قدرت کی بخشی ہوئی نعمتوں میں احساس کی پاکیزگی شعور کی بیداری اور جذبات کے اظہار کی قوت بہت بڑی اور انمول نعمت ہے۔
زندگی کے دشت بے اماں میں سانسیں لینے والی انسانیت کے سارے افراد وقت کے دوش پر کبھی گلزار وں میں تو کبھی صحرائے ناپیدا کنار میں سفر کرتے ہیں۔ان کے دل کی بنجر زمینیں کبھی مسرتوں کی رم جھم رمجھم بارشوں کے قطرے سے نہال ہو کر شاداب ہوجاتی ہے اور ایک لمحے کے بعد رنج وآلام کی خزاں اس طرح ان گلشنوں پر ڈیرے ڈالتی ہے کہ بھرا پرا گلزار ہستی بکھر کر رہ جاتا ہے۔ متضاد کیفیات کے ان جہانوں سے دوسروں کو آشنا کرانے کے لئے ہر فرد کا دل بے تاب وبے قرار رہتا ہے'۔ مگر راہ حیات میں پیش آنے والی واردات قلب اور جذبات بے کراں جو سمندر کی موجوں کے مانند مچلتے رہتے ہیں ان کی ترسیل وانتقال کی قدرت ہر ایک کے بس میں کہاں۔ کہ وہ ان کی ترجمانی کرسکے۔بالآخر زندگی کے سفر کے بہت سے راز ہائے سربستہ زندگی کے ساتھ ساتھ وقت کی تاریکیوں میں ہمیشہ کے لیے دفن ہوجاتے ہیں۔ ہاں۔۔زندگی کے تجربات و مشاہدات کو وسعت دے کر۔اسے نفع بخش بناکر۔جاوداں کرنے عمل ان لوگوں کا حصہ ہے جن کا وجود شعور ووجدان کی صحت۔ ذوق ومزاج کی لطافت ۔ احساس کی پاکیزگی اور فکر کی بلندی کے ساتھ ساتھ اظہار خیال کی زبردست قوت و صلاحیت سے آراستہ ہو۔ اردو ادب کے آسمان پر سجی ہوئی ہفت رنگ کہکشاں کاایک روشن ستارہ مولانا عبد اللہ اعظمی صاحب انہیں خوش نصیب لوگوں میں ہیں'جنھیں فیاض ازل نے مذکورہ قدرت وصلاحیت کی نعمت سے نوازا ہے۔ ان کے پاس ایک خوبصورت احساس ہے'جس میں زندگی کی بہاریں خیمہ زن رہتی ہیں اور ماحول کی بے رحم روایتیں اور کج ادائیاں بھی ناسور کی طرح پیوست رہتی ہیں۔ ان کے وجود میں بصیرتوں کی ایک نگاہ ہے جو حالات کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیتی ہے اور بے لاگ اس کا نقشہ کھینچ کر مستقبل کے نتائج اخذ کرتی ہے'۔ ان کے اندر واردات قلب کے اظہار کی ایک مضبوط قوت ہے'جو بڑے سلیقے سے کائنات کی سطح پر بکھرے ہوئے مناظر کی عکاسی کرتی ہے'۔۔۔ اور اس طرح ان کی تصویریں بناتی ہے کہ اس کا جائزہ لینے والا ان منظروں میں کھو جائے۔ اور یہ بدیہی بات ہے'کہ کسی کی منظر نگاری کے حسن کا سب سے بڑا ثبوت ناظرین کا اس فنکاری کے حسن کا اسیر ہو جانا ہے'۔۔۔۔ میرے اس دعوے کا ثبوت خود زیر تبصرہ تحریر کی خوبصورتی ہے'۔ جس میں اعلی ذوق رکھنے والے ناظرین محسوس کررہے ہیں کہ اس تحریر میں لسانی جدت بھی ہے'اور بیان کی سلاست بھی۔ ترتیب کا حسن بھی ہے'اور لفظوں کی سحر کاری بھی۔ کسی طلائی انگوٹھی میں زمرد کے نگینے کی طرح اشعار کی جگمگاہٹ بھی ہے'اور تشبیہ واستعارات کی کہکشاں بھی ہے'۔ عبارتوں میں پہاڑوں سے نکلے ہوئے تیز رفتار آبشاروں کی سلاست بھی ہے'اور مسطح میدانی علاقوں میں مست خرام لہروں کی سنجیدگی بھی۔ حاصل یہ کہ اس سفرنامے میں معارف وعلوم کے ساتھ ساتھ ادب وانشا کی فنی و لسانی تمام خوبیوں کا ایک جہاں آباد ہے'۔ اس طرح جیسے برسات کے موسم میں افق پر قوس قزح کے روح افزا رنگ بکھر کر پوری فضا کو اپنے حسن سے مسحور کر دیتے ہیں۔۔۔
شرف الدین عظیم قاسمی اعظمی۔
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔