ہم بھارت کے لوگ

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(804) *"ہم بھارت کے لوگ___"*

*ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، اس کا ایک دستور ہے، جس کے مطابق ہر شخص فکر وخیال کے اعتبار سے آزد ہے، سماج میں برابری کا حقدار ہے، سرکاری اسکیموں سے استفادہ کا حق رکھتا ہے، یہ بھی اسی کا حق ہے کہ وہ سرکار کا انتخاب کرے اور وقت بوقت اس سے سوال کرے..... یہ باتیں آئین کی بنیاد ہیں، یہی ہے جس کی وجہ سے ملک ایک سیکولر اور مذہب مکت بنتا ہے، اس ملک کا کوئی مذہب نہیں ہے؛ بلکہ مذہب عوام کا ہے، پھر یہی لوگ اپنے درمیان سے ایک قائد بناتے ہیں، جو اس وعدہ کے ساتھ ودھان سبھا، سانسد اور راجیہ سبھا میں جاتے ہیں؛ کہ وے ان سب نمائندگی کریں گے، اور دستور میں لکھے گئے حقوق میں معاون بنیں گے، اس آئین کو بنانے میں تقریباً تین سال لگے، سات کمیٹیاں، اور ہر کمیٹی میں ہر مذہب کے لوگ موجود تھے، دنیا بھر کے مختلف قوانین پڑھنے کے بعد اسے ٢٦/جنوری ١٩٥٠ میں لاگو کیا گیا، تین سو سے زائد سانسد نے دستخط کئے، جن میں سے تیس اقلیتوں میں سے تھے، اس آئین کے پہلے صفحے پر preiambl ہے، یعنی اس دستور کی روح کو نقل کیا گیا ہے، اور اسے شروع کرتے ہوئے "we the people of India" لکھا گیا ہے، یعنی ہم بھارت کے لوگ...* *اس کی نسبت کسی خاص شخص کی طرف نہیں ہے، یعنی جو کچھ ہے وہ ہم لوگ ہیں، ہم ہی سے سرکار ہے، اور ہم ہی سے سرکار کی ساری باتیں ہیں، یہ کوئی جملہ نہیں؛ بلکہ ایک احساس ہے، جو انسان کو آزادی اور برابری کے نام پر ملتا ہے، مگر دقت یہ ہے کہ ہم نے اس فقرے کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور ہم غلامی کی جانب سرپٹ دوڑنے لگے، اب اس آئین کو ہی نشانہ بنا کر "ہم بھارت کے لوگ" ہونے کا حق چھننے کی کوشش ہے. اور ملکی دھاگے کو توڑنے کی سازشیں رچی جارہی ہیں، اس آئین میں یہ بات شامل ہے کہ اگر کوئی قانون بنایا جائے؛ جس سے دوسرے صوبے متاثر ہوتے ہیں، تو ان سے بات چیت کرنا ضروری ہے، عوام کو اعتماد میں لینا ضروری ہے، جیسا جی ایس ٹی پر کیا گیا؛ لیکن کشمیر کا مدعی دیکھئے ٩٠/ لاکھ لوگوں کو ایک جیل خانہ میں تبدیل کردیا گیا، مگر کسی سے سوال تک نہ کیا گیا، CAA. NRC جیسے قوانین لائے گئے؛ لیکن کسی سے کوئی پوچھ تاچھ نہ کی گی، اور بحث ومباحثہ تو دور کی بات ہے، نوبت یہ ہے کہ صوبوں نے بغاوت کردی ہے، عوام نے سڑکوں کی راہ لی ہے، وے اب اپنے آپ کو ٹھگا ہوا سمجھتے ہیں، وے خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے، اب کس بات کی جمہوریت جب جمہور کو ہی درکنار کردیا جائے، "لوک تننتر" کا مطلب ہی عوام ہے، اگر عوام ہی سرکاری فیصلوں سے دور ہیں، اور سرکار و عوام کے درمیان ایک رسا کشی پائی جارہی ہے تو پھر کیسی "لوک تنتر"__؟* *خیال یہ تھا کہ اس آئین کے مطابق سیاست تک ایسے لوگ پہونچیں گے، جو اس کے اندر اضافہ، امینڈمنٹ کر سکتے ہیں، تشریح و توضیح کر سکتے ہیں؛ لیکن اب حال یہ ہے کہ اس در تک پہونچنے والے سب سے زیادہ جاہل ہوتے ہیں، اور سب سے زیادہ مجرم پائے جاتے ہیں، فی الوقت ١٥٤/ سانسد ایسے ہیں جن پر سنگین جرم کا الزام ہے، ان میں ٢٣٤/ لوگوں کے خلاف کوئی نہ کوئی جرم درج ہے، ١٩/تو خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور ان کے ساتھ زیادتی کرنے کے مجرم ہیں، بلکہ ٣/ ایسے ہیں جن پر عصمت دری کا الزام ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن پر قانون کو کام کرنا تھا، ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال کر جیل پہنچانا تھا، مگر یہ تو قانون بنانے پہونچ گئے، اب یہ فیصلہ کریں گے؛ کہ آپ کیلئے کیا خیر ہے اور کیا شر ہے..... وہ وقت یاد آتا ہے کہ یہ آئین جب آخری مرحلہ میں تھا تو اس وقت بابا صاحب امبیڈکر نے کہا تھا: یہ دستور صرف سادہ کاغذ ہے، جب تک سماجی تفاوت ختم نہ ہوجائے اور معاشی حساب سے درجات گھٹ نہ جائیں؛ لیکن غور کیجئے_! ابھی عوام اسی فیصد خط افلاس سے نیچے جیتی ہے، وہ دو وقت کی روٹی کیلئے مرتے ہیں، سرکاری رپورٹ کے اعتبار سے یہ ٣١/ کڑور ہیں، مگر زمینی حقیقت سب کو معلوم ہے، تقریباً ٢٠/ کڑور بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہوتے ہیں، تو وہیں یہ حال ہے کہ دیس کے ٦٣/ لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ جتنا پورے ملک کی جی ڈی پی ہو، ہمارے منتخب سانسد کا حال یہ ہے کہ ان میں ٨٠ فیصد کڑوڑپتی اور ارب پتی ہیں، اور ان کا خرچ یومیہ ہزاروں تک پہونچتا ہے، ان میں سے ایک جب انتخاب کیلئے کھڑا ہوتا ہے، تو اسے تحریری طور پر ستر لاکھ تک خرچ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، ہمارے دیس میں عوام کا یہ حال ہے، تو وہیں یہ سیاست دان صرف انتخابات کڑوڑوں روپے پھونک دیتے ہیں، سنہ ٢٠١٤ کا انتخاب تین ہزار آٹھ سو ستر کڑور کا تھا، یہ سب سے مہنگا چناؤ تھا، ملک نے اس سلسلہ میں ترقی کی ہے؛ لیکن عوام اپنا پیٹ کاٹنے پر مجبور ہیں.* *اس دیس کی بھائی چارگی بھی مشہور تھی، آئین نے اس کی حفاظت کی ہے، دفعہ ١٤_ ١٥ وغیرہ fundamental rights بھی ہیں، ہمارے ملک نے تقسیم کا زخم برداشت کیا ہے اور ہندو مسلم کی خطرناک خون زیزی دیکھی ہے، اس کے باوجود اس ملک سے مسلمانوں نے ہمیشہ وفاداری کی ہے، پاکستان سے اب تک تین بڑی جنگیں ہوچکی ہیں، ١٩٤٨_ نہرو جی کے زمانے میں ایک خطرناک صورت حال پیدا ہوئی، جو جنگ تک پہونچ گئی تھی، ١٩٦٥_ لال بہادر شاستری جی کے زمانے میں بھی یہی نوبت آئی، پھر ١٩٧١_ میں تو عالم ہی کچھ اور تھا، اندرا گاندھی نے ہی پاکستان کو منقسم کیا اور وہاں بنگلادیش کو بسادیا، یہ سب ہوا؛ لیکن کبھی یہاں کی بھایی چارگی پر انگلی نہیں اٹھائی گئی، نہ کبھی دیس پریم پر مذہب کا لیبل لگایا گیا، ان جنگوں کے دوران ہمیشہ مسلمانوں نے سرکار کا ساتھ دیا اور کبھی سرکار نے بھی یہ نہیں کہا: تم پاکستان چلے جاؤ؛ بلکہ کارگل جنگ کے موقع پر تو کشمیری مسلمانوں نے بھی ساتھ دیا تھا، لیکن آج کیا حال ہے؟ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، بات بات پر پاکستان چلے جاؤ کے نعرے گونجتے ہیں، مسلمان سیاست سے دور ہے، سماج سے دور ہے، انہیں سرکاری صیغوں سے الگ کردیا گیا ہے، ہر وقت دیس پریم کا ثبوت مانگا جاتا ہے، CAA. NRC کے ذریعے ملک بدر کرنے یا ڈینٹینش کیمپوں میں بھیجنے کی تیاری ہے، اب ایسا لگتا ہے؛ کہ آئین کی بالادستی نہیں ہے، بلکہ ان لوگوں کا قانون چلتا ہے، جو ٥٤٣/ سانسد میں سے اکثریت پاجائیں، اب انہیں کے ہاتھ میں ہنٹر ہے، جس پر چاہیں چلا دیں، قانون کو جس رخ پر چاہیں لے جائیں، بات یہی ہے کہ " ہم بھارت کے لوگ__" اس کا مطلب گم ہوگیا ہے، اب ہم سانسد کے لوگ بن کر رہ گئے ہیں، یاد رکھیں__! جب تک یہ کیفیت رہے گی ملک جمہوریت سے دور رہے گا، ملک کے اندر قانونی بالادستی کی ضرورت ہے، بھائی چارگی کی ضرورت ہے، وقت ہے کہ ہم بھارت کے لوگ بن جائیں، اور انہیں اکھاڑ پھینکیں جنہوں نے بھارت کے لوگوں کو ہندو مسلم کردیا ہے، اور اپنی سیاست کے نام پر سب کچھ جائز کرلیا ہے، یہی یوم جمہوریہ کا جشن ہوگا، یہی دیس پریم اور یہی جمہوریت ہوگی، اور پھر ہم کہیں گے یوم جمہوریہ مبارک ہو __!!*

✍ *محمد صابر حسین ندوی* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 26/01/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔