کتاب................. حالات حسرت مصنف......................مولانا محمد عارف ہنسوی ترتیب جدید وحواشی.......مولانا ومفتی محمد جنید قاسمی گنج مرادآبادی ناشر......... مولانا علی حسن اکیڈمی، محلہ انصار میدان، گنج مرادآباد، ضلع اناؤ (یوپی) 9369648963
تبصرہ............ محمد ارشد قاسمی علیگ
زیر نظر کتاب "حالات حسرت" جس میں مولانا سید فضل الحسن صاحب حسرت موہانی (بی اے) علیگ کی سوانح عمری ومکمل حالات اسیری درج ہیں، مجلس نظر بندان اسلام دہلی میں پہلی مرتبہ ١٣٢٧ھ مطابق 1918ء میں چھپی. یہ نسخہ قسط وار "نگار لکھنؤ" میں بھی چھپا پھر اس کے بعد 1939ء میں اردوئے معلّی نے ضمیمہ کے طور پر شائع کیا لیکن یہ نسخہ قدیم ہونے کی وجہ سے کمیاب تھا اور انٹرنیٹ پر دستیاب کاپی چند وجوہ سے ناقابل استفادہ تھی. ٹائٹل پر مصنف کا نام درج نہیں تھا شروع میں فہرست مضامین نہیں تھے صرف ذیلی عناوین قائم تھے صفحہ نمبر بھی درج نہیں تھا اور بعض صفحات تو ایسے تھے کہ انہیں پڑھنا بھی دشوار تھا. صلاحیت وصالحیت کے زیور سے آراستہ، میدان خطابت وصحافت کے ماہر، مطالعہ کتب کے حددرجہ شوقین ایک جید عالم دین مولانا ومفتی محمد جنید صاحب قاسمی کو اللہ رب العزت نے توفیق بخشی جنہوں نے اس کتاب کو ازسر نو ترتیب دے کر ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا، بقول منور حسن کمال (سب ایڈیٹر روزنامہ راشٹریہ سہارا نئی دہلی) "مولوی جنید قاسمی نے اس کتاب کو نئے انداز میں اس طرح مرتب کیا ہے کہ اسے ایک مستقل تصنیف کے زمرے میں رکھی جانی چاہئے، ساتھ ہی انہوں نے مولانا عارف ہنسوی کا سوانحی خاکہ پیش کرکے انہیں اس حلقے میں متعارف کرایا ہے جو یا تو انہیں جانتے نہیں یا پھر بھول بیٹھے ہیں، پھر کتاب میں تحقیق وتحشیہ کا ان کا منفرد اور مربوط ومنظم انداز کتاب کو ایک وقار عطاء کرتا ہے " یقیناً فاضل مرتب کی محنت و تحقیق، قدیم مکتوبات و مخطوطات کو پڑھنے کا شوق اوراسلاف کے کارناموں کو زندہ رکھنے کا یہ سچا جذبہ لائقِ تحسین اور قابلِ تقلید ہے. کتاب کو پڑھتے ہوئے بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مصنف نے کس درجہ خلوص ومحنت اور مرتب نے کس قدر عرق ریزی اور جانفشانی سے کام لیا ہے.اصل نسخہ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے مرتب کو کئی دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرنا پڑا اور وہ بصد شوق گزرتے چلے گئے. لائبریریوں اور کتب خانوں کی خاک چھاننی پڑی لیکن ان کے عزائم سرد نہیں پڑے. الحمداللہ آج حالات حسرت کا قدیم اور اصل نسخہ ترتیب جدید و حواشی کے ساتھ قارئین کے ہاتھوں میں ہے جس کے لئے مرتب مبارکباد کے مستحق ہیں، ساتھ ہی ساتھ اس کتاب میں یہ پیغام بھی چھپا ہے کہ رب کریم کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا. مصنف کا عمدہ اسلوب اور مرتب کے طرز نگارش نے کتاب کو بیحد دلچسپ بنا دیا ہے. دوران مطالعہ قاری اپنے گرد وپیش سے بے خبر ہوجاتا ہے، ان کے سامنے مجاہد آزادی مولانا حسرت موہانی کا سراپا ہوتا ہے، ان کی زندگی کے نقوش نظر کے سامنے گھومنے لگتے ہیں، نگاہوں میں بیسویں صدی کا ہندوستان جھلکتا ہے اور زنداں کی درودیواریں گردش کرنے لگتی ہیں، جیل کی کالی کوٹھری میں چکّی چلنے کی آواز اور سلاسل کی جھنکار کانوں میں گونجتی ہے ، کبھی حالاتِ ابتلاء وآزمائش بدن کے رونگٹے کھڑے کرتے ہیں، کبھی روداد قید وبند آنکھیں نم کرجاتی ہیں، کبھی حسرت کا صبر واستقامت قاری کو جرأت بخشتا ہے، کبھی ایثار وفدائیت قربانی کے جذبے کو ابھارتا ہے کبھی عزم واستقلال اور انقلابی اشعار دلوں میں ولولے پیدا کرتے ہیں اور کبھی حسرت کی پالیسی ان کی سیاسی بصیرت کا پتہ دیتی ہے. مصنف نے بلا کم وکاست حسرت کی پوری زندگی کو نوک قلم سے صفحئہ قرطاس پر بکھیر دیا ہے اور مرتب نے کتاب کے نوک وپلک کو سنوارنے کی بھر پور سعی کی ہے جس میں وہ سو فیصد کامیاب رہے. ترتیب جدید نے ایک صدی پرانی کتاب کے اندر قارئین کے لئے نئی دلکشی اور جاذبیت پیدا کردی ہے امید کیجاتی ہے کہ تشنگان علم وأدب کے لئے یہ کتاب مفید وکارآمد ثابت ہوگی، سرخیل آزادی مولانا سید فضل الحسن حسرت موہانی و مولانا محمد عارف ہنسوی کے لئے بہترین خراج عقیدت اور مرتب کے لئے قلمی وتحریری ترقی کا باعث ہوگی.
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔