*موجودہ حالات میں ہماری ذمہ داری*
*محمد قمرالزماں ندوی* *مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*
*جسے فضول سمجھ کر بجھا دیا تم نے* *وہی چراغ جلاو تو روشنی ہوگی*
*موجودہ* ملکی حالات میں جہاں ہمیں ایک طرف ظاہری تدبیر ، قانونی کارروائی و چارہ جوئی اور احتجاج و پروٹسٹ کے ذریعے حالات کا مقابلہ کرنا ہے وہیں ہمیں دعا و ذکر توبہ و استغفار کا اہتمام اور خدا سے مضبوط تعلق بنانا ہوگا ۔ بغیر خدا شناسی اور تعلق مع اللہ کے ان حالات و مشکلات سے نکلنا نا ممکن ہے ۔ ماضی قریب کے ایک متبحر عالم اور قومی و ملی رہنما امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی نے ایک موقع پر مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا : *ہمارے سارے مسائل کا حقیقی حل خدا شناسی میں ہے ،ہمارا تعلق اللہ تعالی سے جتنا گہرا اور ہمارے دلوں میں خدا کا خوف جس قدر کامل ہوگا اتنا ہی ہمیں دینی و دنیاوی طور پر کامیابی ملے گی ۔ایمانی بصیرت اور عزم و ہمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا ہی اسلامی دینی اور اخلاقی فریضہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اللہ اور رسول کو دل سے مانیں اور ان کی ہدایتوں پر عمل کریں ۔ اگر ہم دل سے نہ مانیں گے اور عمل نہیں کریں گے تو ہمارے اوپر مصائب کے بادل منڈلاتے رہیں گے ۔ اور ہماری بربادیوں کے تذکرے ہوتے رہیں گے ۔ اس لئے سب سے پہلے ہمیں اسلامی تعلیمات و احکامات پر عمل کرنا ہوگا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ہمیں جرآت و ہمت کے ساتھ زندگی گزارنے کا عہد کرنا چاہیے ۔ ہمارے اندر یہ احساس ہونا چاہیے کہ موت برحق ہے ۔۔ یہ چار پائی پر بھی آسکتی ہے اور جنگل و بیاباں میں بھی، یہ گھر کے اندر بستر مرگ پر بھی آسکتی ہے اور ظالم کے ہاتھوں سے بھی، دل سے خوف نکالو ۔ ڈرو گے تو ختم ہو جاو گے ۔ ایک اللہ کے سامنے پیشانی جھکانے والوں کا ظالموں اور جابروں کے سامنے سر جھک نہیں سکتا ۔ ملک کا حال بہت خراب ہے آج تو ہم کو مٹانے کے لیے جتنی منظم سازشیں ہو رہی ہیں اس سے قبل نہیں ہوئی تھیں ۔ جتنا وحشتناک دور گزر چکا ہے اس سے زیادہ نازک وقت ہمارے سامنے آرہا ہے ۔ آنے والا وقت بہت تباہ کن ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عزت ،جان و مال کی حفاظت کرنا ہم پر فرض ہے بزدلی ایمان کے منافی ہے اس لئے آپ سبھوں کی ذمہ داری ہے کہ ہمت و جرآت اور عزیمت کے ساتھ حالات کا سامنا کریں ،ایسی تبدیلی پیدا کریں کہ آج کے ظالموں کو بھی یہ احساس ہو جائے کہ نقصان ہمارا بھی ہوسکتا ہے* ( امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رح بحوالہ حضرت امیر شریعت نقوش و تاثرات ۵۲۶۔ ۵۲۷) *اس* وقت وطن عزیز جن حالات سے گزر رہا ہے اس کی پیشن گوئی علماء اور اہل فراست پہلے سے کر رہے تھے کہ باطل طاقتیں یہودیوں کے اشارے پر ہندوستان میں اندلس اور اسپین کے حالات بنانے کی پوری کوشش کرچکے ہیں ۔ ان حالات میں ہماری ذمہ داری مزید بڑھ گئی ہے ۔ہم میں سے ہر شخص کا فرض اور ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان حالات میں حتی الامکان اپنی خدمات ملک عزیز کی سلامتی اور حفاظت کے لیے پیش کریں ۔ایک سب سے اہم اور ضروری کام جو ہم کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم اپنی تحریر و تقریر کے ذریعہ ہم وطنوں کو باشعور بنائیں ۔ ان کو ملک کے صحیح حالات سے باخبر کریں ۔ان فاشسٹ طاقتوں اور منو وادیوں کے بہکاوے سے بچائیں ۔ اس وقت آر ایس ایس کے کارندے شہر شہر اور گاؤں گاؤں جا جا کر مختلف ذرائع سے ان کو سمجھا رہے ہیں کہ این آر سی اور سی اے اے سے کسی کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اس سے صرف مسلمانوں کو نقصان پہنچے گا ۔ اور طرح طرح سے انہیں لالچ دے رہے ہیں اور یہ سمجھا رہے ہیں کہ جب مسلمانوں سے ملک خالی ہوجائے گا تو ان کی جائدادیں تم کو مل جائے گیں ۔ اس لئے سارے ہندو اس کی تائید کریں ۔یہ کام خاص طور پر بہار بنگال یوپی ہریانہ دلی مدھیہ پردیش وغیرہ میں زوروں پر ہے ۔ یوپی تو اس وقت سب سے زیادہ حساس اور نازک بنا ہوا ہے ۔اور یہاں کے دیہات تو فرقہ پرستوں کی مشقوں اور غلط فہمیوں کا مرکز بن چکے ہیں ،جس کی وجہ سے یہاں کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ تشویش پائی جا رہی ہے ۔ ہم کو منظم اور منصوبہ بند طریقے سے برادران وطن کو بتانا ہے کہ اس ایکٹ سے سب کا نقصان ہے اور سب کی بربادی ہے اس بل سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں دلتوں ہے ۔ پسماندہ طبقوں، پچھڑوں (ایس ٹی ایس سی او بی سی ) کا سب سے زیادہ نقصان ہے ۔ اس وقت ان حالات کا مقابلہ کرنا ہمارے لئے فرض عین کی طرح ہے ۔ اللہ تعالٰی نے جن کے اندر زبان و بیان اور قلم و قرطاس کی صلاحیت دی ہے ان کو میدان میں کود جانا چاہیے ۔ان کو باقاعدہ ہدف ملنے تک اپنے مشن کو جاری رکھنا چاہیے نہ خود آنکھ بند کریں اور نہ لوگوں کو غفلت میں رہنے دیں ۔ یہ وقت کسی کے لئے آرام اور سونے کا نہیں ہے ۔ ہم لوگوں کو بتائیں کہ یہ وقت ظاہری تدبیر اختیار کرنے کا بھی اور رجوع الی اللہ کا بھی ۔ ہم صدق دل سے دعاؤں میں لگ جائیں ۔ توبہ و استغفار کریں۔ نفلی روزہ رکھ کر اللہ سے دعا کریں ۔ معلوم نہیں کس پراگندہ حال اور اشعث و اغبر کی دعا قبول ہوجائے اور وطن عزیز کو اس آزمائش سے نکال دے ۔ ان حالات مین ہماری ذمہ داری یہ بھی بنتی ہے کہ ہم مسلمانوں کو سمجھائیں کہ آپ شکست خوردہ نہ ہوں نفسیاتی طور پر مرعوب اور ہزیمت خوردہ نہ بنیں ۔ یقینا و اعتماد رکھیں جو نوشتئہ تقدیر ہے جو قضا و قدر میں لکھ دئے گئے ہیں وہ ہوکر رہے گا اصل تو آخرت ہے دنیا کی کیا حقیقت ہے ؟ اس دنیا کی حقیقت تو اللہ کے یہاں مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے ۔ اس لئے بالکل نہ ڈریں اور نہ خوف کھائیں ۔حوصلہ اور ہمت بلند رکھیں ۔ جو لوگ میدان میں ہیں ان کو حوصلہ دیں ان کے لئے دعائیں کریں ۔ ایسی تقریر اور تحریر سے بچیں جس سے آپس ہی میں اختلاف و انتشار بڑھے اور اپنا ہی وزن اور حیثیت ختم ہو ۔ ایک اور چیز جو ضروری ہے کے ایسے حالات کے مقابلے کے لئے منفی نہیں بلکہ ایجابی اور مثبت طریقہ اختیار کریں اور یہ یقین رکھیں کہ پریشانیوں اور دقتوں کے بعد آسانیاں آتی ہیں ۔ عسر کے بعد یسر کا معاملہ ہے ۔ دقتیں امتحانات و آزمائش امتوں اور قوموں کو مضبوط بنانے کے لئے آتے ہیں نئ قیادتیں ابھرتی ہیں ۔ نوجوان نسل بیدار ہوتی ہے اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی ہمت شعور اور جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ اپنے اور غیروں کی تمیز ہوتی ہے مصلح اور مفسد مومن اور منافق کا فرق واضح ہوتا ہے ۔ مخلص اور صادق نکھر جاتے ہیں خائن اور غدار جان لئے جاتے ہیں ۔ ملک کے تمام باشندوں سے سے بلا فرق مذھب و ملت روابط بہتر اور خوشگوار بنائیں اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کریں ۔ حکومت کی منفی اور سلبی پالیسیوں سے ان کو واقف کرائیں اور ان کو بتائیں کہ اگر کشتی کے نیچے کی منزل کےلوگ ڈوبیں گے تو اوپر کی منزل والے بھی نہیں بچ پائیں گے ہلاکت دونوں کی ہوگی ۔ اس لئے آپ لوگ غلط فہمیوں میں نہ رہیں اور نہ جھوٹے خواب میں مبتلا رہیں ۔ ملکی مسائل کو حل کرنے میں یونیورسٹی کے طلبہ جو قربانیاں دے رہے ہیں وہ لائق صد تحسین و ستائش ہیں وہ اس مہم کو جب تک مطالبہ منظور نہ ہوجائے جاری رکھیں ملکی مسائل کو حل کرنے میں یہ احتجاج ان شاء اللہ سب سے زیادہ موثر ہوگا ۔ ان طلبہ سے اپیل ہے کہ اس مہم میں غیر مسلم طلبہ کی شرکت کو اور زیادہ کریں ۔ ہم مسلمان اپنوں میں اصلاح اور اتحاد و اتفاق پیدا کریں اور غیر مسلم بھائیوں تک اسلام کی تعلیمات پہنچائیں ۔ نیز اپنے تمام اختلافات کو بھلا کر اور مل جل کر ملک کو آگے بڑھائیں اور اس کے لئے ٹھوس اقدامات کریں اور مضبوط حکمت عملی طے کریں ان شاء اللہ حالات بدلیں گے فضا تبدیل ہوگی اور ماحول خوشگوار ہوں گے ۔ تاریکی کے بعد روشنی پھیلے گی شام کے بعد صبح آئے گی رات کے بعد دن نکلے گا شرط یہ ہے کہ *جسے فضول سمجھ کر بجھا دیا تم نے* *وہی چراغ جلاو تو روشنی ہوگی*
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔