑھتے ہوئے کہتے تھے کہ میں کیسے جشن مناوں جبکہ یہاں خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں_ ایسے گاندھی جی کی بارے میں یہ کہنا کہ وہ CAA کے حمایتی تھے نہ صرف تاریخ کے ساتھ بد دیانتی ہے بلکہ ظلم بھی ہے_*
Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 10/01/2020
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔